Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عبایا،حجاب اسکی شناخت بن گیا

 ایک عام پاکستانی امریکن عورت کی کہانی جو شادی کے بعد امریکہ آکر بس گئی
عابدہ رحمانی۔امریکہ
آج یونیورسٹی سے چھٹی تھی ،اگلا سمسٹر شروع ہونے میں چند روز باقی تھے۔ زہرہ کی آنکھ کھلی تو امی ابا کے کمرے سے انکے فون پر بلند آواز میں باتیں کرنے کی آواز سنائی دی۔ابا جب فون پر بیرون ملک بات کرتے تھے تو انکی آواز اچھی خاصی بلند ہوجاتی تھی۔" بھائی جی مجھے اور رعنا کو تو کوئی اعتراض نہیں بلکہ ہمارے لئے تو فخر اور خوشی کا مقام ہے لیکن پھر بھی میں زہرہ سے پوچھ لیتا ہوں۔طاہر اپنا ہی بچہ ہے اسکی قابلیت اور فرمانبرداری میں کیا شک ہے۔ہاں میں اس سے ایک عرصے سے ملا نہیں۔ہاں ہاں آپ بات کروا لیجئے گا۔"
اچھا تو یہ میرا ہی ذکر خیر ہے، زہرہ کے کان کھڑے ہوگئے ۔اب اسکی سمجھ میں پوری بات آگئی تھی۔بڑے ابا یعنی اسکے تایا کا امریکہ سے فون تھا اور وہ اپنے بیٹے کے لئے اسکے رشتے کی بات کر رہے تھے۔ اسے تھوڑی سی گھبراہٹ ضرور ہوئی ۔طاہر کو اس نے کئی سال پہلے دیکھا تھا جب اسنے میٹرک کیا تھا اور وہ ہائی اسکول مکمل کرکے آیا تھا۔ اس سے دو ڈھائی برس بڑا تھا۔اب وہ الیکٹریکل انجینیئرنگ کرکے کسی اچھی فرم میں ملازم تھا۔تایا زاد ہی سہی لیکن امریکہ کا پلا بڑھا،اور ایک مدت سے کوئی واسطہ نہ تعلق ،وہ قدرے پریشان سی تھی۔
زہرہ کی پرورش ایک متوسط ، روشن خیال مسلمان گھرانے میں ہوئی تھی۔آنکھ کھولی تو گھر والوں کو روزہ،نماز اور اسلامی اقدار کا پابند پایالیکن بہت زیادہ سختی نہیں تھی۔والد کلاسیکی موسیقی اور غزلوں کے دلدادہ تھے۔خود بھی شعر کہتے تھے اور ملک کے بہترین شعرا سے تعلق تھا۔ مشاعروں کا انعقاد اوران میں شرکت انکے معمولات میں شامل تھا اور اسی طرح کلاسیکی موسیقاروں کو سننابھی انکا شوق تھا۔ بے شمار کیسٹ اور سی ڈیزاکٹھی کر رکھی تھیں لیکن مجال ہے کہ کوئی نماز قضا ہوجائے۔ پابند صوم و صلوٰة گھرانہ تھا۔ 
وہ بڑی ہوئی تو باہر نکلنے پر امی کہتیں ،"زہرہ ذرا دوپٹہ ٹھیک کرکے سر پر اوڑھو،اسے کندھے سے لٹکانے کا کیا فائدہ ؟" کپڑے وہ ایک سے ایک پہنتی لیکن پھر بھی امی کی تاکید تھی کہ کپڑے زیادہ چست اور فٹنگ والے نہ ہو ں، نہ ہی کپڑا باریک ہو۔ عزیز رشتہ داروں، خالہ زاد، پھوپھی زاد، چچا زاد لڑکوں سے ہنسی مذاق، کھیل کود جو بچپن کا معمول تھا، بڑے ہونے کے بعد قدرے تکلف میں تبدیل ہو گیاتھا۔
اسی طرح کی میانہ روی والے ماحول میں جو ایک عام پاکستانی گھرانے کا معمول تھی، اسکی پرورش ہوئی۔ جب اسنے انجینیئرنگ کالج میں داخلہ لیا تو لڑکوں کے ساتھ پڑھنے کا پہلا اتفاق تھا۔وہ پردہ دار تو تھی نہیں لیکن پھر بھی غیر لڑکوں سے بات چیت سے کتراتی اور ہچکچا تی تھی۔ اس نے لڑکیوں کا اپناگروپ بنارکھا تھا۔لڑ کوں میں اسی وجہ سے وہ مغرور مشہور تھی۔ہاں ضرور تا ًبات چیت ہو جاتی تھی۔
ابھی وہ انجینیئرنگ کے آخری سال میں تھی کہ امریکہ والے اکبر تایا نے اپنے بیٹے طاہر کیلئے اسکا رشتہ مانگا۔دادی کے انتقال کے بعد وہ کبھی پاکستان نہیں آئے۔ فون یا خط کے ذریعے رابطہ تھا۔ فون پر بھی کبھی کبھی رابطہ ہوتا تھاکیونکہ اس زمانے میں نہ انٹرنیٹ تھا،نہ ہی ای میل اور نہ ہی سوشل میڈیا اور تصویری رابطے تھے۔ 
امی نے مروتاً اس سے پوچھ لیا بلکہ مطلع کردیا کہ اسکا رشتہ طاہر سے ہو رہاہے۔زہرہ کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔اسنے پہلے ہی یہ معاملہ والدین پر چھوڑ رکھا تھا لیکن کاش وہ طاہر کی کوئی حالیہ تصویر ہی دیکھ پاتی لیکن وہ کچھ کہہ نہ سکی۔
” طاہر سے تمہارے ابا کی بات ہوئی تھی ،وہ اس رشتے سے بہت خوش ہے۔ وہ لوگ ٹیلی فون پر نکاح کرنا چاہتے ہیں تاکہ کاغذی کارروائی شروع ہو جائے پھر وہ رخصتی کے لئے آئیں گے۔اس دوران تمہاری پڑھائی بھی مکمل ہو جائیگی۔“امی نے اسے تفصیلات بتائیں۔بڑے ابا پورے خاندان میں جدت پسند یعنی ماڈرن اور لبرل مشہور تھے۔ امریکہ پڑھنے گئے تو وہیں کے ہورہے۔ پھر شادی بھی وہیں ایک امریکن عورت سے کی۔ایلس سے بدل کراس کانام عائشہ رکھا گیاتھا۔چار بچے تھے۔ امی بتاتی تھیں کہ اب کافی تبدیلی آگئی ہے اور وہ سب بہت پابند مسلمان ہیں۔ایک مرتبہ وہ عائشہ کو دادی اور سب گھر والوںسے ملانے کے لئے لائے تھے تو وہ گرمی، مچھر اور ہر وقت کے مہمانوں سے کچھ پریشان سی ہو گئی تھیں لیکن پھر بھی اچھا وقت گزرا۔
فون پر نکاح بھی خوب ہوا۔ پہلے تمام تفصیلات طے ہوئیں، کاغذات تیار ہوئے۔ زہرہ کو تیار کیا گیا، فوٹو گرافر نے وڈیو اور تصاویر بنائیں ،فون پر ہی ایجاب و قبول ہوا۔ تصاویر کو ادھر سے ادھر جانے میں ہفتہ دس دن لگ گئے۔ امی نے جب اسے طاہر کی تصویر دکھائی تو وہ اسے دیکھ کر قدرے گھبرا سی گئی۔ اسنے سوچا بھی نہ تھا ۔ وہ تو سوچ رہی تھی کہ گوری ماں اور آزاد خیال باپ کا بیٹا ہے مگر اس نے توباقاعدہ داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ ابا کے اصرار پر ایک مرتبہ طاہرسے مختصر سی بات چیت ہوئی۔ وہ ٹوٹی پھوٹی اردو میں اس سے باتیں کر رہا تھا تو زہرہ نے خود ہی کہا کہ آپ مجھ سے انگریزی میں بات کر سکتے ہیں۔ اسکا تو گویا مسئلہ حل ہو گیا ۔ اس کے ہر جملے میں، الحمدللہ، ان شاءاللہ ، ماشاءاللہ، سن کر اسے اندازہ ہوا کہ داڑھی فیشن کے طور پر نہیں رکھی ، نہ یہ وقتی ہے ، بلکہ ثواب کی نیت سے رکھی ہے۔
امریکہ روانگی کے لئے کاغذات تیار ہونے لگے ۔ساتھ ہی اسکے فائنلز شروع ہوگئے۔ امریکن ایمبیسی میں انٹر ویو کے بعد اس تمام کارروائی میں مزید تیزی آگئی۔ پھر وہ دن بھی آگیا کہ اسکے پاسپورٹ پر ویزا لگ گیا اور6 مہینے کے اندر اسے امریکہ روانہ ہونا تھا۔اگلے مہینے ہی رخصتی کی تاریخ طے ہوئی۔ اسکے والد اور تایا نے ملکر ایک بڑی تقریب اور دعوت کا اہتمام کیا جس میں تمام عزیز وِ اقارب کو مدعو کیاگیا۔امریکہ سے بڑے ابا، طاہر ،تائی اورانکی بیٹی نورآئے۔ انکے حلئے اور طور طریقے دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔ آپس میں توسب انگریزی بولتے تھے لیکن طور طریقے حد درجہ اسلامی، تائی اور نور بیشتر اوقات عبایا حجاب میں ملبوس ہوتیں۔ گھر میں بھی وہ ابا اور دیگر عزیزوں کے سامنے سر پر دوپٹہ یا حجاب لپیٹ کر رکھتیں۔ بڑے ابا اور طاہر نمازکی ادائیگی کے لئے قریبی مسجد میں جاتے یا پھر گھر میں جماعت کا اہتمام ہوتا۔ ہم پاکستانی ان سے کہیں زیادہ ماڈرن اور لبرل دکھائی دیتے۔
زہرہ کے لئے وہ دیگر تحائف کے ساتھ دو خوبصورت عبائے اور مختلف اسکا رف لائے۔ شادی کے بعد سب نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی سیر کا پروگرام بنایا۔ زہرہ اور طاہر کا بعد میں امریکہ جاکر ہنی مون کا پروگرام تھا۔گرمیوں کے دن تھے اور شمالی علاقوں کا حسن اپنے جوبن پر تھا۔ اس نے ان کی دلجوئی کے لئے پہلی مرتبہ انکا لایا ہوا عبایا حجاب پہنا تو اسے قدرے الجھن ہوئی۔ طاہر اسے اس حلئے میں دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اسکی تعریفوں کے پل باندھ دیئے۔ زہرہ سمجھ گئی کہ وہ اسکو باہر اسی لباس میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اس نے پھر امی سے مزید عبایا خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔
لاس اینجلس آنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ امریکہ میں رہتے ہوئے بھی اسکے سسرال والے کافی با عمل مسلمان ہیں۔ بڑے ابا نے اسے بتایاکہ ” بیٹی! امریکی معاشرے کی بے راہ روی دیکھ کر ہم نے اسلام کی رسی کومضبوطی سے تھامنے کا فیصلہ کیا۔اسی میں ہماری عافیت اور نجات ہے۔“زہرہ نے بھی باقی ذمہ داریوں کے ساتھ اسی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا فیصلہ کیا۔عبایا، حجاب اسکا بیرونی لباس اور شناخت بن گیا۔ وہ اپنی اس تبدیلی پر خوش بھی تھی اور حیران بھی۔ 
اب ایک اور مرحلہ درپیش تھا۔ وہ اپنی الیکٹرانک انجینیئر نگ کی ڈگری کو ضائع کیسے ہونے دیتی لیکن اسے امریکہ میں لائسنس کا امتحان پاس کرنا تھا اور ملازمت حاصل کرنے کیلئے کئی پاپڑ بیلنے تھے۔ طاہر اور باقی گھر والے اسکی مدد اور رہنمائی کر رہے تھے۔یہاں آکر اسے اندازہ ہوا کہ سر ڈھکنا یہاں مسلمان عورت کی پہچان ہے ،لباس چاہے جو بھی پہنا ہو اور ظاہر ہے کہ لباس ساتر ہی ہوگا۔ وہ اپنے پاکستانی فیشن اور لباس کا مظاہرہ صرف خواتین کی محفلوں میں ہی کر پاتی۔ وہ جس نے پاکستان میں بمشکل ہی سر ڈھکا ہو گا، اب پابندی سے سر پر اسکارف یا حجاب پہننے لگی۔ وہ ہر دم اللہ کریم کا شکر ادا کرتی، ان تمام نعمتوں اور آسانیوں کے لئے جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی تھیں۔ نیا ملک ،نئی زندگی ،نیا ماحول بہت کچھ سیکھنا تھا اور آگے بڑھنا تھا۔وہ اکثر گھبرا کر پریشان ہو جاتی۔طاہر اسکی پریشانی بھانپ لیتا اور حوصلہ بڑھاتا۔نہ کوئی نوکر نہ ڈرائیو ر، سارے کام خود کرنے تھے۔ڈرائیونگ لائسنس کا امتحان پاس کیا تو طاہر نے اسکے لئے ایک سیکنڈہینڈکار خریدی۔ اپنی ڈگری امریکہ میں منوانے کیلئے اسے کچھ کورس بھی ایک قریبی یونیورسٹی سے کرنے تھے۔
کئی ماہ ساتھ رہنے اور سیر و تفریح کے بعد ہی وہ علیحدہ اپارٹمنٹ میں چلے گئے۔ ایک بیڈ روم کا اپارٹمنٹ، مختصر فرنیچر ویک اینڈ پر والدین کے ہاں چلے جاتے۔زہرہ کی پکانے کی پریکٹس شروع ہوئی تو اچھا خاصا پکانے لگی۔ کھانا پکانے کی کتابوں سے بھی مدد ملی۔طاہر کو بیکنگ بہت اچھی آتی تھی اور جب وہ دعوت کرتی تو وہ کافی مدد کردیتا۔ اسے اپنی امی کے ساتھ گھر یلو کام کرنیکی عادت تھی۔
یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لئے زہرہ کو کافی مراحل سے گزرنا پڑا بالآخر اسکی ڈگری ریاست کیلیفورنیا میں منظور ہوگئی لیکن 4 اضافی تازہ ترین کورسز کرنے کے بعد ہی وہ پورے طور پر الیکٹرانک انجینیئر کہلاتی اور پھر لائسنس ملتا۔اس کو کلاسوں میں4 مسلمان لڑکیاں نظر آئیں۔ دو اپنا سر ڈھک کر آتیں، زہرہ بھی اسکارف پہن کر آنے لگی۔ پتلون کے ساتھ ڈھیلی پورے آستین کی قمیص یا گرمیوں میں ہلکا اور سردیوں میں بھاری کوٹ یا جیکٹ پہنتی۔مسلمانوں کے خلاف آئے دن میڈیا میں کوئی نہ کوئی شوشاچھوڑ دیا جاتا لیکن یہاں یونیورسٹی میں ماحول دوستانہ اور ہم آہنگی کا تھا۔مسلم ایسوسی ایشن کافی فعال تھی۔ طاہر سے پوچھ کر وہ ایسوسی ایشن کی ممبر بن گئی اور انکی میٹنگز میں شرکت کرنے لگی۔
ابھی اسکے دو ہی کورس ہوئے تھے کہ ا س کی طبیعت خراب ہوئی، پتہ چلا کہ وہ امید سے ہے ۔اس نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کے لئے ایک کورس لیا لیکن اسے بھی پورا کرنا انتہائی دشوار لگ رہا تھا۔اکثر کافی تھک کر دل برداشتہ ہوجاتی۔ بچے کی پیدائش کے بعد یہ تعلیمی سلسلہ قدرے منقطع ہوا۔اسکی اولین ترجیح بچے کی دیکھ بھال تھی لیکن پھر یہی فیصلہ ہوا کہ ایک کورس جو باقی ہے، وہ پورا کیا جائے اور لائسنس کا امتحان بھی ساتھ ہی ساتھ دیا جائے چنانچہ وہ 6 ماہ کے بچے کو ڈے کئیر کے حوالے کر کے جانے لگی۔یہ مرحلہ بھی کسی نہ کسی طرح پورا ہوا تو ملازمت کی تلاش شروع ہوئی۔ اسے ملازمت کا کوئی تجربہ نہیں تھا ۔اس لئے جب ایک سافٹ ویئر کمپنی نے انٹرن شپ کی پیشکش کی تو اس نے فوراً قبول کرلی۔منیجر نے دبے الفاظ میں اسے حجاب چھوڑنے کا مشورہ دیا لیکن پھر وہ خود ہی پوچھنے لگا کہ کیا یہ مذہبی طور پر ضروری ہے ؟ اور پھر وہ لوگ جیسے اسکے رنگ بر نگے حجابوں کے عادی سے ہوگئے۔وہ اپنا کام بہترین طریقے سے کرتی ، اس کے اخلاق اور کام میں مستعدی کے باعث دفتر والے اسکے گرویدہ ہوگئے۔ 6ماہ کی انٹرن شپ کے بعد جب اسے ملازمت کی پیشکش ہوئی تو اسنے اسے قبول کرنے میں ایک لمحہ کی تاخیر نہیں کی۔
اسے اس ملک میں رہتے اور سرد گرم سے گزرتے ہوئے 20 برس بیت گئے۔اسکے تینوں بچے اب بڑے ہو چلے تھے۔ بڑا بیٹا اب ہائی سکول میں آچکاتھا۔ وہ انکی دینی تعلیم پر کافی توجہ دیتی۔ اسنے اور طاہر نے ”اکنا“، اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ کی ممبر شپ بہت پہلے لی تھی اور وہ اب انکے اہم عہدے دار اور ایم جی اے تھے۔ اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے اکثر ٹی وی اور اخبارات میں انکے انٹرویو آتے۔
طاہر اور زہرہ کے دوسرے بیٹے نے قرآن کریم کے 10 پارے حفظ کر لئے تھے اور امید تھی کہ وہ ایک سال میں پورا قرآن پاک حفظ کر لے گا۔ بیٹی ابھی 10سال کی تھی۔ اسکے ساتھ ہی وہ دونوں وقت نکال کر اولڈ ایج ہوم میں رضاکارانہ کام کرتے۔دونوں بچے چھٹیوں میں مختلف اسپتالوں میں رضاکارانہ خدمات انجام دیتے۔ زہرہ کا مقصد اس ملک کاکار آمد شہری بننا ،برائیوں سے بچنااور اچھائیوں کو اپناناتھا۔ وہ اپنے نوجوان بچوں کو یہاں کے معاشرے کی بے راہ روی سے بچانے کی پوری کوشش کرتی ۔ خاص کر انکے حلقہ احباب پر اسکی کڑی نظر ہوتی۔
پاکستان آنا جانا رہتا تھا ۔بچوں کو بھی نانا نانی اور خالہ ماموں کے بچوں کے ساتھ لطف آتا۔ امی ابا بھی تین مرتبہ آئے اور طویل عرصہ گزار کر گئے۔ تائی جان کا کینسر سے انتقال ہو چکا تھا۔ بڑے ابا اب انکے ساتھ رہتے تھے اور کافی ضعیف ہو گئے تھے۔ انہوں نے معمر لوگوں کے گروپ میں شمولیت اختیار کر رکھی تھی اور انکے پروگراموں میں کافی فعال تھے۔زندگی کے شب و روز اس نئی دنیا میں بھی اتنی ہی تیزی سے بیت رہے تھے۔کبھی کبھی وہ سوچتی ،بقول منیر نیازی:
وہ جو اپنایار تھا دیر کا، کسی اور شہر میں جا بسا
کوئی شخص اس کے مکان میں، کسی اور شہر کا آ بسا
یہی آنا جانا ہے زندگی، کہیں دوستی ، کہیں اجنبی
یہی رشتہ کارِ حیات ہے ، کبھی قرب کا کبھی دور کا
ملے اس میں لوگ رواں دواں کوئی بے وفا کوئی باوفا
کٹی عمراپنی یہاں وہاں، کہیں دل لگا کہیں نہ لگا
کوئی خواب ایسا بھی ہو یہاں جسے دیکھ سکتے ہوں دیر تک
کسی دائمی شبِ وصل کا، کسی مستقل غم یار کا
وہ جو اس جہاں سے گزر گئے، کسی اور شہر میں زندہ ہیں
کوئی ایسا شہر ضرور ہے ، انہی دوستوں سے بھرا ہوا
یونہی ہم منیر پڑے رہے کسی اک مکاں کی پناہ میں
کہ نکل کے ایک پناہ سے، کہیں اور جانے کا دم نہ تھا
یہ ایک عام پاکستانی امریکن عورت کی کہانی ہے جو شادی کے بعد امریکہ آکر بس گئی۔ اسے معاشرے میں جن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، یہ روداد اس کی مختصر داستان ہے
 

شیئر: