Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اصل منتقلی سے پہلے اس کی سوچ بدل چکی تھی

میں نے کبھی اصل گھر کو سنوارنے کی جدوجہد نہیں کی
انجم سراج۔ ریاض
کچھ تو سردیوں کے دن ہوتے ہی اداس ہیں اور اگر انسان خود بھی اداس ہو تو کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ رابعہ نے خود کلامی کی۔ ایک ہفتے سے اس کی اور عامر کی بحث چل رہی تھی جس کا اختتام یہ ہوا کہ حنا کے انٹر کرنے کے بعد رابعہ اور بچوں کااپنے ملک واپس چلے جانا ہی بہتر ہوگا تاکہ سارے بچے وہاں جاکر تعلیم مکمل کرسکیں۔ 
عامر کی بات بالکل ٹھیک تھی کیونکہ آنے والے برسوں میں تعلیمی اخراجات پورے کرنا مشکل تھا ۔سب بچے بڑی جماعتوںمیں آگئے تھے اور پرائیویٹ کالجز کی فیسیں پوری کرنا ان کے لئے ناممکن تھا مگر رابعہ یہ سوچ سوچ کر پریشان تھی کہ عامر کے بغیر وہ یہ سارے مراحل کیسے طے کرے گی۔ 
رابعہ 17 سال پہلے شادی کے فوری بعد سعودی عرب آگئی تھی۔ یہاں وہ پرسکون ماحول میسر آیا جس کاتصور بھی اپنے ملک میں ناممکن ہے ۔ اتنے عرصے میں وہ یہاں رہنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ان 17 برسوں میں وہ 4 بچوں کے والدین ہوگئے۔ اب حنا بارہویں جماعت میں پہنچ چکی تھی ۔ 2 ماہ بعد اسکے امتحانات تھے ۔ عمار دسویں، حراءآٹھویں اور عمیر چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ بچوں کی تعلیم پر دونوں نے بہت توجہ دی تھی ۔ دینی تعلیم بھی ساتھ ساتھ رہی۔ اللہ تعالیٰ نے بہت ذہین اور فرمانبردار بچوں سے انہیں نوازا تھا۔
عامر ریاض میں ایک کمپنی میںملازمت کرتے تھے اور ان کے خاندان کی اچھی طرح گزر بسر ہورہی تھی۔ اپنے ملک میں گھر بھی بنالیا تھا۔ سال ،2 سال میں چکر بھی لگتا مگرہمیشہ عامر ساتھ ہوتے لیکن اب بچوں کے ساتھ اسے اکیلے جانا تھا۔عامر نے کہا کہ وہ سال میں دوبار چھٹی پر آجائیں گے۔ 
سارے خوبصورت ماہ و سال اس کے ذہن میں آتے رہے ،کیسے محبت سے ایک ایک چیز لے کر اس نے یہ چھوٹا سا گھر بنایاتھا۔ یہ گھر تو کرائے کا تھا مگر اپنے گھر سے زیادہ عزیز۔ بچے ان دونوں کی خوشیوں کا محور رہے ۔گزرتے وقت کے ساتھ ان کی محبت میں اضافہ ہی ہوا۔ انہوں نے ہر خوشی اور ہر دکھ ساتھ جھیلا مگر اب اسکی منتقلی کا وقت آ پہنچا تھا۔
اس نے یہاں آکر بہت سی سہیلیاں بنالی تھیں جن کے ساتھ رہ کر اس نے بہت کچھ سیکھا۔ کسی سے اچھاکھانا پکانا سیکھا تو کسی نے بچوں کی پرورش میں مدد کی۔ کوئی سہیلی خریداری کی ماہر تھی تو کسی نے اچھے مشورے دے کر زندگی کو آسان بنا دیاتھا۔ وہ سب مل کر قریب کے مدرسے میں تحفیظ قرآن کریم کیلئے جاتیں۔ دینی علوم سے بھی آگاہی ہوتی۔ اسلام حقیقت میںکیا ہے؟ وہ بھی اسے یہاں آکر ہی معلوم ہوا۔ رمضان کریم کی راتوں میں تروایح کیلئے اکٹھے جانا اور فجر کے بعد سب خواتین کا ایک گھر میں جمع ہوکر دورہ قرآن کریم کرنا۔ یہیں پر اس نے قرآن مجید تجوید کے ساتھ پڑھنا سیکھا۔ ترجمہ اور تفسیر سیکھی۔ اسکول کی چھٹیوں میں مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ جانے کی سہولت ۔وہ سوچ رہی تھی کہ کیا اب میں وہاں سے بار بار آسکوں گی عمرہ کیلئے، کیونکہ اب تو اس کی منتقلی کا وقت آپہنچا ہے۔
سارا دن یہی الجھن سوچوں کے ساتھ ہوتی۔ شام کو عامر سے یہی باتیں کہ وہاںد وبارہ گھر کی ہر چیز لینی ہوگی۔ یہاں سے کیا لے کر جاﺅں گی۔ عامر کی تسلیاں اسے مطمئن نہیں کررہی تھیں۔ اسے کبھی کبھی غصہ بھی آجاتا۔ بچوں کو بھی ڈانٹتی مگر اب اس کی منتقلی کا وقت آ پہنچا تھا۔ 
ایک رات وہ اچانک اٹھ بیٹھی۔ بے کار سوچیں پریشان کررہی تھیں۔ وضو کرکے جائے نماز پر کھڑی ہوئی تو آنسو بہہ نکلے۔ یا رب! یہ کیسی جدائی ہے ، یہ کیسی آزمائش ہے۔ میں یہاں بہت خوش تھی، اپنی مرضی سے ہی واپس جا بھی رہی ہوں۔ اس بے چینی میں آنے والے وقت کی الجھن میں، اس نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دیئے تو اچانک ایک اور خیال دل و دماغ کو جھنجھوڑ گیا۔ اس منتقلی کی اتنی فکر جبکہ اپنے ملک جاناہے، بچے بھی ساتھ ہیں۔ انہیں آگے بڑھنا ہے۔ میاں کی ملازمت بھی سلامت ہے۔ وہ سال میں دوبار آنے کا وعدہ بھی کررہے ہیں۔ اس جگہ کی کوئی فکر ، کوئی الجھن ، کوئی تیاری ہے جہاں شوہر اور بچے چھوڑ آئیں گے۔ جہاں قیامت تک رہنا ہے وہی تو اصل گھر ہوگا۔ میں نے تو کبھی اس کو سنوارنے، خوبصورت بنانے یا اس کے بعد کی زندگی کے لئے کوئی زاد راہ جمع کرنے میں اتنی جدوجہد نہیںکی ۔وہ ملک جو میرا نہ تھا ،وہ گھر جس میں کرایہ دے کر رہتی تھی، اس کو چھوڑنے پر اپنے آپ کو ہلکان کررہی ہوں۔ 
اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا واجب ہے کہ اتنے سال اس رب کریم نے سکون سے گزروا دیئے اور آگے کی بھی راہیں کھلی رکھی ہیں۔ یہ سوچتے ہوئے وہ دوبارہ سجدے میں گر پڑی اور آنسوﺅں کا سیلاب آنکھوں سے روا ں ہوگیا کیونکہ اصل منتقلی سے پہلے اس کی سوچ بدل چکی تھی۔
 

شیئر: