Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچپن کی تربیت ذہن پر نقش ہو جاتی ہے، شمیم کاظمی

توکل کا مطلب موجود اسباب کو استعمال میں لانا اور مالک حقیقی پربھروسہ کرنا ہے
 زینت شکیل۔جدہ 
   خالق کائنات کے احکامات جس نے بھی خوشدلی سے اپنی زندگی میں لاگو کرلئے، اس کے لئے پوری کائنات سر نگوں ہو جاتی ہے۔کوئی کام بھی ہو، اچھا یا برا،اس کی نیت و ارادہ ہمیشہ اس کام سے پہلے ہوتا ہے ۔اس لئے سب سے پہلے نیت کی اصلاح ضروری ہے۔
ہوا کے دوش پر اس ہفتے ہماری ملاقات جناب منظور حسین کاظمی اور محترمہ بنی فاطمہ کے گھر کی سب سے روشن ستارہ شمیم کاظمی سے ہوئی ۔خلوص نیت سے کئے جانے والے کام کتنے دور رس ہوتے ہیں اور اس کے بہترین اثرات دور دور تک پہنچتے ہیں۔ اس کی ایک مثال اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دنیا کے نقشے میں معرض وجود میں آنا ہے ۔برصغیر کے مسلمانوں نے اپنا رہنما قائد اعظم محمد علی جناح کو چنا اور ایک پرچم تلے جمع ہوکر بھرپور اتحاد کا مظاہرہ کیا اور غلامی سے آزادی تک کا کٹھن سفر مکمل کیا ۔
محترمہ شمیم کاظمی کا کہنا ہے کہ ہمارے والدین نے آزادی سے پہلے کا وقت دیکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خود بھی اور ہم لوگوں کو بھی ہمیشہ یاد دہانی کراتے ہیں کہ جس طرح تم لوگ اپنے ملک میں آزادی کا سانس لے سکتے ہو ،تم اندازہ ہی نہیں لگا سکتے کہ اس نعمت کے حصول میں کتنے لوگوں کی دعاﺅںاور کاوشوں کا ثمر ہے۔ جن لوگوں کا ملک اپنا نہیں ہے اور کسی دوسری طاقتور قوم نے اسے کسی بہانے سے اپنا محکوم بنا یا ہوا ہے، انہیں آزادی سے رہنے اوراپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کی کتنی تگ وود کرنی پڑتی ہے ۔اپنے ملک کی آزادی کو ایک نعمت سمجھنا چاہئے اور اس نعمت کی حفاظت کا پورا اہتمام بھی کرنا چاہئے۔
ملک کی ترقی کا زینہ علم و فنون پر عبور ہے ۔ علم دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک وہ جو سینہ بہ سینہ چلا آرہا ہے۔ اس کے لئے کسی قسم کے کاغذ قلم کی ضرورت نہیں پڑتی اور دوسرا علم وہ ہے جو کہ کاغذ قلم کے بغیر ممکن نہیں ۔ اسکول اور مدرسہ انسانی زندگی میں اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جتنی اپنا گھر اور اس کو ایسے بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک والدین وہ ہوتے ہیں جو گھر پر رہ کر اپنے بچوںکی تربیت کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو اسکول و مدرسہ میں بچے کوزیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں۔ اس لئے انکا درجہ بھی والدین کے برابر رکھا گیا ہے۔
محترمہ شمیم کاظمی نے کہا کہ تعلیم و تربیت میں والدین کا بہت اہم کردار ہو تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچپن کی تربیت ہمیشہ کارآمد ہوتی ہے، یہ ذہن پر نقش ہو جاتی ہے۔ جن باتوں کو ہم اپنے بچپن میںسیکھ لیتے ہیں وہ ہماری زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ایک چھوٹی سی مثال کہ کوئی غور کرے تو اس میں کتنی بڑے ادب کی بات پنہاں ہے اوروہ یہ کہ جب ہم چھوٹے تھے تو ہمارے بابا جان نے سکھایا تھا کہ نوٹ کیسے گنتے ہیں۔ وہی عادت آج تک ہماری ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ اس پر ہمارے قائد اعظم اور پرچم کی تصویرہے۔ ہمیںاسکا احترام کرنا چاہئے۔
اس ایک چھوٹی سی مثال سے ہم جان سکتے ہیں کہ آزاد ملک کی اہمیت کتنی ہے کہ ہم اپنے وطن کی کرنسی تک کا احترام کرنا 
اپنے لئے ضروری خیال کرتے ہیں۔ہماری والدہ نے ہمیشہ اس بات پر توجہ دی کہ کوئی چیز ناممکن نہیں ہوتی لیکن اس کو ممکن بنانے میں آپکی کوشش کوقدرت ضرور کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔ 
  جناب حسین کاظمی اپنے ملک میں اسکاﺅ ٹس متعارف کرانے کا ذریعہ بنے اور اس کی اہمیت کے پیش نظر آج بھی اسکی ضرورت تسلیم شدہ ہے۔ اسکول اور مدرسے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ ریاست کے ہر شہری کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے، مختلف ہنر سکھائے جائیں اور معاشرے میں صحت مند رجحان پیدا کیا جائے ۔جہاں تعلیم و تربیت کی اہمیت ہے وہیں جسمانی طور پر صحت مند ہونا بھی ضروری ہے۔
وہ یہ بات جانتے تھے کہ انسان بڑی اور اونچی تعمیرات سے اپنی عزت میں کوئی اضافہ نہیں کرسکتا ۔ مفید علم انسان کو معتبر بناتا ہے ۔ ریاست میں مختلف فنون و ہنر کی تربیت دی جانی چاہئے ۔جہاں حکمت کی اہمیت ہے، وہیں ہنر مندی بھی کامیابی کی سیڑھی طے کرنے کے لئے بہت بڑا وسیلہ ہے ۔کسی انسان کے دماغ کی خوبی یہی ہے کہ وہ جمع شدہ معلومات کو ترتیب سے رکھے۔
ہر انسان کو معلوم ہونا چاہئے کہ توکل کا مطلب اسباب ترک کرنا نہیں بلکہ تمام موجود اسباب کو استعمال میں لانا اور بھروسہ مالک حقیقی پر کرنا ہے ، توکل ہے، قناعت اسی کو کہتے ہیں۔ 
پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن اسکی یہ مخصوص نوعیت پوری معیشت کو سنبھالنے کے لئے کسی طور کافی نہیںبلکہ کوئی بھی ملک صرف زراعت پر ترقی نہیں کرسکتااسی لئے ضروری ہوتا ہے کہ ملک میں جو خام مال پیدا ہو اس سے صنعت کو فروغ دیا جائے۔
شمیم کاظمی پاکستان کی پہلی خاتون مارکیٹنگ کنسلٹنٹ ہیں ۔جامع کراچی سے سوشیالوجی میں ایم اے کیا اور اسی شعبے میں مکگن یونیورسٹی کینیڈاسے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ۔ انہوں نے 1980ءمیں انجمن تجارت،ملازمت و زراعت پیشہ خواتین کی بنیاد ایک نئی سطح پر ڈالی ۔ قومی سطح پر قائم کی جانے والی اس انجمن میں ملک کی متوسط طبقے کی خواتین کے علاوہ دیہی علاقوں سے زراعت اور مویشی بانی سے وابستہ خواتین کی جانب بھی خصوصی توجہ مرکوز کی۔ انجمن کی ملک بھر میں اس وقت متعدد شاخیں سرگرم عمل ہیں اور چھوٹے چھوٹے شہروں میں کام کر رہی ہیں ۔حال ہی میں اسکی 3 بین الاقوامی شاخیں امریکہ اور ناروے میں قائم ہوچکی ہیں ۔
شمیم کاظمی صاحبہ بہبود کراچی کی بانی ممبر بھی ہیں۔ وہ اس کی پہلی جنرل سیکریٹری رہی ہیں ۔ پروگریسو لائنز چارٹرز کلب کی صدر بھی ہیں، روٹری سے بھی وابستگی رہی ہے ۔نوجوانوں کی سماجی بہبودکی متعدد تنظیموں جن میں اسکاﺅٹ اوپن گروپ اور تنظیم نوجوانان وطن و دیگر شامل ہیں، ان کی ایڈوائزر ہیں۔ 
  والدین کی بہترین تربیت نے انہیں دوسروں کی تکلیف کا احساس دلایا اور انہوں نے اپنی پوری جاں فشانی سے عظیم کام میں خود کو مصروف کر لیا تاکہ کوئی گھر ایسا نہ ہو جہاں کوئی تعلیم کے بغیر ہو یا جہاں علم ہو اور ذرائع آمدنی میسر نہ ہو۔ انہوں نے ابتک پورے پاکستان میں کراچی سے گلگت تک تقریباً1500 دیہی اور شہری خواتین کومارکیٹنگ اینڈ مینجمنٹ آف مائیکرو بزنس کی ٹریننگ دی اور سیکڑوں خواتین بہت معمولی قرضے انجمن سے حاصل کرکے خود کو معاشی طور پر فعال بنانے میں کوشاں ہیں ۔
شمیم کاظمی صاحبہ نے گورنر ریلیف اور ری ہیبلی ٹیشن کمیٹی کی کنوینر کی حیثیت سے باضابطہ بنیادوں پر کام کیا ہے جبکہ ہلال احمر سندھ کی وائس چیئرپرسن بھی رہی ہیں اور اب بھی اس کی فعال رکن ہیں ۔انکے دن رات اسی مشغولیت میں گزرتے ہیں اور جو انکے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے وہ یہی ہے کہ ایسے لوگ طویل عرصے کے بعد ہی کسی معاشرے میں جنم لیتے ہیں جوصدیوں کا کام سالوں میں سمیٹ لیتے ہیں،خال خال ہیں وہ لوگ جو دوسروں کے دکھ کو اپنی تکلیف سمجھتے ہیں ۔
آج 16 دسمبر آتا ہے اور گزر جاتا ہے۔ بہت کم نوجوان ایسے ہیں جنہیں انکے والدین یہ بات بتا سکے ہیں کہ ہمارے قائد اعظم نے ہمیں اللہ کریم کی مدد اور اپنے رفقاءکے تعاون اور کاوشوں سے وسیع و عریض پاکستان ہمارے لئے بنا یا تھا جو1971ءسے پہلے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان پر مشتمل تھا۔ اب ہمارے پاس صرف مغربی پاکستان ہے اور اسکی آبیاری میں ہمیں اپنی کوششیں بار آور کر نی چاہئیں۔
محترمہ شمیم کاظمی کی شخصیت اور انکا کام اس وقت عروج پر پہنچا جب انہوں نے جنگی قیدیوں کی رہائی کے لئے کام کیا۔1971ءسے 1974ءتک انہوں نے جنگی قیدیوں کی نہ صرف رہائی بلکہ انکے اہل خانہ کی فلاح و بہبود کے لئے بین الاقوامی سطح پر انتھک کام کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی مشرقی پاکستان میں موجود پاکستانی اپنے ہم وطنوں کی معاونت کے منتظر ہیں ۔
شاعر مشرق علامہ اقبال کے مقبول اشعار میں سے ایک یہ بھی ہے جو اس امر کااظہار ہے کہ ہم قابل فخر تہذیب کے مالک ہیں: 
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے 
خدا بندے سے خودپوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہی ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا اور اتحاد و اتفاق ہے۔ 
 

شیئر: