Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ لوگوں کو اصول سکھانے کا ارادہ کر چکی تھی

اُم مزمل۔ جدہ
وہ پرجوش انداز میں اپنے منتخب کردہ شعبے کے جملہ فوائد گنوا رہی تھی۔ وہ حیران سے زیادہ پریشان تھا۔ اسکا ذہن اسکی نئی فرمائش کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھا لیکن وہ بات کرنے سے پہلے تمام پہلوﺅں پر غور کر نا چاہتا تھااسی لئے اسے پورا وقت دے رہا تھا کہ وہ اپنی بات تفصیل سے بتائے اور اس کی باتوں کے دوران وہ خود سوچ بچار جاری رکھے اور جب اسکی بات مکمل ہو جائے تو وہ اس کی جانب سے کئے جانے والے سوال کا سیر حاصل جواب دے سکے اور اسکے سوال کا جواب اسی کی باتوں سے اخذ کرسکے۔ 
آخر کار اسے وہ نکتہ مل گیا۔جیسے ہی اس نے کہا کہ آخر لوگوں کی تربیت کرنا بھی ضروری ہے کہ کیسے گاڑی ،رکشہ،چنقچی، بس اور اسکوٹر کی سواری کریں اور اب زیادہ جگہوں پر نہ سہی لیکن کسی کسی علاقے میں وکٹورین زمانے کی یادگار سواری تانگہ میسر آجائے تو آپ بالکل اپنے آپ کوعام مسافر کی طرح نہ سمجھیں۔
وہ استفہامیہ انداز میں اسے دیکھنے لگا کہ اس ایک جملے کے تو کئی معنی ہو سکتے ہیں کہ شاید وہ مسافر اپنے آپ کو ایسی سچویشن میں جانیں کہ وہ خواہ مخواہ ایسی سواری پر بیٹھے کیونکہ اپنی منزل پر پہنچنے کے لئے اپنے پیروں کا استعمال کرلیتے تو اس سواری سے پہلے اپنی منزل تک جا پہنچتے لیکن کچھ لوگ تانگے کو صبح کی سیر کے لئے امیرانہ طریقہ جانتے ہوئے اپنی خوشی ظاہر بھی کرتے کہ ہم سحر خیز ی کا کیا لطف لے رہے ہیں۔ اس مشینی دنیا میں انسان بھی مشینی ہو چکا ہے اور ہمیں قدرت نے ایسی شفاف کرنوں کے درمیان سحر عنایت فرمائی ہے کہ جو لاکھوںدے کر بھی ایسی خوشی و سکون حاصل نہیں کرسکتے ۔
وہ باتوں کے دوران وقفہ دیتے ہوئے پوچھنے لگی کہ آجکل چنقچی فیشن میں ہے کہ نہیں؟پھر خود ہی تصحیح کرتے ہوئے اپنا سوال دہرایا 
یعنی میرا مطلب ہے کہ اسکی اجازت دوبارہ مل گئی ہے یا نہیں؟کیونکہ اس کی وجہ سے عوام کو کافی سہولت ملی تھی۔ بس کی مشکل سواری سے 
یہ سواری بہت آرام دہ اور سہولت کی ہے لیکن کچھ لوگوں کو اپنے بزنس کی فکر ہوئی تو بے تکے بہانے بنا کر انہوں نے اسے بند کرادیا تھا۔ 
معلوم ہواہے کہ اسے ذرا بہتر صورت میں نئے رکشہ کہہ کر سڑک پر لا یا گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ اسکوٹر سواروں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پوری دنیا میں یہ واحد لوگ ہیںجو ہر وقت اپنا سفر جاری رکھ سکتے ہیں۔ کسی وقت تو واقعی اسکے سوار دنیا کے خوش نصیب انسان محسوس ہوتے ہیں کہ ایک دنیاٹریفک جام میں ایک انچ کا فاصلہ بھی طے نہیں کرپارہی اور ایسے میں اسکوٹریا موٹرسائیکل سوار اپنے کھٹارے کو کم جگہ سے انتہائی آسانی سے نکال کر لے جائے تواسکی خوش قسمتی پر رشک آنے لگتا ہے۔
وہ ساری معلومات سے یہی بات اخذ کرپایا تھا کہ وہ لوگوں کو سڑک پر سواری کے اصول سکھانے کا ارادہ کر چکی ہے۔ اب اس میں ترمیم کی گنجائش بہت کم رہ گئی ہے تو اب فیصلہ بھی ہو ہی گیا ۔وہ تیز رفتاری پر نوجوانوں کو روکتی اور انہیں یہ بات سمجھانے کی کوشش کرتی کہ آپ کی زندگی اتنی ارزاں نہیں کہ آپ یوں سڑک پر اپنی زندگی ہتھیلی پر لئے تیز رفتاری سے گاڑی دوڑاتے پھریں۔ کبھی کسی فیملی کو دیکھتی تو انہیں سمجھاتی۔
 

شیئر: