Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غیر عربو ں کو عربی سکھانے کی ذمہ داری

سھوب بغدادی ۔ الوطن
ہیش ٹیگ پر بڑے شدومد سے ایک مہم چلائی جارہی ہے کہ سعودی عرب میں مقیم غیر عربوں کے ساتھ بات چیت میں ٹوٹی پھوٹی زبان نہ استعمال کی جائے۔ آج میں اپنا یہ مضمون غیر عرب کارکنان کی عربی زبان پر ہی تحریر کررہی ہوں۔ایک طرف تو غیر ملکی کارکن صحیح تعبیر یا الفاظ و مفردات استعمال نہیں کرتے، دوسری جانب عربی بول چال میں نحو و صرف کے قواعد پر دھیان نہیں دیتے۔ تارکین وطن اس حوالے سے فطری لسانی حکمت عملی کی پالیسی پر گامزن ہیں ۔ متکلم اور سامع دونوں ہی باہمی گفت و شنید کے وقت آسان جملے استعمال کرتے ہیں۔ وہ نحو وصرف کے قواعد کی پابندی کے چکر میں نہیں پڑتے۔ ان کے پیش نظربس اتنا ہوتا ہے کہ ان کی بات کا مفہوم ان کے مخاطب تک پہنچ جائے۔ مختلف بولیاں بولنے والے ہمیشہ ہر جگہ یہی طریقہ اپناتے رہے ہیں اور اپنا رہےںگے۔ بنیادی طور پر اس کا رواج ساتویں اور آٹھویں صدی عیسوی میں اس وقت شروع ہوا تھا جب نقل مکانی کرنیوالے کثیر تعداد میں سامنے آئے۔ عربوں نے فوجی بستیاں بسائیں۔ دنیا بھر سے ہزاروں افراد نے ان بستیوں کا رخ کیا ۔ اس وقت کے حکمرانوں کی زبان عربی تھی ، اشرافیہ کی زبان عربی تھی ، حالات نے عربوں اور غیر عربوں کے درمیان تجارتی و ثقافتی لین دین میں آسانیاںپیدا کرنے کیلئے رابطے کی زبان کی ضرورت کو اجاگر کیا۔ 
کئی لوگ کہتے ہیں کہ لنگڑی لولی زبان استعمال کرنے والی حکمت عملی ٹھیک نہیں۔ اسکے بجائے فصیح عربی زبان رائج کرنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ اگر عرب ہی غیر عربوں کو صحیح عربی نہیں سکھائیں گے تو وہی تارکین کو عربی سیکھنے کی حوصلہ افزائی نہ کرنے کے ملزم گردانے جائینگے۔ 
میں یہاں انسانی حقوق اورآزادی کا موضوع نہیں اٹھانا چاہتی۔ میرے پیش نظر براہ راست ”لسانی تجزیہ“کا نکتہ اجاگر کرناہے۔ دیکھئے! ہماری خواہش ہے کہ غیر عرب فصیح عربی زبان میں مہارت پیداکریں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہماری یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی۔کیوں؟ اس لئے کہ خود ہم لوگ روزمرہ کی زندگی میں مقامی بولی بولتے ہیں۔ فصیح عربی یا ادبی زبان استعمال نہیں کرتے۔ ایسے عالم میں غیر ملکی کارکن سے یہ توقع کیونکردرست ہوسکتی ہے کہ وہ فصیح عربی میں بات چیت کرے۔ غیر ملکی کیلئے مختلف عربی لہجوں اور بولیوں میں فرق کرنا ممکن نہیں۔ مثلاً جس کارکن نے جنوبی سعودی عرب کا لہجہ سیکھا ہو اور وہ بقالے جاکر قصیم کے لہجے میں گفتگو کرنے والے دکاندار سے جنوبی لہجے میں بات کریگا تو دکاندار اس کی بات کیونکر اور کتنی سمجھ سکے گا۔ زمینی سچائی یہ ہے کہ نحو و صرف کے قواعد سے آزاد زبان استعمال کرنا حسن تصرف ہے۔ یہ عملی ضرورت ہے ، اس کا دائرہ غیر عربوں تک ہی محدود نہیں ۔ عرب بھی مختلف مقامات پر جاکر انگریزی ٹوٹی پھوٹی ہی استعمال کرتے ہیں۔ تعلیم ، سیاحت اور کاروبار کی غرض سے مملکت سے باہر جاتے ہیں تو وہ بھی فصیح انگریزی زبان استعمال نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر اگر کسی سعودی کو باہر جاکر اسپتال کی بابت دریافت کرنا ہوتو بجائے یہ کہ وہ ویئر دی ہاسپٹل کے بجائے ہاسپٹل ویئر کی تعبیر استعمال کرتا ہے، اسے اس میں آسانی لگتی ہے۔ اسکی توجہ کا محور اسپتال ہوتا ہے اسی لئے وہ اپنے سوال کی شروعات ہاسپٹل سے کرتا ہے۔ 
عربوںمیں زبان کے حوالے سے ایک اور مسئلہ درپیش ہے۔ وہ یہ کہ جب مختلف لہجوں سے نسبت رکھنے والے عرب حضرات ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں تو وہ بھی ایک دوسرے کے لہجے کے قواعدو ضوابط کی پابندی نہیں کرپاتے۔ اگر ایک زبان کے مختلف لہجے استعمال کرنیوالوں کے درمیان مسائل ہیں تو دومختلف زبان بولنے والوں کے درمیان مسائل کا پیدا ہونا فطری امر ہے اسی لئے مختلف بولیوں اور مختلف زبانوں سے نسبت رکھنے والے اپنے دل و دماغ کی بات اپنے مخاطب تک پہنچانے کیلئے رابطے کی ترکیبیں کمیونیکیشن ٹیکسٹ استعمال کرتے ہیں۔ 
غیر عرب کارکنان کی زبان یا اغیار کی زبان کا رواج دنیا بھر کے ممالک اور اقوام میں پایا جاتاہے۔ امریکہ ، یورپ اور عرب ممالک میں اس کا سلسلہ وسیع پیمانے پر موجود ہے۔ اچھی بات یہ ہوگی کہ ہم اس رواج کے مثبت عناصر پر توجہ مرکوز کریں۔ اس سلسلے میں ہمارے لئے فخر کا پہلو یہ ہے کہ اسلامی تمدن نے مختلف بولیاں بولنے والوں اور مختلف زبان استعمال کرنیوالوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں قافلہ سالار کا کردار ادا کیاہے۔ دینی، اقتصادی اور سیاسی عتبار سے مشرق وسطیٰ کی اہمیت قدیم زمانے سے مسلم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم لوگ غیر عربوں کو قرآن کریم کی زبان سکھانے کا اہتمام کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ انمول موقع عطا کیا ہے۔ اس سے ہم فائدہ اٹھائیں ۔ آخری بات یہ کہ کوئی شخص کوئی بھی زبان کتنے وقت میں اچھی طرح سیکھ سکتا ہے ، ابتدائی مرحلے سے درمیانے اور درمیانے مرحلے سے اعلیٰ مرحلے میں منتقل ہونے کیلئے کتنا وقت درکار ہوگا یہ ایسا سوال ہے کہ آسانی سے اس کا جواب دینا ممکن نہیں۔ زبان تدریجی طور پر آتی ہے۔ 3برس کے عرصے میں عربی زبان سیکھی جاسکتی ہے۔ بشرطیکہ اس کا جذبہ ہو اور سیکھنے کی کوشش سنجیدہ ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: