Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ورلڈ کپ جیتنا ہے تو فٹنس کا معیار رکھنا ہوگا، پاکستانی کوچ

ویلنگٹن:پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے اعتراف کیا  ہے کہ قومی ٹیم سے  دوری اور مختلف لیگز میں شرکت نے کھلاڑیوں میں سنگین فٹنس مسائل کو جنم دیا۔ انہوں نے کہا جب کھلاڑی 5ہفتے کے وقفے کے بعد نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز کیلئےجمع ہو ئے تو ان میں سے اکثر جسمانی اور تکنیکی لحاظ سے بہت پیچھے تھے۔ نیوزی لینڈ کی ہر طرح سے فٹ اور تازہ دم ٹیم سے ان کاسامنا ہوا تو نتائج سب نے دیکھ لئے۔ پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ نے واضح کیا کہ موجود ہ دور کی کرکٹ کو دیکھتے ہوئے یہ سب کچھ ہر گز قابل قبول نہیں۔ آئندہ ورلڈ کپ کو ٹارگٹ بنانا ہے تو خود کو دور حاضر کے مطابق تیار رکھنا پڑے گا۔مکی آرتھر نے کہا اس بات کے حق میں ہوں کہ ہمارے کرکٹرز دیگر ممالک کے کھلاڑیوں کی طرح وقت ملنے پر مختلف لیگز کھیل کر اپنی آمدنی میں اضافہ کریں۔ اگر اس سے قومی ٹیم کی مجموعی کارکردگی متاثر ہوتی ہے تو اس کا کوئی حل نکالنا ہوگا۔ کوچ کے مطابق ان لیگز میں شرکت کے بعد کھیل کے تینوں شعبوں میں پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی متاثر ہوئی۔ہر کھلاڑی کا مسئلہ دوسرے سے الگ تھا یوں ان مسائل سے نمٹنے میں بھی زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ہیڈ کوچ نے واضح کیا کہ ورلڈ کپ میں کامیابی کےلئے سنجیدگی دکھانی ہے تو اس کیلئے مکمل منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ قومی ڈیوٹی سے وقفے میں کھلاڑیوں کو یہ بات بہرصورت یقینی بنانا ہوگی کہ ان کی فٹنس کا معیار عالمی سطح کا ہو کیونکہ اس کے بغیر تسلسل سے کامیابی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔اس کے لئے کھلاڑیوں کو مناسب وقفوں سے آرام اور کنڈیشنگ کی ضرورت پڑے گی ۔ انہوں نے حسن علی اور کیوی بولر ٹرینٹ بولٹ کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ چیمپیئنز ٹرافی کے بعد حسن علی نے ہر میچ میں حصہ لیا۔ اس دوران ٹرینٹ بولٹ 3ماہ کے کنڈیشنگ مرحلے سے استفادہ کرتے رہے ۔حالیہ سیریز میں حسن علی اور ٹرینٹ بولٹ کی کارکردگی میں واضح طور پر فرق دیکھا گیا۔ ہیڈ کوچ نے کہا کہ منصوبہ بندی کر لی ہے۔کھلاڑیوں کو کھیلنے اور آرام کرنے کا مناسب موقع دیا جائے گا تاکہ وہ فٹ اور تازہ دم رہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ وہ کھلاڑیوں کی ٹی ٹوئنٹی لیگز میں شرکت پر کوئی پابندی نہیں لگانا چاہتے لیکن فٹنس پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا اور قومی ٹیم میں کارکردگی داوپر نہیں لگنی چاہئے۔ سیریز اور میچوں کے بعد بھی وہ فٹنس کے اعلیٰ ترین معیار کو برقرار رکھیں۔

شیئر: