Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرکٹ چیمپیئنز ٹرافی جیتنے کا کریڈٹ لینے والے کہاں ہیں؟

ویلنگٹن: کرکٹ ماہرین نے پاکستان کی ون ڈے ٹیم کے دورہ نیوزی لینڈ اور مسلسل ناکامیوں کے نتیجے میں0-5سے شکست پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ یہ کلین سویپ اگر صرف سرفراز کی ٹیم کو ہوا ہے تو ان سب کا کیا کردارہے جو چیمپیئنز ٹرافی کی فتح کا کریڈٹ بٹورنے میں سرفراز سے بھی پیش پیش تھے؟ کیا پچھلے دورہ نیوزی لینڈ پہ بھی بولنگ کوچ اظہر محمود ہی نہیں تھے؟ کیا تب بھی بیٹنگ کوچ فلاور ہی نہیں تھے؟ کیا تب بھی ہیڈ کوچ مکی آرتھر ہی نہیں تھے؟ کیا تب بھی چیف سلیکٹر انضمام الحق ہی نہیں تھے جنہوں نے اس بار ایسی ٹیم بھیجی کہ 5 میچوں کی سیریز میں4 بار اوپننگ جوڑی بدلی، حتی کہ فہیم اشرف اور عمر امین سے بھی اوپننگ کروانا پڑ گئی۔پانچوں میچوں میں نئی گیند سے اٹیک مختلف بولر نے کیا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ دنیا کا کوئی بھی کپتان میچ ہارنے کے لیے میدان میں نہیں اترتا۔ وہ اپنی صلاحیتوں سے شکست نہیں کھاتا، ان غلط فیصلوں سے ہار جاتا ہے جو اس کے لیے ناگزیر ٹھہرتے ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ سرفراز بھی انہی فیصلوں کی وجہ سے ہارے جن کے انتخاب میں ان کا دخل نہیں تھا۔ ماہرین نے واضح کیا کہ ایشیائی ٹیمیں جنوبی افریقہ ، آسٹریلیا اور خاص طور پر نیوزی لینڈ کے دورے پر جاتی ہیں تو پریکٹس کے لیے سیمنٹ کی سلیب استعمال کرتی ہیں تاکہ بیٹسمین متوقع اونچی باﺅنس سے نمٹنے کی تیاری کر سکیں۔ انہوں نے پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کے2016ءکے دورہ نیوزی لینڈ کی یاد تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ پہلے ٹیسٹ کے آغاز تک اس وقت کی نمبر ون ٹیم پاکستان کے پاس پریکٹس کے لئے سلیب دستیاب نہیں تھی یوں بیٹسمینوں کو صورتحال کے مطابق تیاری کا موقع نہیں مل سکا ۔ پھر ناکامیوں اور زوال کا جو سلسلہ شروع ہوا، اس میں نمبر ون ٹیسٹ ٹیم مہینوں نہیں بلکہ ہفتوں کے اندر ہی بدترین ناکامیوں سے دوچار ہوتی چلی گئی۔بالکل ایسا ہی حال اس وقت سرفراز احمد کی قیادت میں کھیلنے والی ٹیم کا ہے۔ اس نے6 ماہ پہلے ہی چیمپیئنز ٹرافی جیتی، اس کے بعد ورلڈ الیون کو ہرایا، پھر سری لنکا کو مختصر فارمیٹ میں2بار کلین سویپ کیا۔ اس دورے پہ جانے سے قبل ٹیم اپنی دھاک بٹھا چکی تھی۔ سب کو یقین تھا کہ کانٹے دار مقابلے ہوں گے لیکن چیمپیئنز ٹرافی کی فاتح ٹیم 5 ون ڈے میچوں کی سیریز میں کلین سویپ ہو گئی۔ ان ماہرین کے مطابق عام طور پر ایسی شکست کا تجزیہ سب سے آسان کام ہے،پہلا ہدف کپتان کو بنایا جاتا ہے، ایک آدھ سینیئر بولر اور بیٹسمین بھی ساتھ ہی لپیٹ دیے جاتے ہیں، پھر بھی تشفی نہ ہو تو کوچ پہ برس لیجیے، سلیکشن کمیٹی کے بخیے ادھیڑ ڈالیے اور چیئرمین بورڈ کا گھیرا تنگ کر لیجیے۔سوال یہ ہے کہ فکسنگ کے چند کیسز کو چھوڑ کر، دنیا کا کون سا بیٹسمین ہارنے کے لیے کھیلتا ہے؟ کون سا بولر چاہتا ہے کہ اس کی ٹیم ناکام ہو جائے؟ کون سا کپتان جیتنا نہیں چاہتا؟ کیا اظہر علی اپنی خوشی سے فلاپ ہوئے؟ کیا محمدعامر نے جان بوجھ کر وکٹیں نہیں لیں؟ کیا سرفراز احمدنے جیت کے لیے سر دھڑ کی بازی نہیں لگائی؟اصل بات یہ ہے کہ جب کوئی ٹیم ہوم ورک کے بغیر نامانوس موسمی حالات میں کھیلنے کیلئے میدان کا رخ کرتی ہے تو پھر چاہے وہ ویرات کوہلی کی نمبر ون سائیڈ ہو یا سرفراز احمد کی ورلڈ چیمیپئن ٹیم، شکست کے سائے بہت پہلے سے اس کے تعاقب میں ہوتے ہیں۔ دوسرا میچ ہارنے کے بعد بیٹنگ کوچ نے کہا کہ کہ بیٹسمینوں کو باﺅنس سے نمٹنے میں مشکل ہو رہی تھی۔ یہ کوئی انکشاف نہیں ،اصل سوال یہ ہے کہ ا ٓپ نے اس مشکل سے نمٹنے کے لیے کیا کچھ کیا؟ضرورت اس بات کی ہے کہ سب کو ناکامیوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اصل مسائل کے حل کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ ایسی صورتحال کا بار بار سامنا کرنا کرنا پڑے گا۔

شیئر: