Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

محبت سے کہے ہوئے دو جملے بھی افسردہ کر دیتے ہیں، اقبال قمر

بزم ِ ادراک اور الفانوس کے زیرِ اہتمام الوداعیہ میں اظہار خیال 
 ادب ڈیسک۔الخبر
   ہم اکثر کہتے ہیں کہ پرندوں کی ڈار جو ایک دفعہ بچھڑ جائے، وہ دوبارہ مشکل سے ملتی ہے۔ اسی طرح پردیس میں رہنے والے ایک دفعہ بچھڑ جائیں تو قسمت سے ہی دوبارہ ملتے ہیں۔ ہمارے ادبی حلقوں میں چونکہ پاک و ہند کے احباب شامل ہوتے ہیں اس لئے دوبارہ ملنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے جب کوئی پردیسی وطن لوٹ رہا ہو تو احباب دل کے دریچے کھول کر محبتیں نچھاور کرتے ہیں۔ ادب قبیلہ نے بھی اس روایت کوقائم رکھا ہے۔
منطقہ شرقیہ کی شان، غزل کی پہچان منطقہ شرقیہ کے استاد شاعرو خاکہ نگار اور اوورسیز پاکستانی رائٹرز فورم کے روحِ رواں اقبال احمد قمر 35 برس کا عرصہ مملکت سعودی میں گزارنے کے بعد دیارِ مقدس سے دیارِ وطن روانہ ہوئے تومنطقہ شرقیہ کی فعال ادبی تنظم بزِم ادراک اور عالمی ادبی تنظیم الفانوس کے زیر اہتمام مقامی ہوٹل میں الوداعی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ صدارت بین الاقوامی شہرت کے حامل تین شعری مجموعہ ہائے کلام کے خالق ،بحرین سے تشریف لائے ہوئے شاعر اقبال طارق نے کی۔مہمان خصوصی کی نشست پر صاحبِ جشن ،اقبال احمد قمر تشریف فرما تھے۔ مہمانانِ اعزازی کی نشستوں پر منطقہ شرقیہ کے سینیئر شاعر سعید اشعر، بحرین سے تشریف لائے ہوئے ہردلعزیر شاعر ریاض شاہد، بزم اردو ادب، الاحساءکے صدر مترنم لہجے کے شاعر حکیم اسلم قمر اور بھوپال این آر آئی ویلفیئر فورم کے ڈائریکٹر رشید خان متمکن تھے۔ 
مزید پڑھئے:”ترک تعلقات پہ دکھ تو بہت ہوا
تقریب دوحصو ں پر مشتمل تھی۔ پہلے حصے میں اقبال احمد قمر کے فن پر روشنی ڈالی گئی جبکہ دوسرے حصے میں شاندار اور یادگار محفلِ مشاعرہ کا اہتما م کیا گیا۔پہلے حصے کی نظامت کے فرائض منفرد لہجے کی شاعرہ، افسانہ نگار ،فکاہ نگار اور مدیرہ ڈاکٹر انیلا صفدر نے بہترین انداز میں اداکئے جبکہ دوسرے حصے کی نظامت کی ذمہ داری صدر بزم ِ ادراک و صدر الفانوس ،سعودی عرب، شا عروادیب محمدایوب صابر نے اپنے انداز میں ادا کی۔
تقریب کا آغاز تلاوتِ کلام ِ پاک سے ہوا جس کی سعادت مترنم لہجے کے شاعر ،ٹوسٹ ماسٹرز کلب کے ایریا ڈائیریکٹروقار صدیقی نے حاصل کی ۔ اس کے بعد مہمان خصوصی کے اعترافِ فن پر بزم ادراک اور الفانوس کی جانب سے اقبال طارق اوررشید خان نے جبکہ بزم اردو ادب الاحساءکی جانب سے حکیم اسلم قمر اور ریاض شاہد نے شیلڈ پیش کی۔ محمد ایوب صابر نے استقبالیہ کلمات میں بحرین ، ریاض، الجبیل، الاحسائ، ابقیق، دمام، الخبر اور دہران سے آئے ہوئے شعراءو سامعین کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے کہا کہ بزمِ ادراک کا مقصد ادب کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔الفانوس ایک عالمی تنظیم ہے جوگوجرانوالہ کا رجسٹرڈ ادبی ادارہ ہے جس کے تحت ادب کو فروغ اور قومی تہوار منانے کے علاوہ کتب پر ایوارڈز دئیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر انیلا صفدر نے اقبال احمد قمر کے فن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اقبال احمد قمر منطقہ شرقیہ کے مشاعروں کی جان اور اوورسیزپاکستانی رائٹرزفورم کے بانی ہیں۔ اوورسیز پاکستانی رائٹرز فورم وہ پلیٹ فارم ہے جس نے ادب کے میدان میں نت نئی جہتیں متعارف کرائی ہےں۔اس نے ماہانہ تنقیدی نشست کا انعقادکیا جس کے بدولت منطقہ شرقیہ سعودی عرب میںادب کی راہیں وسیع ہوتی گئیں۔اقبال احمد قمر نے کیا خوب کہا ہے:
 جتنی توفیق ہو تدبیر بدل جاتی ہے
 سعی کامل ہو تو تقدیر بدل جاتی ہے
ڈاکٹر عابد علی نے منظوم خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا:
 رکھتے ہیں علم و فن میں وہ اپنا الگ مقام
 خود آپ اپنے عہد کی پہچان ہیں قمر
ہیں وہ دیارِ غیر میں مقبول ہر طرف
اک با وقار شاعرِ ذیشان ہیں قمر
ایوب صابر نے کہا کہ اقبال احمد قمر نے اپنی شخصیت کی وضع داری اور تمکنت کو شعروں میں اس طرح ڈھالا کہ ان کی شاعری اقبال احمد قمر کا پرتو نظر آتی ہے ۔ربع صدی تک جگر کا لہو نچوڑ کر شعر کشیدکرناایک جاں گُسل دور ہے اس سفر میں تھکن کا احساس غالب آنا ایک قدرتی امر ہے لیکن خوش آئند مرحلہ یہ ہے کہ اقبال احمد قمر اس تھکن کے باوجود بیٹھنے پر آمادہ نہیں۔اس سفر میں جب پاﺅں سے خون رستا ہے تودھرتی کا سینہ رنگین ہوتا ہے ۔اسی طرح جب قلم قرطاس پر چلتا ہے تو روشنائی سے قرطاس کا سینہ جگمگا اٹھتا ہے۔ اس سفر پر کون فخر نہیں کرے گا ۔ 
مزید پڑھئے:میں اپنے نفس کی تہذیب میں لگا ہوا ہوں
سید ابرار حسین نے کہا کہ میرا اور اقبال احمد قمر کا ساتھ تقریباً 35برس پرانا ہے۔ سعودی عرب میں قیام کے ابتدائی دنوں میں ہماری شامیں اکثر اکٹھے گزرتی تھیں۔ ہمارے خاندانی مراسم ایک دوسرے کے ساتھ ایسے ہیں کہ سگے بھائیوں سے بڑھ کر رشتہ ہے۔ افضل خان نے کہا کہ میرا اقبال احمد قمر سے 1980ءسے تعلق ہے۔ میں سید ابرارا ور اقبال احمد قمر اپنے ویک اینڈ ایک ساتھ گزارتے تھے۔میرے طویل سفر میں اقبال احمد قمر میرے ہمسفر رہے ۔ہم دونوں ذکاءصدیقی کے شاگرد ہیں۔ اُس زمانے میں بھی ہمارے استاد اقبال احمد قمر کی طرف زیادہ توجہ دیتے تھے ،اس لئے کہ وہ اقبال احمد قمر کی صلاحیتوں کو پہچانتے تھے۔ انہوں نے اِس ہیرے کو ایسا تراشا کہ اِس کی چمک ابھی تک قائم ہے۔ بالآخر الفاظ نے افضل خان کا ساتھ چھوڑ دیا اوران کا عکس اقبال احمد قمر کی آنکھوں میں تیرتے نمکین پانی میں صاف نظر آ رہا تھا۔
سعید اشعر نے کہا کہ اقبال احمد قمر سے میری پہلی ملاقات 2004ءمیں ہوئی۔اُس ملاقات میں اقبال قمر نے مجھے کہا کہ اپنا کوئی شعر سناﺅ اور اُس کے بعد انہوں نے مجھے اپنی دو غزلیں سنائیں اور اپنامجموعہ کلام”شام کی زد میں“ عطا کیا۔وہاں سے جو دوستی کا آغاز ہو ا تو اُس میں کسی مرحلے پر کمی واقع نہیں ہوئی۔اقبال قمر منطقہ شرقیہ کے واحد شاعر ہیں جن سے میں کسی مصرعے کے حوالے سے کسی ترکیب کے حوالے سے یا کسی شعر کے حوالے سے بات کرتا ہوں۔مجھے منطقہ شرقیہ میں اِن کا کوئی متبادل نظر نہیں آتا۔
ریاض شاہد نے کہا کہ اقبال احمد قمر سے میرا بہت گہرا تعلق ہے۔ ایک دو ملاقاتوں کے بعد اِن سے تعلق کا رشتہ دوستی میں تبدیل ہو گیا۔میں نے جب بھی اِن کو بحرین آنے کی دعوت دی تو یہ تشریف لائے۔میں نے اِن کے شعری مجموعہ کلام کی تقریب رونمائی بحرین میں بھی کرائی ۔میں اکثر اِن سے استفادہ کرتا رہا ہوں۔
اقبال احمد قمر نے کہا آپ سب نے جس محبت کا اظہار کیا ، میں تہہ دل سے آپ کا ممنون ہوں ۔مجھے یہاں سے جانے کا کبھی ایک دن کے لئے بھی ملال نہیں ہوا، کبھی میری آنکھ میں آنسو نہیں آئے لیکن آج ضبط کھو دیا ہے۔ میں دکھ کو کبھی اہمیت نہیں دیتا لیکن محبت سے کہے ہوئے ایک دو جملے مجھے افسردہ کر دیتے ہیں۔ میں خوش قسمت ہوں مجھے دوستوں نے جس انداز سے رخصت کیا ہے، اس سلسلے کی ابتدا بھوپال این آئی کے صدر شہریار خان نے کیف بھوپالی ایوارڈ سے کی تھی اور اس کی انتہا ایوب صابر نے کی ہے۔اس کے درمیان بھی جو پروگرام ہوئے، اُن میں بھی محبت کا اظہار تھا۔میرے والد صاحب نے مجھے ایک بات کہی تھی کہ یوں وقت گزارنا کہ جب سعودی عرب چھوڑ کر اپنے وطن آﺅ تو وہاں لوگ آپ کو اچھے الفاظ میں یاد کریں۔ میں نے اس بات کو ہمیشہ یاد رکھا ہے۔ اگر مجھے سعودی عرب چھوڑنے کا ملال ہے تو صرف اتنا کہ میں اپنے دوستوں کو چھوڑ کر جا رہا ہوں۔سید ابرار اور افضل خان میرے ابتدائی دوستوں میں شامل ہیں ۔ میں اگر شاعر نہ ہوتا تو اِن کی صحبت میں بیٹھ کر گلوکار بن جاتا۔ذکاصدیقی ،اقبال نواز اور یونس اعجاز نے میری ادبی تربیت کی۔ میں شعراءسے یہی کہوں گا کہ ایک دوسرے سے استفادہ کریں۔ 
اب کلامِ شاعر بزبانِ شاعر کا مرحلہ آیا تو محفل کا رنگ ہی بدل گیا۔اداسی کے بادل چھٹ گئے،تازگی کا احساس غالب آ گیا۔ اقبال طارق نے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کے لئے میرا پہلا سفر 2011ءمیں ہوا تھا جو اقبال احمد قمرکے ساتھ تھا۔ ان کے بارے میں اتنا کہوں گا کہ وہ قمر تھے، قمرہیںاور قمرہی رہیں گے۔
اس مرحلے پر ایوب صابر نے نظامت کے فرائض سنبھالے۔ شعرا نے اپنے بہترین کلام کا انتخاب کر لیا تھا۔ ہر شاعر کلام سے سامعین کو متاثر کر رہا تھا۔ ہر شعر کو توجہ سے سنا جا رہا تھا اور بے ساختہ دادکے موتی شعرا کے دامن میں ڈالے جا رہے تھے۔ ایسا منظر جس کی منطقہ شرقیہ میں مثال ملنا مشکل تھی۔ شعرا نے شعر کہنے میں کمال دکھایا اور سامعین نے داد و تحسین کے ذریعے لہجے کی تازگی کا اعتراف کیا ۔ اس ماحول میں کس شاعر نے مشاعرہ لوٹا ، اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کیونکہ سامعین نے ہر شاعر کے اچھے شعر پر داد دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اس تقریب میں اقبال احمد قمر نے اپنا کلام سنا کر حاضرین محفل کا شکریہ کیا تو تمام شرکاءنے احتراماً کھڑے ہو کے تالیاں بجا کرانہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ اعجاز الحق ، معراج الدین صدیقی، عبداللہ عامر، دانش نذیر دانی، داﺅد اسلوبی،میم شین کامل، اقبال اسلم، بلال کوکب، جاوید سلطانپوری، عبدالسلیم حسرت، وقار صدیقی، کمال احمد بلیاوی، اکرم زاہد، رفیق آکولوی، ڈاکٹر انیلا صفدر، ثاقب جونپوری، ڈاکٹر عابد علی، محمد ایوب صابر، افضل خان، تنویر احمد تنویر ، حکیم اسلم قمر، ریاض شاہد، سعید اشعر ، اقبال احمد قمراور اقبال طارق نے اپنا کلام پیش کیا۔افتخار احمد، ڈاکٹر عاطف الرحمان، سید ابرار، ابوشارق،چوہدری صفدر، منصور شاہ، شہریار خان محمد خان و دیگر نے مہمانان کی حیثیت سے شرکت کر کے محفل کو رونق افروز کیا۔ قارئین کے ادبی ذوق کی تسکین کے لئے شعراءکے کلام سے اقتباس پیش:
٭٭اعجازالحق:
 تم تو بلبل ہو تیرا کام ہے گاتے رہنا
 سارے گلشن کو ہی غفلت سے جگاتے رہنا
 کل تھکا ہارا مسافر کوئی بیٹھے گا یہاں
 ہاتھ سے اپنے نئے پیڑ لگاتے رہنا
٭٭معراج الدین:
 کسی کا دل کو مرے اب تو انتظار نہیں
 تسلی دینے کو اب کوئی غمگسار نہیں
 میں بے حسی کے نگرمیں قیام کیا کرتا
 ہوا ہے حادثہ پر کوئی سوگوار نہیں
٭٭عبداللہ عامر:
لگتا ہے کچھ انجانا سا
 کچھ اپنا کچھ بیگانہ سا
 جو گلشن آباد کبھی تھا
آج لگے کچھ ویرانہ سا 
٭٭بلال کوکب:
 میں اب نادان ہونا چاہتا ہوں
 خرد کی شان ہونا چاہتا ہوں
 کوئی رشتہ نہیں اب اپنا رشتہ
 میں اب انجان ہونا چاہتا ہوں
٭٭دانش نذیر دانی:
 اُسی نے آکے اجاڑا ہے مرے دل کا سکون
 اُسے کہو کہ یہ نقصان وہ بھرے ہی بھرے
 میں اب کی بار نہیں اُٹھنے کا نذیرایسے
 مرا سکون یہاں لا کے وہ دھرے ہی دھرے 
٭٭میم شین کامل:
 دل ہے اگر کتاب تو چہرہ ورق ورق
 اُس پہ لکھی ہے تلخی¿ دنیا ورق ورق
 ایسی بھی اک کتاب مرتب کرے کوئی
 جس میں ہو ذکر آپ کا میرا، ورق ورق 
٭٭داﺅد اسلوبی:
 خود کو خود سے ہی بے خبر رکھا
 تیری یادوں کو ہمسفر رکھا
 زندگی دیکھ تیری چاہت میں
 تیرے غم کو بھی معتبر رکھا
٭٭اقبال اسلم:
 تیری چنگاری شعلہ ہوئی
 میرا سورج دیا ہو گیا 
٭٭جاوید سلطانپوری:
 خدایا ایسے جنوں کی مجھے ہوا نہ لگے
 کھلا ہو بابِ قفس اور مجھے کھلا نہ لگے
 نجانے کیسی عبارت ہے اُ س کے چہرے پر
 خفا ہو پاﺅں سے سر تک مگر خفا نہ لگے
 ٭٭سلیم حسرت:
 چھیڑا تھا اُسے پہلے جہاں یاد رہے گا
 چہرے پہ وہ سینڈل کا نشاں یاد رہے گا
 بھاگا ہے تُو لے کر میری معشوق کو قاصد
 تُو یاد رہے گا ہمیں، ہاں یاد رہے گا
٭٭کمال احمد بلیاوی:
 سکون چین زمانے میں اب بھی ممکن ہے
 مگر یہ شرط کہ قانون بس خدا کا چلے
٭٭اکرم زاہد:
 کرگسوں کے جہاں سے باہر آ
 لذتِ جسم و جاں سے باہر آ
 رازِ ہستی کو جاننے کے لیے
 کُنج ِ وہم و گماں سے باہر آ 
٭٭ڈاکٹر انیلا صفدر:
 میں تو سمجھی تھی وفا ہے یہ خزانہ لوگو
 شہر کے لوگ مگر سارے بھکاری نکلے
٭٭وقار صدیقی:
 میں جانتا ہوں یہ روشن جہان میرا ہے
 زمیں نہیں ہے مگر آسمان میرا ہے
 مرا یہ جسم کسی کا اسیر ہو تو رہے
 مرا ضمیر مگر پاسبان میرا ہے
٭٭رفیق آکولوی:
 بھول کر شکوے گِلے ہم بھی بغلگیر ہوئے
 لفظ بھائی میں ہے جادو میرے بھائی کیا کیا
 وقتِ رخصت تیر ی آنکھوں میں جو آنسو دیکھے
 عمر بھر سہتے رہے کربِ جدائی کیا کیا
٭٭ثاقب جونپوری:
تعاقب میں مرے سایہ ہے میرا
اکیلاتھا پہ اب تنہا نہیں ہوں
کمندیں روز پھینکی جا رہی ہیں
ابھی تک ہاتھ میں آیا نہیں ہوں
 ٭٭ڈاکٹر عابد علی:
 مطمئن خواب سے ہونے نہیں دیتا مجھ کو
 غم ترا رات کو سونے نہیں دیتا مجھ کو
 مجھکو دینا پڑا عابد اُسے موسم کا لگان
 فضل ہر سال جو بونے نہیں دیتا مجھ کو
٭٭محمد ایو ب صابر:
 غزل کو ہم نے دیا ہے جدید سا لہجہ
 خیال و حرف سے تازہ کشید سا لہجہ
 جو آئینے کو کیا میں نے روبرو اُس کے
 تو ہو گیا ہے اچانک شدید سا لہجہ
٭افضل خان:
 دید کے ارمان آنکھوں میں سجے رہ جائیں گے
 تم نہ آو¿ گے تو بجھ کر یہ دیے رہ جائیں گے 
 داغِ دل سب جل رہے ہوں گے مگر پلکوںتلک
 آتے آتے پانیوں کے بلبلے رہ جائیں گے
٭٭تنویر احمد تنویر:
 بے وفا جھوٹا نہیں ہے باوجود اِس کے کہ ہے
 یہ میرا دعویٰ نہیں ہے باوجود اِس کے کہ ہے
 نام دل میں غیر کا رکھ کر ہمیں کہتا ہے کیوں؟
 دل میں کچھ رکھا نہیں ہے باوجود اِس کے کہ ہے    
٭٭حکیم اسلم قمر:
 جو میرا دل ہی مرا دل نہیں تو پھر کیا ہے
 غمِ فراق میں گھائل نہیں تو پھر کیا ہے
 اُسی کے ذکر سے محفل کا رنگ ہے قائم
 اگر وہ رونقِ محفل نہیں تو پھر کیا ہے 
٭٭ریاض شاہد:
 چلتے چلتے ہوئے اکثر میں ٹھہر جاتا ہوں
 سوچ میں ڈوبتا ہوں، ڈوب کے مرجاتاہوں
 اپنے سرمایہ¿ جاں کو میں سنبھالوں کیسے 
 ایسی تنہائی ہے، تنہائی سے ڈر جاتا ہوں
٭٭سعید اشعر:
 بجھ بجھ کے جل رہا ہے دیا کوئی مشورہ
 پاگل سی ہو رہی ہے ہوا کوئی مشورہ
 یاروں کے مسئلے ہوں کہ اپنا ہو مسئلہ
 رکھتا ہوں سب کو ایک جگہ کوئی مشورہ 
٭٭اقبال احمد قمر:
 ہر ایک مرحلہ آسان کرنے والا ہوں
 میں خود کو بے سروسامان کرنے والا ہوں
 وہ جس کو منظرِ خوش دیکھنا ہو دیکھ لے اب
 کہ شہرِ دل کو میں ویران کرنے والا ہوں
 اٹھا رہا ہوں میں اب کارِ عشق سے بھی ہاتھ
 یہ جانتا ہوں کہ نقصان کرنے والا ہوں
 ٭٭اقبال طارق:
چراغِ شوق میں جلتی ہیں عمر کی نیندیں
تو چند خواب کہیں لوح پر اترتے ہیں
 

شیئر: