Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نبی اکرمﷺ کی اتباع، اللہ تعالٰی کی محبت کا ذریعہ

امت مسلمہ پر لازم ہے کہ رسول اللہ کی سیرت کو اپنائیں اوراپنی زندگی اسی کے مطابق استوار کریں
* * *مولانانثاراحمد حصیر قاسمی۔حیدرآباد دکن* * *
 اللہ تبارک وتعالیٰ نے احمد مجتبیٰ محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت اورنبیوں ورسولوں کے سلسلہ کو ختم کرنے کیلئے منتخب فرمایاتھا، اس کا فطری تقاضا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قیامت تک آنے والی نسلوں اوربنی نوع انسان کے لئے عظیم الشان پروگرام محفوظ ومامون راستہ اورہرطرح کے خلل اورکجیوں سے پاک اور سیدھا راستہ ہو جس پر انسان چل کر اوراس راہ کو اختیار کرکے آسانی کے ساتھ منزل مقصود تک پہنچ سکے اورفانی وابدی ہردو زندگی میں کامیابی حاصل کرسکے۔ اس کا یہ بھی تقاضا تھا کہ اس آخری نبی  کی زندگی اوراس کی ساری تفصیلات اوراس کے نشیب وفراز دن کی شعاعوں کی طرح منور اورجگمگاتی ہوئی ہو، آپ   کی یہ زندگی اس قدر واضح وعیاں صرف اسی زمانہ کے لوگوں کے لئے نہ ہو بلکہ ہرزمانہ، ہرقوم ونسل اورقیامت تک آنے والے ہرانسان کے لئے واضح وعیاں ہو، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اپنی قوم، اپنی سرزمین، اورزمانے تک محدود نہیں تھی بلکہ ہرزمانہ، ہرقوم، ہرخطۂ سرزمین، اورہررنگ ونسل کے لوگوں کے لئے عام تھی۔اللہ تعالیٰ نے آپ  کو رہتی دنیا تک کے سارے انسانوں اورسارے عالم کیلئے رسول بناکر بھیجا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو ساری کائنات کے لئے رحمت بنایا۔اللہ کے نبی کی زندگی، آپ  کے شمائل، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت مطہرہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی شخصیت کے پہلو، اورآپ کی دعوت کے نتائج اللہ کے راستہ پر چلنے والے ہر فرد وبشر کے لئے، ہرقانون ومربی کے لئے، ہرخاندان اورسماج کے لئے، خیرکے راستوں پر چلنے والے کے لئے سبق اورنمونہ ہے، اوریہ تاقیامت ہر ایک کے لئے سبق رہے گا۔اس وقت دنیا کے چپہ چپہ کے مسلمان اورمشرق ومغرب کے اہل ایمان کے قلوب حبیب کبریا  صلی اللہ علیہ وسلم کی یادوں سے لبریز ہیں، ہر کوئی خیرالبشر صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت پاک کو دہرا کر اپنے ایمان کو تازہ اوریقین میں پختگی پیدا کررہا ہے۔ہر جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ذکر چھڑے ہوئے اوراپنے اپنے انداز سے ہر کوئی اسے بیان کرکے اوراس سیرت کو دہرا کر اپنے ایمان کو جلابخش رہاہے۔ ہم ذرا پلٹ کر دیکھنا چاہتے ہیں کہ جس وقت خاتم الانبیاء والرسل صلی اللہ علیہ وسلم  اس دنیا میں تشریف لائے اُس وقت قوموں کی کیا حالت تھی، انسان کیسی گمراہی، تاریکی کج روی اورجاہلیت میں غرق تھا، اس وقت دنیا کی2سب سے بڑی طاقت اورسپرپاور قومیں تھیں، ایک فارس اوردوسرے روم ۔ایک پر کسریٰ کی حکمرانی تھی اوردوسرے پر قیصر کی، اورعرب قوم ان دونوں کے بیچ جاہلیت کے دلدل اوربت پرستی کی تاریکی میں پھنسی تڑپ رہی تھی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح کا عمل شروع کیااورجنہوں نے ایمان لایا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیروی کی انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیم وتربیت اوررشد وہدایت کے ذریعہ لامحدود سعادت نصیب ہوئی۔
     رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت پھڑکدار وچمک دمک والے نور کے حامل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  دارین کی خیر وبھلائی کی رہنمائی کرتے اورلوگوں کے دلوں اورنگاہوں پر تہ بہ تہ جمے گرد وغبار کو صاف کرتے اوران پر چھائی ہوئی گھٹا ٹوپ تاریکی کو دور کرتے تھے۔انہیں شقاوت وبدبختی کے دور سے نکال کر سعادت وخوش بختی کے مرغ زاروں میں پہنچاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی چمک اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمی دمک ساری انسانیت تک پہنچ رہی تھی اورہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بشیر ونذیر اوراللہ کی طرف اللہ کے حکم سے بلانے والے اورسراج منیر تھے اورقیامت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اسی طرح سراج منیر رہیں گے۔
     امت اسلامیہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع وپیروی کرتی ہے تو وہ ایسی عظمت والی شخصیت کی پیروی کرتی ہے جس کے اندر انسانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ان کا وجودانسانیت کے حق میں خالص ونکھرا ہوا اورخیرخواہی سے لبریز ہوتاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر انسان ایسی ذات کے نقش قدم پر چلتاہے جس کی پیروی کرنے اورآپ کے نقش قدم پر چلنے کو اللہ نے نہ صرف پسند کیا بلکہ اس کاحکم دیاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  امت کیلئے نہایت نرم اورحق کے معاملہ میں نہایت سخت تھے، اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
    ’’اللہ کی رحمت سے آپ ان کیلئے نرم ہوگئے، اگر آپ ترش اورسخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے چھٹ جاتے۔‘‘(آل عمران)۔
    حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کسی دو باتوں میں اختیار دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں جو آسان ہوتا اسے اختیار کرتے تھے۔اگر اس آسان میں کوئی گناہ کی بات نہ ہوتی اوراگر اس میں کسی طرح کا اثم ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کوسوں دور ہوتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لئے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حرمت کو پامال کیاجاتا تو اللہ کے واسطے آپ  اس کا ضرور انتقام لیتے (موطا امام مالکؒ، باب حسن الخلق) ۔
    اس دین حنیف کے سائے میں رہنے والے ہر مسلمان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتوقیر، حلال واحترام اورمحبت کرناواجب ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
     ’’تم میں سے کوئی بھی مومن نہیں ہوسکتا یہاںتک کہ میری محبت اپنے باپ، اپنی اولاد اورسارے لوگوں سے زیادہ ہوجائے۔‘‘  (بخاری، ایمان، باب حب الرسول من الایمان)۔
    فطری طور پر جو خالق کائنات اورمالک الملک رب کریم سے محبت کرنے والا ہوگا، اس پر یہ لازم ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کی پیروی کرے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر اللہ کی محبت ممکن ہی نہیں، یہ دونوں چیزیں لازم وملزوم ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    ’’ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا ۔‘‘
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ایمان کے شعبوں میں سب سے عظیم ترشعبہ ہے جس کا مقام ومرتبہ محبت کے شعبوں سے بلند وبالا ہے، کیونکہ ہر محبت کرنے والا تعظیم بھی کرنے والا نہیں ہوتا، بلکہ محبت کبھی عظمت کی وجہ سے ہوتی، کبھی شفقت کی وجہ سے ہوتی اورکبھی مشاکلت کی وجہ سے ہوتی ہے۔والد کی اپنی اولاد سے محبت تعظیم کے طور پر نہیں بلکہ شفقت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ محبت تعظیم کی متقاضی تو نہیں ہوتی تاہم تکریم کی متقاضی ضرور ہوتی ہے۔اولاد اپنے والدین سے محبت تعظیم کے طور پر کرتے ہیں۔ یہ محبت تعظیم وتکریم کی متقاضی ہوتی ہے اورایک انسان کا دوسرے انسان سے محبت مشاکلت کے طور پر ہوتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ تعظیم کا مرتبہ محبت کے مرتبہ سے بلند ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بتایاہے کہ کامیابی اس کیلئے ہے جو اللہ اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتاہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتوقیر اعمال قلب میں سب سے عظیم عمل اورایمان کے شعبوں میں سب سے افضل شعبہ ہے۔
    ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ کسی سے محبت کی جاتی ہے کسی کے حسن وجمال کی وجہ سے، اس کے ذاتی کمالات کی وجہ سے یاقرابت داری کی وجہ سے یا احسان کی وجہ سے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر محبت کے یہ سارے اسباب موجود ہیں۔آپ سے زیادہ حسین نہ پہلے کوئی پیدا ہوا نہ قیامت تک پیدا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز میں کامل ومکمل اورہرطرح کے کمالات سے آراستہ کرکے مبعوث کیاتھا۔ ایمان والوں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت ورشتہ داری خود اپنی ذات سے بھی زیادہ ہے۔ النبی اولی بالمؤمنین من انفسہم ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم مؤمنین کے ساتھ خود ان کے نفس سے بھی زیادہ قربت وتعلق رکھتے ہیں ‘‘۔
     اہل ایمان ہی نہیں بلکہ ساری انسانیت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو احسانات ہیں اسے شمار کرنا ممکن نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرطرح کی برُائی کا خاتمہ کیا ،خیروخوبی کو عام کیا۔ عورت، مرد، بچے، بوڑھے اورجوان، مسلم، غیرمسلم ہر ایک کو ان کا حق دلایا اوردنیاکی جنت نشاں بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات آفتاب وماہتاب کی طرح عیاں وروشن ہیں جس کا اعتراف اہل ایمان اوردوست ہی نہیں دشمن بھی کرنے پر مجبور ہیں۔
    آج سے تقریباً سوا سو سال قبل واعظِ اسلام حسن علی صاحب ایک رسالہ ’’نوراسلام‘‘ پٹنہ، بہار سے نکالتے تھے۔ اس میں انہوں نے اپنے ایک ہندو اسکالر دوست کی رائے لکھی ہے۔
     اس نے ایک دن حسن صاحب سے کہا کہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کا سب سے بڑا اورکامل ومکمل انسان تسلیم کرتاہوں۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کس وجہ سے؟ اس نے جواب دیا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بیک وقت اس قدر متضاد اورمتنوع اوصاف نظر آتے ہیں جو کسی ایک انسان میں تاریخ نے کبھی یکجا کرکے نہیں دکھایا۔ وہ بادشاہ ایسا کہ پورا خطہ اورپورا ملک اس کی مٹھی میں اوردولتمند ایسا کہ خزانے کے خزانے اونٹوں پر لدے دارالحکومت آرہے ہوںاورمحتاج ونادار ایسا کہ مہینوں اسکے گھر میں چولہا نہ جلتا ہو اوروہ فاقے پر فاقہ کرتے ہوں، سپہ سالار ایسا کہ چند نہتے آدمیوں کو لیکر ہزاروں کی غرق آہن فوجوں پر فتح حاصل کرتاہو اورصلح پسند ایسا کہ ہزارہا پرجوش جاں نثاروں کی ہمرکابی کے باوجود صلح نامہ پر جھک کر دستخط کردیتاہو، بہادر ایساکہ ہزاروں کے مقابلہ پر تنہا کھڑا ہو اورنرم دل ایسا کہ اس نے اپنے ہاتھوں سے انسانی خون کا ایک قطرہ بھی نہ بہایاہو، باتعلق ایسا کہ عرب کے ذرہ ذرہ کی، بیوی بچوں کی، غریب ومفلس کی اورخدا کو بھولی ہوئی دنیا کے ہرہر فرد کی بلکہ سارے سنسار کی اس کو فکر ہو اوربے تعلق ایسا کہ خدا کے سوا کسی سے کوئی تعلق خاطر ہی نہ ہو اورہرچیز کو فراموش کئے ہوا ہو۔ اس نے کبھی کسی کا برُا نہ چاہا ہو بلکہ برُا چاہنے والوں کے ساتھ بھی بھلا برتائو کرتاہو، عین اس وقت جب اس پر ایک تیغ زن سپاہی کا دھوکا ہوتاہو وہ ایک شب زندہ دارزاہد کی صورت میں جلوہ نما ہوجاتاہے، عین اس وقت جب اس پر کشور کشا فاتح کا شبہ ہو، وہ پیغمبر انہ معصومیت میں ہمارے سامنے آجاتا ہے، عین اس وقت جب ہم اس کو شاہ ِعرب کہہ کر پکارنا چاہتے ہیں وہ کھجور کا تکیہ لگائے خالی چٹائی پر محو خواب نظر آتاہے، عین اس وقت جبکہ اس کے صحنِ مسجد میں مال واسباب کا انبار لگاہوتاہے، اس کے اہل بیت میں فاقہ مستی ہوتی ہے، یہ متضاد صفات وکمالات اسی کی ذات کا حصہ ہے کسی اورکو آج تک نہیں مل سکا اورنہ مل سکتاہے۔
    دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اوراس مبارک ومسعود لمحات کی علامت ہے جن سے دنیا مزین ومنور ہوئی۔ آسمان کی کرنیں اس وقت بلندی سے پھوٹیں کائنات پر پڑیں اورروئے زمین کے چپے چپے کو خیر وبرکت سے بھر دیا، ظلم وبربریت، فتنہ وفساد، جرائم ومعاصی کی تاریکی چھٹی اوراسکی جگہ اخوت وبھائی چارگی نے لے لی۔ رب ذوالجلال کا جھنڈا بلند ہو اورمخلوق نے صدا بلند کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ دنیا کے ہر خطہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم ومنفرد واقعے کی یاد منائی جاتی ہے اورماضی کو دہرایا جاتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد صدیوں سے چھائی ظلمت وتاریکی کا دور ختم ہوا اورگمراہیوں اورکج رویوں کا زمانہ قصۂ پارینہ بنا اورانسانی سماج کا کایا اس طرح پلٹا جیسے یہ زمین بدل گئی ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعوت نے روئے زمین پر وہ انقلاب برپا کیا جس کی کوئی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی اوروہ بھی صرف چند سالوں میں، نہایت مختصر مدت کے اندر ہی فساد وبگاڑ کی آماجگاہ کو خیر وبھلائی اورنیکی وصلاح سے بھردیا۔صرف اسی پر اگر کوئی سنجیدگی اورانصاف پسندی سے غور کرلے تو اسلام کی حقانیت اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا اسے یقین ہوجائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بنائے ہوئے قوانین کے اندر وہ ایسے عظیم معجزات کو پائے گا جو ہرزمانہ اورہرخطہ میں کارآمد وبارآور ہے۔
    آج مسلمان بلاشبہ راستے سے ہٹے اوربھٹکے ہوئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستہ کو چھوڑے ہوئے ہیں مگر پھر بھی انہیں اس کی حقانیت وآفاقیت کا یقین ہے۔آج دشمنان اسلام خیر البشر کی سیرت طیبہ کو مسخ کرنے اورآپ کی سنتوں کو بگاڑنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس میں پوری توانائی صرف کررہے ہیں۔وہ اللہ کی روشنی کو بجھانے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ اپنی اس روشنی کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے والا ہے۔ وہ شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخیاں کررہے اورمسلمانوں کے دلوں کو مجروح کرکے انہیں مشتعل کرنا چاہتے ہیں، مگر خود ان اعدائے اسلام ہی کی جماعت کے ایسے افراد جنہیں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا تھوڑا بھی علم ہے وہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات انسانی تاریخ میں ایسی ہے جس کی اقتداء وپیروی کرکے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔انہی کی تعلیمات کے ذریعہ دنیا میں اخوت ومحبت، بھائی چارگی، میل ملاپ اورامن وامان کو عام کیاجاسکتاہے۔
    امت مسلمہ پر لازم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنائیں، ہم اسے اپنے لئے اسوہ ونمونہ بنائیں اوراپنی زندگی اسی کے مطابق استوار کریں۔ہم اپنا طرز عمل وہی بنائیں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہونے اورمسلمان ہونے کا تقاضا ہے کہ ہم رسول اللہ سے دل وجان سے محبت کریں اوراس محبت کا ثبوت اپنے قول، اپنے عمل، اپنے اعتقاد اوراپنے ہرگفتار وکردار سے دیں، محض دعوۂ محبت کافی نہیں اوریہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کو مانیںاورمکمل پیروی کریں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کیا، کریں، اورجس سے منع کیا باز آجائیں۔
    ہم اگر اپنی زندگی کے ہرموڑ اورہرشعبہ میں رسول اللہ کی سیرت کو داخل کرلیں، اپنا کردار آپ کے جیسا بنالیں، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اپنی زندگی بنالیں تو اسی سے ہمیں دنیا میں بھی عزت ملے گی اورآخرت میں بھی، اورہم اسکے مستحق قرار پائیں گے کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے اس جام ِکوثر سے لطف اندوز ہوںگے جس کے پینے کے بعد پھر کبھی پیاس نہیں لگے گی۔
 

شیئر: