Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ کیاکہنا چاہتی تھی،آخر یہ تڑپ کیسی تھی

سیدہ تبسم منظور۔ ناڈکر
آج مجھے کسی ضروری کام سے باہر جانا تھا۔ملاقات کا وقت 10 بجے طے ہوا تھااس لئے میں علیٰ الصباح ہی گھر سے نکل پڑی۔ڈرائیور گاڑی لے کر وقت پر گھر پہنچ گیا۔ میں جاکر گاڑی میں بیٹھ گئی اورگاڑی دھیمی رفتار سے مرکزی شاہراہ پر دوڑنے لگی۔کوکن کی صبح کا کیا کہنا۔صبح کا سہاناوقت تھا اس لئے گاڑی کے شیشے نیچے کردئیے ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے بالوں کو سہلا رہے تھے ۔سورج کی ہلکی ہلکی کرنیں گالوں کو چھو رہی تھیں اور یہ سب ماحول روح کو سرشار کررہا تھا۔ 
دل کو چھو لینے والانظارہ تھا ۔ افق سے سنہرے آفتاب کی کرنیں زمین کو چھو رہی تھیں اور کہیں کہیں پودوں اور پھولوں پر شبنم کی بوندیں موتیوں جیسی نظر آرہی تھیں۔ قدرت کی یہ خوبصورت صناعی دل کو رب العزت کا تسبیح خواں بنا رہی تھی۔ 3 گھنٹے کے سفر کے بعد میں اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئی۔ طے شدہ وقت پر ملاقات ہوگئی۔کئی معاملات تھے جو بحسن و خوبی نمٹا کر فارغ ہوگئی۔ گاڑی میں کچھ سروسنگ کا کام تھا اس لئے ڈرائیور کو کہہ دیا تھا کہ جب شہر آئے ہیں تو کار کا پورا کام کروالینا۔ مجھے اندازہ تھا کہ گاڑی کا کام مکمل ہونے تک میں بھی مصروف رہوں گی مگر میرے کئی کام توقع کے برعکس بہت جلد نمٹ گئے۔ ڈرائیور کو کہہ دیا کہ وہ کام پورا کرواکر ہی لوٹے، چاہے شام ہوجائے۔ 
وقت تھا اس لئے سوچا کہ بہن سے مل لیا جائے۔رکشہ یا ٹیکسی ڈھونڈنے کے لئے یہاں وہاں نظر دوڑائی اورکئی رکشہ والوں سے پوچھا بھی مگر کوئی اس علاقے میں جانے کے لئے تیار نہیں تھا۔ پرس سے اپنا فون نکالا اور ٹیکسی بک کرلی۔ پانچ 10 منٹ کے انتظار کے بعد ہی ٹیکسی آئی اور میں اس میں سوار ہوکر بہن کے گھر کی طرف روانہ ہوئی۔
ٹیکسی جانے پہچانے راستوں پر دوڑنے لگی۔ مجھے لگا کہ جلدی ہی پہنچ جاﺅں گی مگر تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ ٹریفک کی وجہ سے راستے کا برا حال دیکھا۔ ٹیکسی والے نے گوگل پر سرچ کر کے بتایا کہ میڈم یہاں پر آدھے گھنٹے سے اوپر لگ جائے گا ،اتنا ٹریفک ہے۔ میں اپناسر تھام کررہ گئی۔چپ چاپ بیٹھ گئی اور کر بھی کیا سکتی تھی۔ اس وقت میرے پاس کوئی کتاب وغیرہ بھی نہیں تھی کہ اسے کھول کر پڑھا جائے۔ سوچا کہ چلو موبائل ہی دیکھ لیا جائے۔ پرس سے موبائل نکال کر ہاتھ میں لیا ہی تھا کہ کار کے شیشے پر ٹک ٹک کی آواز آئی۔نظر اٹھا کر دیکھا تو کار کے باہر 12تیرہ سال کی ایک لڑکی بھیک مانگ رہی تھی۔ میں نے اسے غور سے دیکھا، سانولاسا رنگ ، کھڑی ناک، بڑی بڑی آنکھیں اور آنکھوں پر گھنی پلکیں۔بہت ہی بھلی معلوم ہو رہی تھی لیکن اس کی آنکھیں بہت سرخ تھیں۔ میں نے آس پاس اپنی نظر دوڑائی تو وہاں دو چار مانگنے والیاں اور بھی دکھائی دیں۔ میں نے دوبارہ اس لڑکی کی طرف دیکھاجو ابھی تک ٹیکسی کے باہر کھڑی تھی۔
میں نے کار کے شیشے کو نیچے کیا اور اس سے کہا کہ تم اچھی بھلی ہو۔شکل و صورت بھی اچھی ہے۔ پھر اس طرح کیوں مانگ رہی ہو؟ اسکول کیوں نہیں جاتیں؟ پڑھائی کیوں نہیں کرتیں ؟“ میری باتیں جیسے برچھی کی طرح اس کے سینے میں اتر گئی ہوں۔اس کی لال لال آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس کی پلکیں جھک گئیں اور وہ بنا کچھ کہے آگے بڑھ گئی۔ میں نے اسے پلٹ کر دیکھا اور آواز لگائی” اے لڑکی! یہاں آو¿“ وہ واپس میری طرف پلٹ آئی۔” بولو میڈم کیا ہے؟ تم کو دینے کا نئیں ہے تو جانے دو نا ں،میں چلی! کھالی پیلی بھاشن کائے کو دینے کا۔“ 
” ارے ارے !رُکو ذرا۔ یہ لو پیسے ! اچھا بتاﺅ تمہارا نام کیا ہے ؟“ اس نے مجھے غور سے دیکھا اور بولی،”نئیں معلوم میڈم جی! لیکن سب لوگ میرے کو گڈی بلاتا ہے۔“
” اچھا گڈی !یہ بتاﺅ تمہارے ماں باپ کہاں ہیں؟“ 
” میڈم جی !ماں تو نئیں ہے۔باپ ہے اور ایک چھوٹا بھائی ہے۔“
اس دوران ٹریفک تھوڑا کھسکا توٹیکسی آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی۔
”گڈی! تم دیکھنے میں اچھی ہو۔اسکول جاتیں،پڑھائی کرتیں، اس طرح سے سگنل پر کیوں مانگ رہی ہو؟“
” میڈم جی اپُن اسکول کو جائے گا تو اپُن کا اور بھائی کا پیٹ کیسے بھرے گا ؟ کون دے گا اپُن کو کھانے کے لئے ؟“
” ارے لڑکی! پورا دن اسکول تھوڑی رہتا ہے۔ آدھا دن اسکول ہوتا ہے،بعد میں تم کہیں کام کرسکتی ہو۔ کتنے سرکاری اسکول ہوتے ہیں جہاں بنا پیسے کی تم اور تمہارا بھائی پڑھ سکتے ہو۔ ایسے سرکاری اسکولوں میں کپڑے،کتابیں ،کھانا سب ملتا ہے اور پھر پڑھنے لکھنے سے تمہاری اور تمہارے بھائی کی زندگی اچھی ہو جائے گی۔“
” میڈم جی! ہم بھکاری لوگ پڑھ لکھ کر کیا کرے گا اور پھر میرا باپ ہے ناجونشہ کر کے جھونپڑی میں پڑا رہتا ہے۔ کیا وہ میرے کو اسکول جانے دے گا؟ اگر میں اسکول گئی تو اس کو کھانا اور نشہ کون دے گا؟ میرے باپ کو کھانا اورنشہ نہ ملے تو وہ اپُن کو اور اپن کے بھائی کو بہت مارتا ہے۔ اپُن ایسائچ اچھا ہے۔ “
اس دوران ٹیکسی سگنل تک پہنچ چکی تھی۔ گڈی کا یہ جواب سن کر میری روح تک کانپ گئی۔ پھر میں نے جلدی سے ایک اور سوال پوچھاکیونکہ گاڑی بالکل سگنل کے پاس آرکی تھی۔
”اچھا گڈی !یہ بتاﺅ تمہاری آنکھیں لال کیوں ہیں؟ تم کو کوئی تکلیف ہے یا اس طرح دھوپ میں مانگتے رہنے سے لال ہو جاتی ہیں؟ میرے اس سوال پر وہ جیسے تڑپ سی گئی۔لگا جیسے میں نے اس کے کسی گہرے زخم پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ آنکھیں اشکوں سے لبریز ہوگئیں۔ اس کا یہ دکھ اور یہ تڑپ اتنی گہری تھی کہ میں لرز گئی۔
” کیا بات ہے گڈی! کچھ تکلیف ہے کیا ہے؟ کوئی پریشانی ہے؟ ایسی کونسی بات ہے جس سے تم اتنی پریشان ہوگئیں؟ اتنی تڑپ کر رہ گئی؟ بتاو¿! بتاﺅ،جلدی ابھی سگنل کھل جائے گا۔ میڈم جی !میڈم جی! کیا بولو ںاور کیسے بولوں۔ وہ میرا میرا۔“
اتنے میں سگنل کھل گیا اور ٹیکسی آگے بڑھ گئی اور بڑھتی ہی چلی گئی۔ گڈی پیچھے رہ گئی۔ میں نے پیچھے مڑ کر اسے دیکھا اور دور تک دیکھتی رہی۔پھر ٹیکسی کا شیشہ اوپر چڑھا لیا۔ میں سوچنے لگی آخر وہ کیا کہنا چاہتی تھی؟ ایسی کونسی بات تھی جو وہ کہہ نہیں پا رہی تھی؟ کیوں وہ اتنی تڑپ گئی تھی۔ آخر یہ تڑپ کیسی ؟
 
 

شیئر: