Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچپن:جادو نگری کا سفر،یادوں کی تتلیاں

 لڑکی کی زندگی میں باپ اور شوہر کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ ایک باپ ہوتا ہے جو اپنی بیٹی کی زندگی سنوارتا ہے اوردوسرا اس کا شوہر،قمر کے آتے ہی میری زندگی روشن ہوگئی
مسز زاہدہ قمر۔ جدہ
قسط 6
بحریہ کے پرنسپل محمد کاظم صاحب کے بعد کیپٹن فلک شیر خادم اور محمد طالب صاحب بھی بہت قابِل اور صاحبِ کمال تھے ۔ میں نے وہاں ہر قسم کے پروگرامز کروائے اور بہت تعریفیں سمیٹیں۔مجھے آرٹ روم بنا کر دیا گیا جس میں ہم نصابی سرگرمیوں کا سامان رکھ سکیں۔میں بالکل نو آموز تھی اس کے باوجود کسی نے بھی حتیٰ کہ ہمارے ایچ او ڈی محمد تقی صاحب نے بھی اس بات پر اعتراض نہیں کیا کہ مجھے ہر جگہ نمایاں حیثیت کیوں دی جاتی ہے۔ آفرین ہے ان بڑے کردار لوگوں پر ۔۔۔ وہاں کے وائس پرنسپل سید ظفر حسین نے بھی ہر طرح سے سہولیات فراہم کیں اور ہر مرحلے پر ہمت افزائی کی اورشاباش دی ۔ بعد میں اور ابتک کے وائس پرنسپل محمد اقبال صاحب بھی بڑے بھلے اور نفیس انسان ثابت ہوئے۔تو جناب یہ تھا بحریہ کا 9 سے10 سال کا سفر ۔مجھے بحریہ اب بھی پسند ہے اور اگر تقدیر نے ایک موقع اور دیا تو ضرور نیوی کالج دوبارہ جوائن کرو نگی کہ وہاں کے ساتھی بھی بے حد تعاون کرنے والے لوگ ہیں۔ادارے ایسے ہی تو ترقی نہیں پاتے نا؟؟ بحریہ کا نام ہی کافی ہے۔۔۔۔ زندگی بڑی سبک روی سے گُزر رہی تھی کہ بابر بھائی کا بلاوا آگیا ہم سب کی بھی وہی منزل ہے مگر کچھ پیارے واقعی بہت پیارے ہوتے ہیں بابر بھائی صرف بھائی نہیں دوست اور باپ بھی تھے ان کی موت نے اماں کو توڑ کر رکھ دیا۔ وہ اماں کا دایاں بازو تھے ہمدرد اورر غمگسار تھے میں زیادہ نہیں لکھونگی شاید کبھی اپنی ہمتوں کو مجتمع کر سکوں تو ان کی رخصت کا حال لکھوں میں اس واقعے کو یاد بھی نہیں کرنا چاہتی آنسوﺅں کی دبیز تہہ ہر چیز دھندلا دیتی ہے۔۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے آخری قسط میں کچھ لکھ سکوں۔
ایک بات تو آپکو بتانا ہی بھول گئی میں نے گورنمنٹ کالج میں ہی پڑھتے پڑھاتے ہوئے لکھنا شروع کر دیا تھا۔ میرے مضامین پاکستان کے سب سے بڑے اور پرانے اخبار کے ادبی صفحے پر شائع ہوئے ۔ میں زاہدہ یوسف زئی کے نام سے لکھتی تھی کیونکہ میں یوسف زئی ہوں ۔قمر کا لاحقہ شادی کے روز لگا۔جب محمد قمر اعظم سے میری شادی ہوئی۔ زندگی میں قمر کیا آئے پورا جیون روشن ہو گیا۔مثل مشہور ہے کہ لڑکی کی زندگی میں باپ اور شوہر کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ ایک باپ ہوتا ہے جو اپنی بیٹی کی زندگی سنوارتا ہے اوردوسرا اس کا شوہر، میری حد تک یہ بات پوری طرح درست ہے میرے والد احمد علی خان یوسف زئی نے ہم چاروں بہنوں کو جو محبت،شفقت اور اعتماد دیا وہ مثالی تھا۔ 5 بیٹوں کی ان کی زندگی میں اتنی اہمیت نہ تھی جتنی ہم 4بہنوں کی تھی۔ بڑی بہن یاسمین میں تو ان کی جان تھی بلکہ اماں اور ابا دونوں کی جان یاسمین باجی میں تھی۔ اماں ابا ہی کیا ہم سب بہن بھائی بھی ان کو بہت چاہتے ہیں وہ اسقدر نیک پرہیز گار اور فرشتہ صفت ہیں کہ آج کے دور میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے ۔میرے بڑے بھائی تو اکثر ان کے لئے دُعا کرتے کہ یاسمین کو میری زندگی بھی مل جائے۔ اماں ہول جاتیں بابر بھائی کو ڈانٹتیں مگر وہ پھر کسی نہ کسی بات پر یہ دُعا کر بیٹھتے اور اماں کا غصہ دیکھ کر جلدی سے منہ بند کر کے بھاگ جاتے ۔ اماں کا کہنا درست تھا کہ ”اللہ تعالیٰ کی رحمت کو محدود کیوں کر رہے ہو ۔ارے اللہ تعالیٰ تو اس بات پر بھی قادر ہے کہ تم سب کو ایک ساتھ لمبی عمر عطا کرے اپنی زندگی ایک دوسرے کو دینے کی کیا ضرورت ہے؟؟؟“۔
بات پھر کہیں سے کہیں نکل گئی ، میں ابا اور قمر کی بات کر رہی تھی ۔قمر نے بھی مجھے وہی اعتماد اور یقین بخشا ہے جو ابا کی ذات سے مِلا۔ میں چھوٹی موٹی کہانیاں لکھتی تو ابا بہت ہمت افزائی کرتے پھر اماں نے بہت پیار سے ہم سب کو سنبھال لیا۔وہ میرے افسانوں ، شاعری اور ادبی کالم کی سب سے بڑی قاری تھیں ۔جنگ کے ادبی صفحے پر میری تصویر دیکھ کر بڑی خوش ہوئیں شادی کے بعد میر ے لکھنے میں ایک طویل وقفہ آگیا۔ مگر قمر مسلسل اصرار کرتے رہے کہ اپنا شوق ختم نہ کرو ۔شادی اور بچوں کی مصروفیت نے مجھے موقع ہی نہیں دیا۔ اولاد کا ذکر آیا تو قارئین کو بتاتی چلوں کہ میرے ماشااللہ 2بیٹے ہیں ۔ محمد حُذیفہ قمر اور حُنین قمر۔ حُذیفہ صورت شکل اور عادت و اطوار میں مکمل قمر ہے اور حُنین مابدولت کی کاربن کاپی ہے۔قمر19 سال سے سعودیہ میں مقیم ہیں جبکہ میں اپنے بچوں کے ساتھ 2009ءمیں یہاں آئی ۔اس سر زمین پر بہت امن ، سکون، خوشحالی اور خوشیاں دیکھیں۔ صرف میں ہی نہیں شاید ہر پاکستانی کا خواب اس ارض مقدس کا دیدار کرنا ہے ۔ہمارے والدین ہمیں شعور کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھنے سے پہلے ہی شاید کلمہ اور اسلام کی بنیادی تعلیم دینے کے بعد مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی محبت کا نقش ہمارے دلوں میں راسخ کر دیتے ہیں۔ 
میرے والدین کو مکہ اور مدینے بلکہ پورے سعودی عرب سے اسقدر والہانہ عقیدت تھی کہ اگر ٹی وی پر سعودی عرب کی دستاویزی فلموں میں سعودی عرب دکھایا جاتا تو ہر منظر پر ماشاءاللہ اور سبحان اللہ کی گردان جاری رہتی۔ یہاںآکر میں نے سب سے پہلے قصیم ( بریدہ کے پاکستان انٹرنیشنل اسکول میں ملازمت کے لئے درخواست دی۔ (بحریہ کالج سے استعفیٰ دیکر اور بہت سی یادیں ، تحفے اور خوبصورت خدمات سمیٹ کر سعودی عرب کی سرزمین پر قدم رکھا۔ جب قصیم ( بریدہ) میں تھی رب العزت نے بہت عزت سے نوازا اور انٹرویو اور ڈیمو میں مجھے پہلی پوزیشن ملی۔اسکول کی طالبات اور پرنسپل میڈم رینا نعیم جو بہت مردم شناس اور علم دوست خاتون تھیں۔ میں نے وہاں کالج اوراو لیول کی کلاسز کو پڑھایا اور میڈم رینا نے ہر طرح سے نہ صرف تعاون کیا بلکہ حوصلہ افزائی اور ہر ہر قدم پر عزت افزائی کی اللہ تعالیٰ انہیں دونوں جہانوں کی عزت سے نوازے(آمین) پھر ہمارے سفر در سفر کی کہانی بڑی طویل ہے یہ سفر اردو کے بھی تھے اور انگلش کے بھی جدہ سے قصیم اور فصیم سے الاحساءاور الاحساءسے پھر جدہ نئے لوگ نیا ماحول اور نئے احساسات آب و ہوا ہر جگہ مختلف مگر لوگ تقریباً ایک جیسے ہی تھے مجھے رہائش کے اعتبار سے قصیم بہت پسند آیا۔ پُر سکون، خاموش اور پُروقارزندگی کو نرماہٹ اور آہستگی سے برتنے والا شہر بالکل دیو مالائی کہانیوں جیسا کلاسیکی ماحول نازک اور بلوریں۔ الاحساءاور جدہ جیسی مصروفیت کا شکار تو نہیں مگر اس میں قصیم جیسی آہستگی بھی نہیں۔ میرا تخیل اسے گلابی شہر قرار دیتاہے معلوم نہیں کیوں؟؟ جدہ کچھ کچھ کراچی سے مشابہ ہے اس لئے اپنا ئیت کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ بہر حال! اگر آپ مجھ سے دریافت کریں کہ سعودیہ کے کس شہر میں رہائش کو ترجیح دی جائے تو میرا جواب ہو گا پہلے نمبر پر قصیم، دوسرے پر قصیم اور تیسرے نمبر پر ایک اور بار قصیم۔ وہاں کے اسکول اور کالج کی بچیاں بڑی محبت کرنے والی تھیں اور انہوں نے میری سالگرہ بالکل شاہانہ انداز میں منائی، بہت سے تحفے دیئے جو کہ میں نے قبول نہیں کئے۔ اپنی رُخصت کا منظر آج تک آنکھوں میں ٹھہرا ہوا ہے۔ جب آخری دِن اسکول گئی تو بچیوں نے اور دوستوں نے کس قدر محبت سے آنسوﺅں کے ساتھ خُدا حافظ کہا تھا۔میں نے اپنے سفر میں بلکہ اسفار میں تھوڑا بہت لکھنا شروع کر دیا تھا اب دوبارہ جدہ آنا ہوا تو ابتدائی کچھ عرصے ایک انٹر نیشنل اسکول میں پڑھایا پھر P-I-S-J میں اپلائی کیا اور ایک بار پھر رب العزت کی مہربان شفیق اور رحیم و کریم ہستی نے میری لاج رکھ لی مجھے میرے ٹیسٹ، انٹرویو اور ڈیمو میں سب سے زیادہ نمبر ملے بلکہ اپنے مضمون کے امتحان میں پہلی پوزیشن ملی۔میں نے پاکستان کے ایک بڑے اخبار کا ذکر کیا تو اپنے محسنوں کا تذکرہ کرنا بھول گئی ۔ اختر سعیدی صاحب نے مجھے بہت آگے بڑھایا۔ ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی نے مجھ میں لکھنے کی تحریک اور زیادہ نکھر گئی۔
قارئین ! میں بہت سی باتیں لکھنا بھول گئی ہوں دراصل میں اپنی یادوں کو بہت آہستگی سے جگا رہی ہوں۔ میں اس پر یوں کے دیس سے چُپکے چُپکے دبے پاﺅںنکل جانا چاہتی ہوں۔ اگر یہ یادیں جاگ گیئںتو ضدی بچہ کی طرح مجھے کو گھیر لیں گی۔ مجھ سے اس طرح لپٹ جائیں گی کہ میرا اس جادو نگری سے نکلنا دشوار ہو جائے گا ۔ہمارا بچپن جادو نگری کا سفر ہی تو ہے۔ پریوں کا دیس ، دو فرشتوں جیسی ہستیاں ہر دم ہر خواہش پوری کرنے کو تیار، یادوں کی بے شمار خوش رنگ تتلیاں اپنے قوس و قزح جیسے رنگ زندگی کی ہتھیلی پر چھوڑ کر نہ جانے کس دیس چلی جاتی ہیںتو جناب۔۔۔۔ میں اس لئے بہت جلد ی سے اس دور سے نکل جانا چاہتی ہوں۔
میری زندگی میرے والدین کی نیکیوں کے طفیل بڑے مزے سے گُزر رہی تھی۔ دراصل ہماری کامیابیوں اور سُکھ و چین میں ہمارا کوئی کمال نہیں یہ سب ہمارے بزرگوں کی نیکیوں کی برکت ہے جو جانے کتنی نسلوں تک ساتھ نبھائے گی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: