Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ازدواجی گا ڑی غلط مڑ جائے توسفرپر قابو رہتا ہے نہ شریک سفر پر ،حلیمہ شعیب

 تسنیم امجد ۔ر یا ض
گھڑی کی سو ئیو ں کی ٹک ٹک ہی وہ ما نوس آ واز ہے جو وقت گز رنے کا احساس دلاتی ہے ۔اب کی بار تو وا ٹس ایپ اور الیکڑ ا نک میڈیانے سال بیتنے کی منادی کی توایسا لگا کہ وا قعی وقت کا پہیہ گھوم گیا ہے ۔ہانپتے کانپتے 17سیڑ ھیا ں پھاندتے ہوئے18ویںسیڑھی پر چڑ ھ کر باہر جھا نکا تو رو شنیو ں کا سیلاب تھا ۔لوگ سیلفیا ں بنا رہے تھے ۔سب بدلا بدلا نظرتو آیا لیکن شاید یہ محض احساس تھا ورنہ صبح کی نورانی روشنی تو ویسی ہی تھی ،آسمان بھی ویسا ہی تھا ۔سڑک پر چہل پہل میں بھی فرق نہ لگا ۔لوگ اپنے اپنے دفترو ں اور کام کاج پر جا رہے تھے۔ بچے اور بڑے بضد تھے کہ ا سکول کا لج نہیں جانا کیونکہ رات بھر جاگ کر رو شنیو ں سے محظو ظ جو ہوتے رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ وقت کا پہیہ یونہی نہیں گھو متاکیو نکہ بلا شبہ:
” کہ خون صد ہزار انجم سے ہو تی ہے سحر پیدا “
ہماری حیات مستعار لمحات کا مجمو عہ ہے ۔یہ زندگی دن ،ہفتے ،مہینے اور سال جیسے وقت کے پیمانوں کا دوسرا نام ہے ۔اگر یہ اچھے گزر جائیں تو سمجھ لیجئے کہ زندگی بخیر و خو بی گزری ۔وقت ہمارے معاملات کا بہترین حل ہے۔ذرا سوچئے کہ وقت کیا ہے ،یہ امن کا محرم ہے، زخموں کا مرہم ہے ،اک عمل پیہم ہے ،کونپلوں کے لئے شبنم ہے، پِیروں کے لئے رَم ہے ، نشاط وعیش میں جتنابھی ہوکم ہے، بہار وں میں ہو تو سرگم ہے ، اذیت و انتظار میں ہو تو فقط غم ہے۔
مزید پڑھئے:دوسروں کے لئے جی کر دیکھئے، بہت سکون ملے گا، سلمیٰ بہادر
وقت ایک قیمتی شے ہے ۔جووقت گزر گیا وہ ہمارے ا ختیار میں نہیں، جو آنے والا ہے اس کاکوئی اعتبار نہیں، جو موجود ہے اس کوقرار نہیں ۔بس حال ایک ایسا ہے جو ہمارے ہاتھ میں ہے ۔اس لئے ہمیں اس کی قدر کر نی چا ہئے اورکو شش کرنی چا ہئے کہ ہمارا حال کل سے بہتر ہو ۔وقت کسی کی پروانہیں کرتا ۔ہمیں اس کی پرواکرنا چا ہئے کیو نکہ نظامِ کا ئنات میں ایک تر تیب ہے ۔زند گی اسی با قا عد گی ،سلیقے اور تر تیب کا نام ہے ۔اس کو سمجھنے والے ہی کا میاب اور مطمئن زندگی گزا رتے ہیں ۔
اردو نیوز میں ” ہوا کے دوش پر“آج آپ کی ملاقات ایک ایسی ہی ہستی سے کراتے ہیں جو تر تیب و سلیقے کی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔”بحر ادراک“ سے یہ انمول گوہرڈھونڈ نکالنے کے لئے کی جانے والی غواصی میں جس ہستی نے دست تعاون دراز کیا وہ بذاتِ خود شہرِ ریا ض کی نامی گرامی شخصیت شمائلہ شہباز“ہیں۔ ہم اردونیوز کی وساطت سے آ پکی کا و شو ں کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔محتر مہ حلیمہ شعیب اپنی ہمہ جہت و ہمہ صفت شخصیت کی بدولت ہی شہرت کے آسمان کا رخشندہ ستارہ ہیں ۔
حلیمہ شعیب کہنے لگیں کہ میں نے عروس البلاد میں اس وقت آنکھ کھولی تھی جب وہ رو شنیو ںکا شہر ہوا کرتاتھا۔بچپن بہت مزے میں گزرا ۔ہم میمن خاندان سے ہیں ۔کرا چی میں ہماری خاصی بڑی برادری ہے ۔ہم لوگ سوشل بھی بہت ہیں ۔ہر وقت گھر میں اپنوں کاآ نا جانا لگا رہتا ہے ۔یو ں لگتا ہے ہر دن عید اورہر رات، شب برات ہے ۔میرے والد محمد امین نور ایک جا نی پہچانی کارو باری شخصیت ہیں۔ ان کی ” نور سلک ملز“ کے سلک کی پاکستان بھر میں مانگ تھی۔اسکے ڈیزا ئن اور اس پر پینٹنگ کا کام لا جواب ما نا جا تا ہے ۔سب سے اہم بات سلک یعنی ریشمی کپڑے پر پینٹنگ ہے جسے ویکس یعنی موم سے کیا جاتا ہے تاکہ پینٹ کے رنگ کپڑے تک نہ پہنچیں ۔یہ ایک خو بصورت آرٹ ہے ۔سلک کے ان رنگو ں کی بہار دیکھ کر بے ا ختیاردل یہ کہہ اٹھتا ہے کہ:
اس قدر ہو گی تر نم آ فریں بادِ بہار
نکہتِ خوا بیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی 
ہم 6 بہن بھائی ہیں یعنی 3 بہنیں اور 3 ہی بھائی ۔ما شا ءاللہ، بھرا پرا گھر ہے ۔آپ خود ہی سو چئے کہ ہم زندگی سے کس طر ح لطف اندوز ہوتے ہو ں گے ۔جب ہر شے کی ریل پیل ہو اور والدین بھی خوب سو شل زندگی سے بھر پور ہوں ۔میں خو ش قسمت ہو ں کہ مجھے والد کا پیار اور تو جہ زیادہ ملی اور اب بھی مل رہی ہے ۔باپ کے اس پیار سے میں نے بھر پور فائدہ ا ٹھا یا اور خوب من ما نیا ں کیں ۔اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میرے میکے میں محبت و خلوص اب تک قائم ہے ۔سبھی ساتھ رہتے ہیں ۔ہم بہنو ں کی شا دیا ں ہو گئیں ،بھائی والد صا حب کے ساتھ بزنس میں ہی شامل ہو گئے ۔اب تو انکا بزنس ملک سے با ہر بھی پھیل چکا ہے ۔والدین بھی امریکہ اور برطانیہ وغیرہ گھومتے رہتے ہیں۔ چھٹیو ں میں ہم سب اکٹھے ہو نے کی کو شش کرتے ہیں ۔اکثر لوگ ہمیں ”ہیپی بگِ فیملی“ کے نام سے پکارتے ہیں ۔
حلیمہ یہ سب بتاتے ہوئے ما ضی میں کھو گئیں ،کہنے لگیں کہ بچپن اور میکا بہت ہی حسین نام ہیں ۔اس زمانے کی حسین یا دیں زندگی بھر ساتھ رہتیں ہیں لیکن ازل سے یہی ریت ہے کہ بیٹیو ں کو بابل کا گھر چھو ڑنا ہی ہوتا ہے ۔اللہ کریم کا شکر ہے کہ ہم سب بہنیں اپنے اپنے گھر خوش ہیں ۔
والدین نے ہم سب کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلائی ،اچھے تعلیمی ادارو ں میں پڑ ھایا۔میں سیکنڈ ری تک ”لٹل فاکس“ اسکول میں پڑھی پھر ” پی ای سی ایچ ایس “ کالج میں گریجویشن تک پڑ ھی ۔کریئربہت اعلیٰ رہا ۔ما سٹرز کرنا چا ہتی تھی لیکن والدین نے رخصتی کر دی ۔سسرال سے کو ئی رشتہ تو نہیں تھا لیکن دونوںخاندانوں کی دوستی پرانی تھی ۔شعیب شاﺅبوا نی نہا یت معاون شریکِ حیات کی حیثیت سے بہار بن کر میری زندگی میں آ ئے ۔وہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے اور 4بہنوں کے بھائی ہیں۔سب بہنیں بہت محبت کرنے والی ہیں ۔
میرے شو ہرسائنسدان ہیں۔کیمسٹری میں گو لڈ میڈ لسٹ ہیں۔ میڈل عطا کئے جانے کی تقریب گور نر ہا ﺅ س میں ہو ئی تھی ۔ریسرچ ورک پر اس کے علاوہ بھی بیشتر میڈل و صول کئے۔ ریسرچر کی حیثیت سے ہی ان کی پو سٹنگ کنگ فیصل اسپیشلسٹ اسپتال اینڈ ریسر چ سنٹرمیں ہو ئی ۔گزشتہ 22 برس سے ہم یہیں پر ہیں ۔اللہ کریم کا شکر ہے کہ وطن کا نام روشن کرنے میں پیچھے نہیں رہے ۔اتنے برسو ں میں پردیس کا پرایا پن اپنا ئیت میں بدل جاتا ہے ۔یہی انسان کی فطرت ہے کہ وہ جہا ں رہتا ہے، اس مقام سے ،ما حول سے اور درو دیوار سے انسیت ہو جاتی ہے اور وہ اپنے دن رات اس کی تر قی و خو شحالی کی نذر کر دیتا ہے کیو نکہ نیو ٹن کے تیسرے قانونِ حرکت کی طرح اس کا ردِ عمل اس پر بھی ہو تا ہے ۔اسے سراہا جاتا ہے تو وہ مزید اچھا کرتا جاتا ہے ۔
ہماری گفتگو کے دوران شعیب شاﺅ بوانی صاحب بھی آگئے اور کہنے لگے کہ مجھے پھر ایک میٹنگ میں جانا ہے اس لئے ہمیں بھی اسی وقت گفتگو میں شامل کر لیجئے ۔موصوف کہنے لگے کہ سب سے پہلے تو ہمارا شکریہ اردو نیوز کو پہنچا دیجئے ۔مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے کہ ہمیں بھی اردونیوز کا مہمان ہونے کا شرف ملا ۔پھر بیگم سے مخاطب ہوئے کہ آ پ کا بھی ممنون ہو ں کہ آپ کی بدولت ہماری بھی شمو لیت ہو گئی۔ مملکت میں آ نے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت سے موا قع فراہم کئے کہ اپنی قابلیت منوا بھی سکوں اوربڑ ھا بھی سکو ں ۔زندگی کی گا ڑی تو اکیلے چل سکتی ہے لیکن اہل و عیال کی گا ڑی کے لئے دو پہئے ہو نا ضروری ہیں ۔شو ہر اور بیوی اس گا ڑی کے دو پہئے ہیں ۔دو نو ں میں ہم آہنگی بھی ضروری ہے ۔ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے سو چو ں میںقدرتی طور پر یکسا نیت نہ بھی ہو تو کوشش کر کے کسی نہ کسی حد تک پیدا کرلینی چا ہئے۔اسی میں زندگی کا لطف ہے ۔اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میری اہلیہ حلیمہ ایک معاون ساتھی ثابت ہو ئی ہیں ۔انہو ں نے سسرال کا دل جیت لیا ۔امی اور بہنو ں کو احساس ہی نہیں ہو نے دیا کہ وہ بہو ہیں ۔امی کہتی ہیں یہ تو میری5ویں بیٹی ہے ۔اس لئے وہ ہمارے ساتھ ہی رہتی ہیں۔اب وہ ما شا ءاللہ 93 برس کی ہیں ۔اس عمر میںدیکھ بھال کو ئی آ سان کام نہیں لیکن حلیمہ خود ان کی خدمت کر کے خوشی محسوس کرتی ہیں ۔گھریلو زندگی خو شگوارہو توکا میا بیا ں یقینی ہو جا تی ہیں اور جذ بو ں میں صداقت ہو تو منز لیں خود بخود قریب آ جا تی ہیں ۔
حلیمہ نے کہا کہ میرے شوہر بھی ہمہ صفت و ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ ہم دونوں ایک اور ایک 11بن جاتے ہیں ۔زندگی میں مزید نکھار آ جاتا ہے ۔خوب سے خوب تر کی تگ و دو میں کا میابی یقینی ہو جاتی ہے ۔شو ہر اور بیوی کے روابط کا مو ضو ع عر صہ دراز سے زیرِ بحث ہے ۔کبھی پیسے کے عوض خو شی حا صل کرنے کی کو شش میں رشتو ں کا تقدس روند دیا جاتا ہے تو کبھی اسٹیٹس اور من مانی کی ہٹ دھرمی مسائل کھڑے کرتی ہے ۔نتیجے میں کڑوی کسیلی زندگی مقدر ہو جاتی ہے ۔اس تلخی سے بچنے کا آ سان راستہ یہی ہے کہ ازدواجی زندگی کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا جائے ۔بہت زیادہ امیداوربے جا ضدازدواجی گا ڑی کا اسٹیئرنگ غلط سمت میںمو ڑ دیتی ہیںپھر سفرپر قابو رہتا ہے اور نہ شریک سفر پر۔اس رشتے میں وفاداری کے معاہدے کو ہمیشہ رو برو رکھنا چا ہئے ۔ایسی ہی صورتِ حال کے لئے شاعر نے کہا ہے کہ:
شرط رضا یہ ہے کہ تقا ضا بھی چھو ڑ دے
اللہ کریم کا شکر ہے کہ ہم دو نوں نے اپنے اپنے حصے کی ذمہ دار یو ں کا ا حساس کیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہمارے گلشن کو تین پھو لو ں سے مزین فرمایا ۔زوہا شعیب ،ابرا ہیم شعیب اور امیرہ شعیب ۔تینو ں اپنے بابا کی طر ح ذہین ہیں ۔ما شا ءاللہ۔زو ہا نے حال ہی میں گریجویشن مکمل کی ہے اور اب آکسفرڈ یو نیور سٹی میں اینوائر نمینٹل سائنس میں دا خلہ لیا ہے ۔بیٹا ابرا ہیم بھی یوکے میں ہی کمپیو ٹر سا ئنس میں گریجویشن کے پہلے سال میں ہے ۔دونو ں کو بابا کی طر ح ریسرچ کا ہی شوق ہے ۔اللہ تعا لیٰ انہیں کا میابی عطا فرمائے ،آ مین ۔چھو ٹی امیرہ ابھی کلاس سیکنڈیعنی ٹو میں ہے ۔
حلیمہ شعیب سے ہماری ملاقات وقفو ں وقفوں سے ہو ئی کیو نکہ وہ خود بھی ایک مقامی انگلش میڈیم اسکول میں کو آ ر ڈینیٹر کے فرا ئض کی انجام دہی پر مامور ہیں ۔آج کل امتحانات کا مو سم ہے اس لئے ان سے را بطہ مشکل تھا ۔اس تیسری ملاقات میں ان کی سہیلی شمائیلہ شہبازبھی ان کے ہمراہ تھیں ۔ان سے بھی بات چیت دلچسپ رہی ۔وہ کہنے لگیں کہ حلیمہ بہت محنتی خاتون ہیں ۔اسی وجہ سے تر قی کرتی چلی جا رہیں ہیں ۔انہوں نے شادی کے بعد یو کے اور امریکہ سے مزید کورسز کر کے اپنی تعلیمی لگن کے لئے تشفی کا سامان کیا۔اگر انہیں کہا جائے کہ ہر فن میں کمال حاصل ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا ۔وہ گھر اور بچوں پر بھی بھر پور توجہ دیتی ہیں۔اس پر حلیمہ نے شما ئلہ کا شکریہ ادا کرتے ہو ئے کہا کہ مصرو فیت کے با و جود گھر کو نظر انداز نہ کرنا ہی عقلمندی ہے ۔عورت کی ا صل ذمہ داری تو یہی ہے ،خواہ وہ باہر کی دنیا میں جتنا بھی کام کرلے ،دیکھنے والے یہی دیکھتے ہیں کہ اس نے گھر اور بچو ں پر کیا تو جہ دی ۔ویسے ما ں ہونے کے ناتے ضمیر ہی مطمئن نہیں ہو تا ۔یہ کہنا بجا ہو گا کہ:
 ”زندگی پیہم تلاش و جستجو ہے دوستو “
ہماری والدہ نے ہم بہنوں کی تر بیت پر بھر پور توجہ دی ۔گو کہ وہ بابا کے ساتھ سو شل ایکٹیو ٹیز میں اور خود اپنے رفاہی کامو ں میں بہت مشغول رہتی تھیں ۔وہ مختلف این جی اوز اور خواتین کلب کی ممبر تھیںاور اب بھی ہیں ۔دو نو ں ” کراچی جم خانہ“ کے ممبر ہیں ۔یہ 1886ءمیں بنا تھا ۔پاکستان کا سب سے پرانا کلب ہے ۔اس کے ممبران کی تعداد 80000سے بھی تجاوز کر چکی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک چھت تلے بے شمار تفر یحی سہو لتیں دستیاب ہیں ۔اسپور ٹس کی ہر سہولت مہیا ہے ۔میچ بھی ہوتے ہیں ۔میرے بچے تو اس پر بہت خوش ہوتے ہیں کہ ”عمران خان“ بھی یہاں میچ کھیل چکے ہیں ۔
میں اور شعیب شادی کے ابتدائی دنو ں میں تو با قاعد گی سے جمخانہ جاتے تھے ۔بابا اور ماما تو اب بھی جاتے ہیں ۔ماما نے مجھے گھر داری بھی سکھائی گو کہ بابا کی لا ڈلی تھی، وہ نہیں چاہتے تھے ۔ماما کی تربیت کا ہی نتیجہ ہے کہ میں نے اپنی بیٹی کو تعلیم کے ساتھ ساتھ گھر داری میں پیچھے نہیں چھو ڑا۔
زو ہا بھی آج کل آئی ہوئی تھیںاس لئے ان سے بھی ملاقات ہو گئی ۔ان کے سر پرا سکارف دیکھ کر ہمیں خو شی کے ساتھ حیرت بھی ہوئی ۔ہمارے تا ثرات کو سمجھ کر حلیمہ مسکراتے ہوئے کہنے لگیں کہ آ جکل نسلِ نو ہم سے زیادہ عقلمند ہے ۔وہ اپنے راستے خود منتخب کر کے خو شی محسوس کرتی ہے ۔ایک آ زاد ما حول میں رہتے ہوئے اس کا پہننا او ڑھنا مجھے پسند ہے ۔اللہ تعالیٰ اسے ثابت قدم رکھے ،آ مین ۔
زوہا بو لیں کہ تر بیت تو ماما کی ہی ہے ۔بچپن میں انہو ں نے ہم دو نوں کو اسلامی تربیت میں پیچھے نہیں رکھا ۔قر آن کریم اور سنت طیبہ کے جو دروس بچپن میں دیئے جاتے ہیں وہ کبھی نہیں بھو لتے ۔اسی کا اثر ہے کہ ہم دو نو ں ان مبارک تعلیمات کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ہم نے ماما اور بابا دونو ں کو خوب سے خوب تر کا متلاشی دیکھا ۔زندگی کا کو ئی لمحہ بے کار نہ رہے ، یہ ہم نے ماما سے ہی سیکھا۔
حلیمہ نے بتایا کہ انہوں نے اپنے کریئر کی ابتداءاسی ”کاروانِ آموزش“ سے کی تھی پھر خوب تر کی جستجوایک ملٹی نیشنل اسکول میں لے گئی ۔وہا ں مزید کو رسز کئے اور بہت کچھ سیکھا ۔3سال بعد پھر یہا ںکی پیشکش کو قبول اس لئے کیا کہ ٹیچر کے مقابلے میں کوآرڈینیٹر پر کام کا بوجھ کم ہوتا ہے اور مجھے گھر پر ساس صاحبہ کے لئے آج کل فر صت زیادہ درکار ہے ۔والدین کی خدمت بھی ہمارے لئے دین و دنیامیں کامیابی کا باعث بن سکتی ہے ۔ان کے احسانات کا بدلہ ہم دے ہی نہیں سکتے ۔ہم جس دور سے گزر رہے ہیں ،اس میں اخلاقی اقدار ختم ہو تی جا رہی ہیں۔اولڈ ہا ﺅ سز کا سن کر روح کانپ جاتی ہے ۔کہاوت ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔کا ش یہی سوچ لیا جائے کہ مکا فات عمل تو ہوکر رہتا ہے ۔شاعر نے انہی حالات کے لئے کہا ہے کہ:
میں کیا تھا کس لئے بھیجا گیا اس دور ہستی میں
نہ اب تک خود کو پہچانا ،نہ کچھ رازِ سفر سمجھا
حلیمہ اور ان کے شو ہر اپنے فارغ وقت میں کمیو نٹی کے پرو گرامو ں میں ضرور شامل ہو تے ہیں ۔مشاعروں میں جانا بھی پسند ہے، شاعری سننے کا بھی شوق ہے ۔اکثر تعطیلات میں کتابیں پڑھتے ہیں ۔ابھی امیرہ بیٹی کی ذمہ داری ہے اس لئے اس کی تر بیت بھی ہم دو نو ں کا ہدف ہے۔ 
شاعروں میں مجھے علامہ اقبال ،فیض احمد فیض اور پروین شاکر زیادہ پسند ہیں جبکہ اچھی شاعری کسی کی بھی ہو، محظوظ کر تی ہے ۔اپنی پسند آپ کی اور شعیب صا حب کی نذر ہے:
نگہ بلند سخن دلنواز ،جا ں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کار وا ں کے لئے 
ذرا سی بات تھی اندیشہ عجم نے اسے
بڑ ھا دیا ہے فقط زیب دا ستا ں کے لئے
شعیب شاﺅ بوانی نے بھی بیگم کے نام شعر کہے :
تمہارے حسن سے رہتی ہے ہمکنار نظر
تمہاری یاد سے دل ہم کلام رہتا ہے 
رہی فراغتِ ہجرا ں تو ہو رہے گا طے
تمہاری چاہ کا جو، جو مقام رہتا ہے 
ہماری گفتگو طویل ہو چلی تھی ۔حلیمہ سے مل کر احساس ہوا کہ وہ ایک زندہ دل خاتون ہیں۔وہ اپنی مسکراہٹو ں سے ہر مشکل کا حل نکالنا جا نتی ہیں ۔آ خر میں کہنے لگیں کہ زندہ دلی میں ہی زندگی کا مزہ ہے ۔مشکلات سے بز دل گھبراتے ہیں ۔خوا تین کا کردار گھر کی خو شحالی میں اہم ہے ۔مثبت راستے ہمیں خود ہی تلاش کر نے پڑتے ہیں ۔ان کے لئے کسی کے آ گے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑ تے ۔
 

شیئر: