Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اوقات کار میں کمی ضروری

 ایمن بدر کریم ۔ المدینہ
متعدد علمی رپورٹوں میں واضح کیا گیا ہے کہ اوقاتِ کار زیادہ ہونے کے منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ جو لوگ24گھنٹے کا بیشتر وقت ڈیوٹی میں گزار دیتے ہیں اور یومیہ زندگی کے معمولات ترک یا مختصر کردیتے ہیں وہ متعدد مشکلات سے دوچار ہورہے ہیں۔
اسکالرز نے متعدد تحقیقاتی جائزے لیکر خبردار کیا ہے کہ جو کارکن روزانہ 8گھنٹے سے زیادہ یومیہ ڈیوٹی دے رہے ہیں ان میں ڈپریشن کا تناسب دیگر ملازمین کی نسبت زیادہ پایا جارہا ہے۔ اس قسم کے کارکن مٹاپے، دل ، دماغ میں انجمادِ خون، درد سر او رمستقل بنیادوں پرتھکاوٹ کے عارضے میں زیادہ مبتلا ہورہے ہیں۔ زیادہ ڈیوٹی دینے والوں کا نظام ِ ہضم ، سونے کا نظام ، انکی حیاتیاتی گھڑی کا نظام اور تنفس کا نظام متاثر ہورہے ہیں۔
مذکورہ حقائق کی بنیاد پر اپنی معلومات اور تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے ذہن اور دماغ میں یہ بات یقین کے درجے کو پہنچی ہوئی ہے کہ لمبی ڈیوٹی کا کوئی فائدہ نہیں۔ عملی ، ذہنی، جسمانی اور سماجی اعتبار سے اسکے فوائد کم، نقصانات زیادہ ہیں۔ ہفتے میں 35گھنٹے سے زیادہ کی ڈیوٹی انسانی صحت اور مزاج دونوں کا نظام اتھل پتھل کردیتی ہے۔ اتنی لمبی ڈیوٹی سے کارکردگی اور پیداوار کے تناسب پر کوئی فرق نہیںپڑتا۔ اس سے کوئی اضافہ نہیں ہوتا لہذا ملازم کو اپنی مہم جوئی کے حوالے سے اعصابی تھکاوٹ اور پریشان کن اوقات سے بچاﺅ کا انتظام کرنا ضروری ہے۔
ہر انسان کو یومیہ خاندانی امور کو بھی مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں سماجی فرائض بھی پیش نظررکھنا پڑتے ہیں۔ حد سے زیادہ ڈیوٹی دینے والوں کو گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر آتے جاتے وقت سڑکوں کے جنگ نما حالات سے بھی نمٹنا ہوتا ہے۔
میں فیصلہ ساز اداروں کے سامنے انتہائی سنجیدگی اور متانت کے ساتھ یہ تجویز رکھناچاہوں گا کہ وہ یومیہ اوقات کار 6گھنٹے متعین کرے۔ ہفتے میں 30گھنٹے سے زیادہ کی ڈیوٹی نہ لیں۔ تمام سرکاری اورنجی ادارے کام کی نوعیت اورکارکردگی کی بہتری پر توجہ زیادہ مرکوز کریں۔ خود ساختہ بے روزگاری کے سدباب کی فکر کریں۔ ملازمین کے حقوق و فرائض کے نظام کو معیاری بنائیں۔ ملازمین کی عملی ، سماجی اور انسانی زندگی کے تقاضوں کے درمیان توازن اورتناسب پیدا کرنے کا اہتمام کریں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: