Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام میں رزق حلال کی اہمیت وفضیلت

نوجوان نسل کو اسلاف کے کارہائے نمایاں سے روشناس کرانا ہوگاتاکہ ان میں اپنے اسلاف کے نقش پاء پر چلنے کا جذبہ پیدا ہو

* * * *

عبدالمنان معاویہ ۔لیاقت پور، پاکستان
دین اسلام چونکہ کامل ومکمل نظام حیات ہے اس لئے اس دین میں حصول رزق کے بارے میں بھی انسانیت کے لئے رہنمائی ہے ۔دین اسلام کے دئیے ہوئے اصول وضوابط کی روشنی میں جو رزق حاصل ہوگا وہ حلال شمار ہوگا ۔اسلام نے اپنے پیروئوں کو رزق حلال کمانے کی ترغیب دی ہے اور حرام رزق سے بچنے کی ترغیب بھی دی اور ترہیب بھی کی ۔نبی کریم کی حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے :
    ’’اللہ تعالیٰ خود طیب ہے اور وہ اسی چیز کو پسند کرتا ہے جو طیب ہو۔‘‘( مسلم)۔
     بخاری میں حضرت مقدام بن سعد یکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور سرورِ کائنات نے فرمایا :
    ’’اُس کھانے سے بہترکوئی کھانا نہیں جس کو کسی نے اپنے ہاتھوں سے کام کرکے حاصل کیا اور بے شک اللہ کے نبی دائود(علیہ الصلوٰۃ والسلام) اپنی دستکاری سے کھاتے تھے۔ ‘‘
    اُم المومنین سیدہ طیبہ اماں عائشہ الصدیقہ سلام اللہ علیہا روایت فرماتی ہیں کہ حضور اکرم نے فرمایا :
     ’’جو تم کھاتے ہو اُن میں سب زیادہ پاکیزہ وہ ہے جو تمہارے کسب سے حاصل ہوااور تمہاری اولاد بھی منجملہ کسب کے ہےـ‘‘(ترمذی،ابن ماجہ)۔
    یعنی اولاد کی کمائی بھی انسان کے لئے مالِ حلال میں شمار ہوگی ۔
    ایک اور حدیث مبارکہ میں نبی  نے فرمایا:
     ’’اللہ تعالیٰ کے فرائض کے بعد اہم فریضہ کسب حلال ہیـ ‘‘ (کنزالعمال)۔
    یعنی نماز،زکوٰۃ ،روزہ ،حج کے بعد مسلمان پر اہم فرض رزق حلال کماناہے ۔اس کے یہ معنی بھی ہوئے کہ مسلمان جب روزی کمانے کی سعی کرتا ہے اور روزی کمانے میں سرگرداں رہتا ہے تو دین اسلام روزی کمانے سے اُسے منع نہیں کرتا بلکہ روزی کمانے کے لئے کچھ حدود وقیود مقرر کرتا ہے تاکہ اُن حدود وقیود کی پابندی کرتے ہوئے وہ اپنے لئے اور اپنے اہل خانہ کیلئے رزق حلال کمائے ـ حلال رزق میں برکت ہوتی ہے اور رزق حرام دیکھنے میں زیادہ، لیکن حقیقت میں اُس میں برکت نہیں ہوتی ۔مثال کے طور پر رزقِ حلال سے تیار کیا گیا 3 افراد کا کھانا5 افراد کھائیں تو کھانا پھر بھی بچ جاتا ہے جبکہ حرام کی کمائی سے تیار شدہ3 افراد کا کھانا3 افراد کی کفایت بھی نہیں کرتا ،جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا :
    ’’ جو بندہ مال حرام حاصل کرتا ہے اگر اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے واسطے اس میں برکت نہیں اوراپنے بعد چھوڑ مرے تو جہنم جانے کا سامان ہے…الخ۔‘‘(مسند احمد بن حنبل )
    حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا:
     ’’جنت میں وہ گوشت داخل نہیں ہوگا جو حرام کھانے سے بڑھا ہواور ہر وہ گوشت جو حرام خوری سے بڑھا ہو دوزخ کے زیادہ لائق ہے ‘‘۔(مسند احمد بن حنبل ،بیہقی)
     ہم مسلمان جانتے ہیں کہ ایک لاکھ23 ہزار 999 انبیاء ورسل کو اللہ تعالیٰ نے’’حبیب اللہ ‘‘نہیں فرمایا ،لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی کریم کو ’’حبیب اللہ ‘‘ فرمایا اور ہمارے آقا  نے فرمایا: الکاسب حبیب اللہ  ’’ رزق حلال کمانے والا اللہ کا دوست ہے ۔‘‘
    کتنی فضیلت والی بات ہے اُن حضرات کے لئے جو رزق حلال کماتے ہیں کہ لسان نبوتؐ نے انہیں اللہ کا دوست ہونے کی بشارت دی ہے ،یہ کوئی عام فضل وعنایت نہیں ۔
    اسی طرح اولیائے کرام رحمہم اللہ کا معمول رہا کہ وہ رزق حلال کیلئے تگ ودو کرتے تھے۔وقت کے بادشاہ ان کے پاس نذرانے بھیجتے لیکن یہ حضرات انہیں قبول نہ فرماتے بلکہ واپس بھیج دیتے تھے۔ چند واقعات حضرات اولیائے کرام رحمہم اللہ کے پیش خدمت ہیںجن کی دینی کاوشوں سے اسلام چہار جوانب پھیلا۔
      حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے محدث ،فقیہ گزرے ہیں ۔اُن کی وفات کے بعد کسی نے انہیں خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ حضرت کیا معاملہ پیش آیا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بخش دیا ہے لیکن میرے گھر کے سامنے جو لوہار تھا اُسے بلند مرتبہ ملا ہے ۔وہ شخص حیران ہو ا۔صبح اُس کی بیوی سے جا کر ملا اور پوچھا کہ تیرا شوہر ایساکیا عمل کرتا تھا کہ اسے جنت میں عبداللہ بن مبارک سے بھی اونچا رتبہ ملا ہے۔اُس کی بیوی نے کہا اور تو خاص نہیں۔ ایک تو جب آخر شب عبداللہ بن مبارک نمازِ تہجد کیلئے بیدار ہوتے تو یہ کہتا تھا کہ اے اللہ !کاش میرے رزق میں فراخی ہوتی تو میں بھی رات کے اس پہر تیرے سامنے سر بسجود ہوتا۔دوسرا اس کا عمل یہ تھا کہ جب یہ دوکان پر ہتھوڑا مارنے کیلئے اوپر اٹھاتا اور اذان ہوجاتی تو فوراً ہتھوڑا پیچھے کی جانب گرا دیتا تھا کہ اللہ نے پکارا ہے ۔بس یہ دو عمل تھے۔ اس کے اور تو کچھ خاص نہیں۔
    اس حکایت سے معلوم ہوا کہ رزق حلال کمانے کی برکت اور کسب حلال کے ساتھ اللہ کے فرائض کی پابندی ایسا عظیم الشان عمل ہے جس سے انسان بڑے بڑے زاہدوں سے بھی روزِ محشر بڑھ سکتا ہے ۔
     اِس زمانے میں لوگ لقمۂ حلال کی بالکل پروا نہیں کرتے ،جو چیز نظر آتی ہے آنکھیں بند کرکے کھاجاتے ہیں اور پھر تاویل کرتے ہیں کہ یہ یوں ہے اور یوں نہیں ۔شریعت ہمارے لئے کیا چیز حلال کرتی ہے اور ہم مسلمانوں کا کیا حال ہوگیا ہے ،نہ حلال کی پرواہ کرتے ہیں نہ حرام کی ، اور حرام کو مباح بنا کر کھاجاتے ہیں ۔اکثر یہ ہوتا ہے کہ حلال اور حرام کے متعلق صریحی اورقطعی نصوص کو ترک کردیا جاتاہے اور بعض ظنی اوربعید از قیاس آیات واحادیث سے استدلال کرکے حرام کو حلال بنا دیا جاتاہے۔
     مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جب ٹرین پر سفر کرتے تھے تو سامان کا وزن خود کراتے تھے ۔جتنا سامان زیادہ ہوتا اُس اضافی سامان کی رقم جمع کراتے ۔ایک بار ایک ٹکٹ کلکٹر نے کہا کہ حضرت آپ رقم جمع نہ کرائیں ،فلاں اسٹیشن تک میں خود ہوں اُس کے بعد جو ٹکٹ کلکٹر آئے گا میں اُسے کہہ دوں گا ،وہ آپ کو تنگ نہ کرے گا ۔حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بھائی وہ کہا ں تک جاتا ہے ،اس ٹکٹ کلکٹر نے کہا حضرت جہاں تک ٹرین جائے گی ،تو حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ بھائی مجھے تو اس سے بھی آگے جانا ہے ،اور میری منزل روزِ محشر ہے۔ اگر وہاں تک تمہاری رسائی ہے تو بتلاؤ۔وہ خاموش ہوگیا اور حضرت تھانوی رحمہ اللہ ؒ نے اضافی سامان کی اضافی رقم جمع کرادی ۔
    آج ہم نہ رسول کریم کے فرمودات کے مطابق زندگی بسر کررہے ہیں ،اور نہ ہی اصحاب رسولؓ یا آل رسول ؓ کے نقوشِ پاء پر چل رہے ہیں ۔اولیائے کرام سے محبت کا دم بھرتے نہیں تھکتے مگر انکی تعلیمات سے روگردانی کررہے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ پھر سے دنیا میں مسلمانوں کو عروج حاصل ہو،تو اس کیلئے ہمیں اسلاف سے رشتہ کو مضبوط سے مضبوط ترکرنا ہوگا۔نوجوان نسل کو اسلاف کی زندگیوں سے ،اُن کے کارہائے نمایاں سے روشناس کرانا ہوگاتاکہ ان میں اپنے اسلاف کے نقش پاء پر چلنے کا جذبہ پیدا ہو ،تب ہی ہم دوبارہ مسندِ عروج پر متمکن ہوسکتے ہیں۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ ؒ نے فرمایا ہے :
ڈالی گئی جو فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹ
ممکن نہیں ہری ہو سحابِ  بہار سے
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
 

شیئر: