Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”روبینہ تو مر چکی،اب صرف بیٹے کی ماںزندہ ہے “

بیاہ کر آسٹریلیا گئی، 2ماہ بعد طلاق ہوئی ،اسکا بیٹا ہے جسے باپ نے کبھی پو چھا نہیں
تسنیم امجد ۔ریا ض
مجھے آج تک رو بینہ کی دادی یاد ہیں ۔ان کا موڈ ہر وقت خراب رہتا تھا ۔ان کے گھر جائیں تو یو ںلگتا تھاکہ سبھی سہمے ہو ئے ہیں۔دادی کے چہرے پر ہر لمحہ نا گواری کے آ ثار نمایاںرہتے تھے ۔انہیں ہمیشہ دشنام طرا زی کرتے دیکھا ۔اکثر بد دعا ئیں ان کی زبان پر رہتی تھیںکہ فلا ں ، تجھے یہ ہو جائے اور فلا ں تو اس طر ح مرے و غیرہ ۔گھر کے کام والی انہیں سمجھا تی کہ بڑی اماں ایسے نہ بولا کریں کیو نکہ کوئی بھی وقت قبو لیت کا ہوسکتا ہے، منہ سے نکلے الفا ظ فوری قبول ہو جاتے ہیںلیکن ان پر کوئی ا ثر ہی نہیں ہوتا تھا ۔ان کی زبان پر یہ بھی رہتا کہ ” تمہیں نہیں پتہ میں کو ن ہو ں “۔
کمپا ﺅ نڈ کی رہائشی اکثرخوا تین بھی ان کے پاس بیٹھنے سے کترا تیں۔بچو ں کو ڈا نٹتے ہوئے کہتیں کہ ”گو ٹو ہیل اور گیٹ لا سٹ۔“ عام رائے یہ تھی کہ اپنے اسٹیٹس کی وجہ سے ان کے اندررعو نت ہے ۔انہیں شا ید یہ علم ہی نہیں تھا کہ لوگ ان سے مجبو ری کے تحت بات کرتے ہیں ۔
اسکول سے یو نیور سٹی تک ہم ساتھ رہے ،اس لئے بہت اچھی دوستی ہو گئی تھی۔ہمارے والدین میں بھی ہماری وجہ سے انڈر اسٹینڈنگ تھی ۔وہ ہمیں ایک دوسرے کے گھر دن یا رات گزارنے سے بھی نہیں روکتے تھے ۔اس کی کو شش ہو تی تھی کہ وہ زیادہ وقت میرے گھر میںگزارے ۔اکثر وہ کہتی کہ مجھے اپنے گھر سے وحشت ہوتی ہے ۔معلوم نہیں میری ما ں کیسے زندہ ہیں وہا ں۔اس سلسلے میں آ نٹی سے بات ہو تی تو کہتیں کہ وہ دل کی بہت اچھی ہیں ،بس زبان ان کی اچھی نہیں۔یہ کہتے ہوئے وہ منہ دوسری جانب پھیر لیتیں لیکن ان کے آنسو چھپائے نہیں چھپتے تھے ۔
مزید پڑھئے:کراچی، جس کی گلیوں سے صبا نے سیکھے آداب خرام
وقت ریت کی مانند ہا تھو ں سے سرکتا گیا اور ہمیں بیا ہنے کی فکرکی جا نے لگی۔ان دنوں بھی روبینہ بہت پریشان رہتی۔وہ نہ تو اپنی پسند ونا پسند کا ذکر کر سکتی تھی اور نہ ہی اسے اجازت تھی کہ بڑو ں کے درمیان ہو نے والی کسی گفتگو کی خبر لے سکے ۔
وہ رخصت ہو کر آ سٹریلیا چلی گئی۔رابطے منقطع ہو گئے ۔اکثر دل چا ہتاکہ گیا وقت لو ٹ آ ئے اور سبھی سہیلیا ں پھر سے مل بیٹھیںلیکن یہ تو خواب اور اس نے خواب ہی رہنا تھا کیونکہ جو شرمندہ¿ تعبیر ہوجائے وہ خواب نہیں رہتا، حقیقت کہلاتی ہے۔
گز شتہ دنوں کسی نے بتایا کہ پرانے کمپا ﺅ نڈ والی دادی فوت ہو گئیں ۔الفا ظ میں افسوس ضرور تھا لیکن لبو ں پر مسکراہٹ تھی ۔کسی نے کہا کہ اچھا ہوا جان چھو ٹی ۔اس طرح مختلف با تیں سننے کو ملیں ۔کچھ کہہ رہے تھے کہ جانے والو ں کو کو ستے نہیں۔ وہ اپنے انجام کو پہنچ چکے۔ اب انہیں کچھ نہیں کہنا چاہئے ۔ اللہ کریم سب پر رحم فرمائے ۔
ہم نے بھی آ نٹی کو فون کیا اور تعز یت کر کے رو بینہ کی خیریت دریافت کی ۔انہو ں نے آہ بھرتے ہوئے کہاکہ بیٹی اسے تو شادی کے دو ماہ بعد ہی طلاق ہو گئی تھی ۔وہ آ سٹریلیا میں ہی ہے ۔اس کا ایک بیٹا ہے جسے باپ نے کبھی پو چھا ہی نہیں۔وہ تو پہلے سے شادی شدہ تھا۔اس ملک میں نے بے چاری کو اپنے بچے کا مستقبل کچھ محفوظ دِکھائی دیا اس لئے اس نے پرائے دیس میں ہی رہنے کو ترجیح دی ۔وہ اب خود بھی ملا زمت کرتی ہے۔اسے شکوہ ہے کہ اس کے ساتھ ہم نے انصاف نہیں کیا ۔دادی کو کیا معلوم تھا ۔بابا تو دیکھ بھال کر سکتے تھے ۔ایسا بھی خوف کیا ؟
یہ سب بتا کر آنٹی بھی پھو ٹ پھو ٹ کر رو دیں ۔کہنے لگیں کہ میں تو اپنی بیٹی کی شکل دیکھنے کو ترس گئی ہو ں ۔وہ کہتی ہے کہ امی !مجھے بھول جائیے ۔تم ہی بتا ﺅ ایک ما ں کے لئے یہ کیسے ممکن ہے ؟کاش میری ساس اتنی ظالم نہ ہو تیں ۔میری اماں کہا کرتی تھیں کہ بول چال میںتعلیم کا ہونا ضروری نہیں ہو تا ۔غیر تعلیم ہا فتہ بھی صرف میٹھی زبان سے دلو ں کو جیت لیتے ہیں ۔ایسے ہی تو مثل مشہور نہیں کہ ”میٹھے بول میں جا دو ہے“، اسی طرح کہا جاتا ہے کہ :
زبان شیریں،ملک گیری
زبان ٹیڑھی ، ملک بانکا
اسی طرح زبان کے بارے میں یہ بھی سنا ہے کہ ” زبان ہی ہا تھی چڑ ھا دے ، زبان ہی سر کٹوا دے۔“ہم سو چنے لگے کہ یہ کہا وتیں وزن رکھتی ہیں ۔ہمارے الفا ظ ہمارے تصور سے بھی زیادہ وزنی ہو تے ہیں۔ان کے اثرات اتنے دیر پا ہو تے ہیںکہ برسو ں دل و دما غ میں گردش کرتے رہتے ہیں ۔
یہ کہنا درست ہو گا کہ زندگی و موت کا دا رو مدار الفا ظ کے استعمال پر ہے ۔ہماری کا میا بیو ں کی وجہ بھی یہی ہوتے ہیں اور نا کا میو ں کی بھی یہی ۔اکثر یہ ہماری شخصیت کے بھی آ ئینہ دار ہو تے ہیں ۔ان کا صحیح مصرف زندگی کی کا میا بی کا ضامن ہو تا ہے۔پہلی جماعت کے قاعدے میں لکھا ہو تا تھا کہ پہلے تو لو ، پھر بو لو ۔اس پہلے سبق پر ہم کتنا عمل کرتے ہیں؟
ما ضی کے بز ر گ اور حال کے بز ر گو ں میں خا صا فرق ہے ۔حال والو ں نے ما ضی سے سبق سیکھا اور خوش خلقی کا مظا ہرہ کرتے ہیں خواہ اندرسے کتنے ہی غصے میں ہو ں۔مو جو دہ سا سیں بھی اب غصہ پینا سیکھ گئی ہیں ۔وہ بہوسے دو ستی رکھنے میں ہی اپنی عا فیت سمجھتی ہیں۔ گزشتہ دنوں ہمیں ایک شادی پر جانے کا اتفاق ہوا تو اکثر ان دو رشتو ں کو نہایت خو شگوار پا یا ۔یو ں لگا مسا بقتی لباس و زیبائش ہے ۔چلو اچھا
ہوا کم سے کم جلنے کڑ ھنے سے تو جان چھو ٹی ۔
اپنی سہیلی روبینہ سے آ خر ہمارا رابطہ ہو ہی گیا ۔وہ دیکھنے میں اپنی عمر سے د گنی لگ رہی تھی ۔کمپیو ٹر پرو گرامنگ میں اس نے وہاں کے مطابق کچھ کورسز کر لئے تھے ۔کہنے لگی خود کو زیادہ سے زیادہ مصروف رکھتی ہو ں۔بیٹا ابھی او لیول میں ہے ۔میرے سامنے اس کا مستقبل ہے ۔سو چتی ہو ں والدین کی اولاد کی طرف سے لا پر وائی کی سزا وہ عمر بھر بھگتتی ہے ۔میں اسے بھر پور اور پر اعتماد زندگی دینا چا ہتی ہوں۔میرے بابااگر میرے وجود کو بھی اہمیت دیتے تو آ ج میں اس طرح سسک سسک کر جینے پر مجبور نہ ہوتی ۔وہ روبینہ تو مر چکی، اب تو میں صرف اپنے بیٹے کی ماںبن کرزندہ ہوں۔
مزید پڑھئے:چھابڑی فروش ہو یا وزیر اعظم، پریشانی یکساں
روبینہ کی آ واز بھرا گئی اوروہ اجازت چاہنے لگی ۔بہت اصرار پر را ضی ہو ئی کہ ہفتہ وار را بطہ کر لیا کرے گی ۔شاید اس طرح وہ زندگی میں پلٹ آ ئے ۔ورنہ اس کی حالت تو بر ملا پکار رہی ہے کہ :
ضبط پر اب نہیں تیار ،مجھے رونا ہے 
دل ہے آ مادہ¿ تکرار ،مجھے رونا ہے 
ضبط ایسا تھا کہ خلوت میں بھی آ نسو نہ بہے
آج لیکن سرِ بازار ،مجھے رونا ہے
زخم نا سور بنے جاتے ہیںگھٹ کر دل میں
یہ تو اچھے نہیں آ ثار مجھے رونا ہے 
 

شیئر: