Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ الف لیلوی ماحول، روشنیاں،سرگوشیاں، قہقہے اور کھنکتے کنگن

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم۔ شارجہ
گزشتہ کئی دنوں سے اس ہال کی رنگین و پر نور فضا، وہاں بلندہونے والی موسیقی اور غیر ملکی فن کاروں کے ہو شربا رقص میرے حواسوں پر چھائے ہوئے تھے۔ اس لئے نہیں کہ یہ سب کچھ میں دیکھ آئی تھی۔ ارے کہاں بھئی!ابھی تو اس خوبصورت دن کے طلوع ہونے میں پورے چار دن باقی تھے بلکہ یوں سمجھئے کہ چار صدیاں ……..جی ہاں، وہاں کی گہما گہمی کا تصور کر کے میں حیران ہوئی جا رہی تھی۔
فرزانہ نے اپنے ہاں پارٹی میں ہم سب ہم جولیوں کوایک کلب میں مدعو کر رکھا تھا۔ وہ ہمیں دنیا کی خوش نصیب ترین لڑکی نظر آتی تھی۔ دنیا کی کون سی شے تھی جو اس کے پاس نہ ہو۔ دنیا کی ہر مشہور و معروف جگہ اس نے دیکھ رکھی تھی۔ فرزانہ کا رہن سہن، اس کا ہر انداز،اس کے مشاغل، میل ملاپ ۔ اُف ، کیا چیز ہے یہ فرزانہ بھی۔ہم سب اس کی قسمت پر رشک کرتے۔ وہ ہمیں ایسی ایسی داستانیں سناتی کہ ہم ششدر رہ جاتے ۔ ایسی دلنشیں باتیں اور ایسا من موہ لینے والا انداز تکلم، ہمیں یوں محسوس ہوتا ہم کسی طلسماتی دنیا میں پہنچ گئے ہیں۔ اسی الف لیلوی، جادوئی ماحول کو قریب سے دیکھنے اور محسوس کرنے کی تمنا مچلتی اور روشنیاں،سرگوشیاں، قہقہے، موسیقی اور کھنکتے کنگن حواسوں پر چھائے رہتے۔
فرزانہ کی طرف سے دعوت ملتے ہی گھر والوں سے بالا بالا ہمارا گروپ پارٹی میں شرکت کے لئے تیاریوں میں جت گیا۔ ہر روز اس موضوع پر گھنٹوں بحث ہوتی۔کپڑوں کے رنگ ،ڈیزائن کا انتخاب جوئے شیر لانا تھا۔ بہر حال کتنی ہی مغز ماری کے بعد ہزاروں روپے خرچ کر کے پارٹی کے لئے لباس تیار کروائے گئے پھر اس سے میچنگ، چوڑیاں، جوتا، میک اپ ، اس کے بیسیوں لوازمات، بیوٹی پارلر کے چکر، بالوں کا ڈیزائن غرض ہر چھوٹی بڑی چیزپرسیر حاصل تبصرہ کرنے کے باوجود دل مطمئن نہ ہو پاتا۔انتظار کی گھڑیاں گنتے گنتے بالآخر وہ دن بھی آ پہنچا۔ ہزار جتن سے تیار ہوئی اور ”کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا این جا است“ کی تصویر بنے گھر سے چلی۔ ابھی گھر کی دہلیز کو کیا برآمدے کی سیڑھیاں ہی اتر رہی تھی کہ کہیں قریب سے ہی آواز آئی:
” کہاں جا رہی ہو“؟
اُف اس سے تو میں ہمیشہ الرجک رہی ہوں۔ جب سے کلب جانے کی تیاری کر رہی ہوں، مسلسل کچو کے لگائے جا رہا ہے۔ میں نے بھی اسے کتنا نظر انداز کیا پھر بھی نجانے یہ کہاں سے آن ٹپکا ۔ابھی میں دل ہی دل میں اسے کوس رہی تھی کہ وہی بارعب آواز پھر سنائی دی۔ ”کہاں جانا چاہتی ہو؟“آواز کا رعب و دبدبہ تھا کہ میری نظریں جہاں تھیں، وہیں جم گئیں۔ میں کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی، اگلا قدم اٹھاو¿ں یا نہیں کہ اس کی آواز سے چونک گئی۔ اس نے کہا :
”تم سوچ لو، تمہارے قدم کس طرف اٹھ رہے ہیں۔“
میں نے غیر ارادی طور پر اپنے قدموں کو دیکھا۔ ایسی پیاری، اپنے لباس سے میچ کرتی سینڈل پورا شاپنگ سینٹر گھوم کر ملی تھی، میرے ذہن میں وہ دوپہر گھوم گئی اور ساتھ ہی میرا مزاج گرم ہونے لگا۔میں نے سخت جھنجھلاہٹ کے عالم میں سر کو جھٹکا اور آگے چل دی۔ ابھی گیٹ کھولنے بھی نہ پائی تھی کہ کرخت آواز سے سرتاپاکانپ گئی۔ مجھے محسوس ہوا کہ میری اس بے بسی کا تماشا اردگرد کی ہر شے دیکھ رہی ہے ،میرا مذاق اڑا رہی ہے۔ 
چند لمحے اسی طرح خاموشی سے گزر گئے اس دوران میں نے فیصلہ کر لیا کہ آج اس سے دو دو ہاتھ ضرور کروں گی۔آخر کب تک برداشت کروں، جب سے ہوش سنبھالا ہے، یہ سائے کی طرح پیچھے لگا ہوا ہے۔ مجال ہے جو کوئی شوق، کوئی تمنا، اس نے پوری ہونے دی ہو۔میری ہم عمراپنے خوابوں کی دل آویز نگری میں شاداں و فرحاں پھرتی ہیں۔ نکہت و نور کے سحر زدہ ماحول سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ ایک میں ہوں جو ساز و آہنگ میں ڈھلے ایوانوں کی چلمن اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتی۔ اس مرتبہ احساس ِ شکست و محرومی سے میرا خون کھولنے لگا۔ ”تم اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو؟“ انتہائی غصے کے عالم میں کانپتی آواز میں اسے ڈانٹا توجواباً موہوم سی سرگوشی ابھری:
”تمہارا دوست اور تمہارا خیر خواہ“……….. جانے اس کی آواز میں کوئی سحر تھا یا جذبے کی صداقت کہ ایک لمحے کو میں سُن سی ہو گئی اور بے اختیار فطرت کے وہ مناظر آنکھوں میںگھوم گئے جن سے سچائی اور خلوص اور وحدانیت کا احساس زندہ ہوتا ہے۔ پہاڑوں کی برف پوش چوٹیاں، ننھی منی گیت گاتی آبشاریں۔
میں نے کن اکھیوں سے اپنے اس خیرخواہ کو دیکھا، جو میری راہ میں روکاوٹ بنا کھڑا تھا۔ اس نازک لمحے میں جب میری برسوں کی تشنہ آرزو پایہ¿ تکمیل کے قریب تھی۔ بیشتر اس کے کہ میں کسی نئے ردعمل کا اظہار کرتی، اس نے مجھے پھر متوجہ کیا،”میں تمہارا دوست اور خیرخواہ ہی ہوں،سچا دوست اور سچا خیرخواہ“۔ 
وہ جیسے کسی وعدے کی تجدید کر رہا ہو۔ ”ہونہہ“ میں نے سر جھٹکا اور ایک قدم آگے بڑھا دیا مگر یہ کیا؟ وہ بڑی دیدہ دلیری سے میرے سامنے آ کھڑا ہوااور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ”تم محض جذبات میں آ کر ناتہ مت توڑو۔ سنجیدگی اور غیر جانبداری سے فیصلہ کرو کہ اپنے اس خیر خواہ کے بغیر جینے کا تصور کر سکتی ہو؟ کیا تم مجھ سے بے نیاز ہو کر مطمئن و مسرور رہ سکتی ہو؟ تمہارا اور میرا ساتھ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔اگر تم خود اپنی ذات سے وابستہ رکھنا چاہو تو دنیا کی کوئی طاقت ہم دونوں کے رشتے کو کمزور نہیں کر سکتی اور تم جانتی ہو کہ میرا ساتھ ہی تمہیں حقیقی خوشیوں سے ہمکنار کر سکتا ہے“۔
وہ یوں روانی میں بول رہا تھا جیسے اسے خوف ہو کہ ذرا بھی رکا تو میں اسے ہمیشہ کے لئے خاموش کر دوں گی۔ قریب تھا کہ میں اس کو نظر انداز کرکے آگے بڑھ جاتی مگر یکبارگی مجھے وہ سب واقعات یاد آنے لگے جب اس کی رہنمائی سے میں رسوا ہونے سے بچ گئی تھی ۔کئی بار سخت آزمائش اور ذہنی کشمکش سے اسی نے نجات دلائی۔ واقعی اس نے مجھے کبھی غلط مشورہ نہیں دیا۔ میں نے اعترافاً سر جھکا لیا۔ میری بدلتی کیفیت کو بھانپتے ہوئے اس نے کہا” تم صرف میرے ایک سوال کا جواب دے دو، پھر تم اپنے لئے جو راہ متعین کرنا چاہو کر سکتی ہو“ اور میں نے بھی اس سے مصالحت کرنے میں ہی عافیت جانی ،وہیں پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئی اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ ”تم کون ہو؟ اور تمہارا مقصد حیات کیا ہے؟“ نہ جانے یہ کیسا سوال تھا، کیسی آواز تھی، میرے جسم وجان کی تمام تر صلاحیتیں، قوتیں بے جان سی ہونے لگیں۔ روح میں اضطراب کی ایک لہر سی اٹھی۔
”میں کون ہوں؟ میرا مقصد حیات کیا ہے“؟ رگ و پے میں احساسِ شرمندگی کی یخ بستہ لہر آئی۔ احساسات منجمد ہوئے جاتے تھے۔ اتنا کٹھن مرحلہ شاید پہلے کبھی نہ آیا تھا۔ بہر حال مجھے اسی وقت فیصلہ کرنا تھا اور یہی مشکل کام تھا۔ میں اسی ادھیڑ بن میں تھی کہ اس کی مشفق آواز نے مجھے چونکا دیا۔ شاید میری مشکل کو آسان اسی نے کرنا ہوتا ہے ہمیشہ ” تم اس صرف اتنا ہی بتا دو کہ تم کون ہو؟“
میں نے سکون کا سانس لیا اور بڑی رسان سے کہا” میں انسان ہوں“ ”کیا؟“ فہمائش بھری آواز نے مجھے سر جھکانے پر مجبور کر دیا ”انسان“؟ تم ہرگز انسان نہیں ہو۔انسان تو ایثار کرنے اور خدمت کرنے کا دوسرا نام ہے۔ تم نے کس کے لئے ایثار کیا؟ کس کی کتنی خدمت کی؟“ اپنی بات کو ہلکا ہوتے دیکھا تو خفت اور غصے نے مجھے بے حال کر دیا۔ وحشت کے عالم میں اسے مخاطب کیا ”تو کیا میں تمہیں جانور نظر آتی ہوں؟“ 
”نہیں تم جانور نہیں ہو“ ایک پست سی آواز جس میں رنج اور دکھ بھی شامل تھا، میری سماعتوں سے ٹکرانے لگی ”جانور اپنے مالک کا وفادار ہوتا ہے ،کیا تم اپنے مالک کی وفادار ہو؟“ میں نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا۔ زندگی میں کبھی بھی ایسی کیفیت سے دوچار نہ ہونا پڑا تھا۔ میرے اوپر، جھنجھلاہٹ طاری ہونے لگی۔ ظاہر و باطن میں عجیب سی کشمکش نے پسینے سے شرابور کر دیا۔ ”میں اپنے آپ کو نہیں پہچانتی، نہیں جانتی کہ میں کون ہوں“در و بام سے صدا آتی محسوس ہوئی ،ایک ہی سوال ”تم کون ہو؟“ درخت کا ہر پتہ ،پھول کی ہر پتی سوالیہ نظروں سے مجھے تکنے لگی کہ ” تم کون ہو؟“ ہوا کا ہر جھونکا شاخوں اور ٹہنیوں کو اطلاع دیتا گزرنے لگا، ”دیکھو، اپنی ذات کی حقیقت سے لا علم ہستی۔“ 
پتے تالیاں بجانے لگے،پھول طنز سے مسکرانے لگے،میرے ذہن میں اُبال سا آنے لگا۔ میں نے کھا جانے والی نظروں سے اپنے خیر خواہ کو دیکھا جو اس وقت میرے لئے بدخواہ بنا ہوا تھا۔ ”میں نہ انسان ہوں نہ جانور تو کیا میں شیطان ہوں؟“ میری آواز کا زیر و بم آتش فشاں بنا ہوا تھا۔ اس نے میری تند خوئی کو نظر انداز کرتے ہوئے ملائم آواز میں شائستگی سے کہا:
” تم شیطان نہیں ہو۔ شیطان تو ابتر المخلوقات ہے“ میں نے شکست خوردگی کے احساس میں لپٹے اپنے آپ سے کہا ”شیطان؟ میں شیطان ہرگز نہیں ہوں۔“ ایک سرد آہ میرے سینے سے نکلی جس میں اپنی گم شدگی کا شکوہ شامل تھا۔
”اپنی تلاش خود کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔“ اس کی طرف سے نصیحت میں شفقت بھری تھپکی شامل تھی۔ ”میں کون ہوں؟“ میں نے ہمیشہ کی طرح ہار مانتے ہوئے اسی سے مدد طلب کی۔اس نے کہا:
”تم مسلمہ ہو۔“ اس کی گفتگو سے پھول جھڑنے لگے۔اپنی پہچان ،اپنی شناخت پانے اور اپنے آپ کوتلاش کر لینے پر، میرا دل خوشی سے بے قابو ہونے لگا ”مسلمہ“ میں نے خود سے سرگوشی کی۔”ہاں مگر راہ حق سے بھٹکی ہوئی۔ مرکز سے دور،بہت دور۔“
اس نے جیسے بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کی ، جیسے گم کردہ راہوں کی تلاش میں راہ بر کرتے ہیں۔ میں کھڑی ہو گئی۔ اس نے پھر سرگوشی کی،”تمہارا مقصدِ حیات ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ ہے۔ 
اس آواز میں نجانے کیا تاثیر تھی کہ میرے دل پر پڑی غفلت کی تہ اترنے لگی۔مجھے محسوس ہوا کہ میں ہلکی پھلکی ہو کر ان چھوٹے چھوٹے بادلوں کی طرح ہو گئی ہوں جو نیلے آسمان پہ تیر رہے ہیں۔
 

شیئر: