Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اولاد کو حقیقی والدین ہی سے منسوب کیا جائے

اولاد کو حقیقی باپ کے بغیر کسی اورکے نام سے منسوب کرنا کھلی ناانصافی ہے، یہ رسم درحقیقت قدرتِ خداوندی کا منہ چڑانے کے مترادف ہے، یہ شانِ ربی میں گستاخی ہے

* * *

* * *ڈاکٹر محمد لئیق اللہ خان ۔ جدہ* * *
اسلام کی ہر ہدایت بنی نوع انساں کی فلاح و بہبود میں ہوتی ہے۔ ایسے احکام جن کی معنویت اور افادیت پر بوجوہ دھند چھائی ہوتی ہے آنے والے وقت میں اس کی صداقت اور اہمیت خود بخود اجاگر ہوجاتی ہے۔
    اسلام کی ایسی ہی تاریخ ساز ہدایات میں سے ایک ہدایت (تبنیت) کی بھی ہے۔ اسکے بموجب اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جو جس کا بیٹا ہو اسکو اسی کے نام سے منسوب کرکے پکارو۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ احزاب کی 2آیات نازل کرکے (تبنیت ) کے رواج کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
    ’’ اور اللہ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا نہیں بنایا ، یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے بول دیتے ہو مگر اللہ وہ بات کہتا ہے جو مبنی برحقیقت ہوتی ہے اور وہی صحیح طریقے کی طرف رہنمائی کرتا ہے،منہ بولے بیٹوں کو انکے باپوں کی نسبت سے پکارو ،یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے اور اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ انکے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں۔‘‘
    قرآن پاک نے یہ حکم نازل کرکے زمانہ جاہلیت کے اُس رواج کو ختم کردیا جس کے تحت منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹے کا درجہ حاصل کرلیتا تھا۔ قرآن پاک نے یہ بھی واضح کردیا کہ کسی کے بیٹے کو اپنا بیٹا کہہ دینے کی رسم کرلینے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ یہ غلط رواج ہے۔
     یہ تو قرآن کریم کا حکم ہے۔ اب آئیں تاریخ کے حوالے سے یہ دیکھتے ہیں کہ قرآنی حکم کی معنویت کس شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کسی اور کے بیٹے کو اپنا بیٹا کہہ دینے کا رواج غلط ہے۔ عصر حاضر میں مغربی اخبارات اس سلسلے میں جو رپورٹیں شائع کررہے ہیں وہ اس کا پختہ ثبوت  ہیں۔
    ایک اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جرمنی میں ایک بھائی نے اپنی بہن سے شادی کرلی اور اس سے 4بچے بھی پیدا ہوگئے۔ اس قصے کا آغاز کس طرح ہوا اور قرآن پاک کی معجزانہ شان سے اس قصے کاکیا تعلق ہے اب وہ دیکھیں۔
    پیٹرک نام کے ایک نوجوان کو سوزان نامی ایک لڑکی سے پیار ہوگیا۔ دونوں 20برس قبل پیدا ہوئے تھے۔ پھر جب انکی ماں ان سے دستبردار ہوئی تو ایک خاندان نے پیٹرک اور دوسرے خاندان نے سوزان کو اپنالیا تھا۔ مغربی قوانین منہ بولی اولاد کے رواج کو قانونی شکل دیئے ہوئے ہیں۔ اس طرح پیٹرک کا نسب منہ بولے باپ اور سوزان کا نسب اسکے منہ بولے باپ سے جڑ گیا۔پیٹرک اور سوزان بہن بھائی ہونے کے باوجود اپنے حقیقی رشتوں کی شناخت کھو بیٹھے جو آسمانی شریعت کے حکم کی خلاف ورزی کا نتیجہ تھی۔ آگے چل کر جب ان دونوں کا ایک دوسرے سے تعارف ہوا تو دونوں نے ایک دوسرے کیلئے ا پنے اندر کشش محسوس کی۔ بالاخر دونوں نے شادی کا فیصلہ کیا۔ 4بچوں کے ماں باپ بن جانے کے بعد ان پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ وہ تو سگے بھائی بہن ہیں۔
    اسکا انوکھا پہلو یہ ہے کہ دونوں نے یہ انکشاف ہوجانے کے باوجود کہ وہ دونوں سگے بھائی بہن ہیں، سلسلہ زوجیت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ معاملہ عدالت تک پہنچ گیاجہاں انکی شادی کو مسترد کردیا گیا تاہم یہ دونوں شادی کا بندھن توڑنے پر راضی نہ ہوئے۔
    ڈاکٹر حضرات سگے بھائی ، بہن میں شادی کو جسمانی اعتبار سے مضر بتاتے ہیں۔ ماہرین قانون اور کلیسا کے ارباب نے اسے سماجی نظام سبوتاژ کرنے کے مترادف قرار دیا مگر پیٹرک اور سوزان کی ضد ہے کہ قریبی رشتہ داروں کے درمیان شادی کو حرام قرار دینے والا قانون غلط ہے۔ پوری دنیا میں سویڈن واحد ملک ہے جہاں حرمت والے رشتوں کے درمیان شادی کو درست قرار دیا جاتا ہے اوراس کے یہاں اس پر کوئی قدغن نہیں اور کوئی سزا نہیں۔
    توجہ طلب امر یہ ہے کہ پیٹرک اورسوزان کی نسبت انکے فرضی والدین کے بجائے حقیقی والدین کی طرف ہوتی تو مذکورہ مسئلہ جنم ہی نہ لیتا کیونکہ شادی سے پہلے دونوں کو پتہ چل جاتا کہ وہ ایک دوسرے کے سگے بھائی بہن ہیں۔ دونوں شادی کا فیصلہ ہی نہ کرتے۔ اسلامی شریعت کے مذکورہ قانون کی اہمیت اسی جیسے مواقع پر اجاگر ہوتی ہے۔
    مختلف ممالک میں یہ رواج تھااور اب بھی ہے کہ جب کسی شخص کے یہاں اولاد نہیں ہوتی تو وہ کسی دوسرے کی اولاد کو لیکر اپنی اولاد بنالیتا ہے جسے (متبنیٰ ) کہا جاتا ہے۔ اسکے بعد متبنیٰ یعنی منہ بولا بیٹا اپنے آپ کو اپنے باپ کی جانب منسوب نہیں کرتا اور بیٹا بنالینے والا شخص اسے اپنا بیٹا کہہ کر ہی پکارتا ہے۔ ماضی میں تبنیت کا نظام آزاد تھا ۔اب اسے دنیا بھر میں کافی منظم کردیا گیا ہے۔ عصر حاضر میں تبنیت کا رواج بوجوہ زیادہ بڑے پیمانے پر پھیل رہا ہے۔ کس قسم کے بچے کو منہ بولا بیٹا بنایا جاسکتا ہے،کون لوگ غیر کے بچے کو اپنا بچہ بناسکتے ہیں۔ اس حوالے سے بچہ بنانے والے ، بچہ بنائے جانے والے، اصل باپ اور منہ بولے باپ کے فرائض بھی مقرر کردیئے گئے ہیں۔
    مغربی ممالک میں خصوصاً غیر مسلموں میں ان دنوں ایک تحریک یہ چل رہی ہے کہ بعض قانونی ماہرین حرمت والے رشتہ داروں کے درمیان شادی پر پابندی ختم کرنے کا بھی مطالبہ کررہے ہیں۔ان لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ حرمت والے رشتہ داروں کے درمیان شادی پر پابندی فرد کی آزادی پر قدغن کے مترادف ہے حالانکہ اطباء حضرا ت اس قسم کی شادیوں کے سنگین نتائج سے رائے عامہ کو خبردار کئے ہوئے ہیں مگر ڈاکٹروں کی باتوں پر یہ لوگ دھیان نہیں دے رہے ۔
    طبی جائزوں میں بتایا گیا ہے کہ بہن بھائی میں شادی سنگین مسائل کا باعث بنتی ہے۔50فیصد امکان یہ ہوتا ہے کہ اولاد معذور پیدا ہو۔اس سے اسلامی قانون کی عظمت کا ایک اور پہلو اجاگر ہورہا ہے ۔ اس سے ثابت ہورہا ہے کہ اسلام نے حقیقی بہن بھائی میں رشتہ زوجیت سے کیوں منع کررکھا ہے۔
    اندوہناک زمینی حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک میں حرمت والے رشتہ داروں کے درمیان جنسی بے راہ روی کی شرح مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہے۔ تعجب انگیز امر یہ ہے کہ بعض اسکالرز ببانگ دہل مطالبہ کررہے ہیں کہ بیٹے کو اسکے باپ کے نام سے ہی پکارا جائے تاکہ مذکورہ رواج کا سدباب ہوسکے۔ انکا کہنا ہے کہ بیٹے کو یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ اسکا حقیقی باپ کون ہے؟ اسے اسکے حقیقی باپ سے ہی مسنوب کیاجائے کسی اور کے نام سے نہیں کیونکہ حقیقی باپ کا نام چھپانے کی ہر کوشش ناکام ثابت ہوگی اور حقیقی باپ کا نام کبھی نہ کبھی منکشف  ہوکر رہیگا۔
    اولاد کو حقیقی باپ کے بغیر کسی اورکے نام سے منسوب کرنا کھلی ناانصافی ہے۔ اسکے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ یہ رسم درحقیقت قدرتِ خداوندی کا منہ چڑانے کے مترادف ہے۔ یہ شانِ ربی میں گستاخی ہے۔ متبنیٰ بنانے والاشخص گو یا زبان حال سے اللہ سے کہتا ہے کہ اگر تُونے مجھے بیٹا نہیں دیا تو کیا ہوا یہ دیکھو میں نے بیٹا حاصل کرہی لیا۔
    علاوہ ازیں اس رسم کا خاندان کے وارثوں پر بھی بڑا بُرا اثر پڑتا رہا ہے۔ حقیقی وارثوں کا حصہ مصنوعی وارثوں کو پہنچ جاتا تھا ۔ خصوصاً جب املاک جدی ہوتی ہے تو تبنیت کی رسم کی وجہ سے پورے خاندان میں عداوتوں کا ہنگامہ برپا ہوجاتا۔
    بیٹا بنائے جانے والے کے دل و دماغ میں یہ حقیقت کانٹے کی طرح ہمیشہ کھٹکتی رہتی تھی کہ اس نئے خاندان سے اس کا خون کا کوئی رشتہ نہیں بلکہ اس کی ساری بنیاد ظاہری رسم پر ہے۔ یہ دکھاوے سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگر وہ اپنے حقیقی بھائیوں کو اچھی حالت میں دیکھتا تو ان پر حسد کیا کرتا اور اگر اسکے حقیقی برادر اسے خوشحال دیکھتے تو وہ ان سے حسد کرنے لگتے ۔ بیٹا بنانے والا اگرچہ متبنیٰ کو بچپن میں بہت چاہت سے پالتا تھا لیکن اس کے بالغ ہوجانے کے بعد جب وہ یہ دیکھتا کہ اسکا منہ بولا بیٹا اسکے خاندانی اوصاف سے الگ تھلگ ہے اور اس کے اقارب کے ساتھ اس میں بیگانگی پائی جاتی ہے تو خود اسکا دل بھی بجھ جاتا ہے۔
    اسی طرح اسکا اصل باپ جب دوسرے گھر میں اپنے بیٹے کو کسی مصیبت میں دیکھتا تو وہ اس مصیبت کو اپنے ہی عمل کا نتیجہ گردانتا اور اپنے فیصلے پر پچھتایا کرتا ہے۔
     عصر حاضر میں قرآنی قانون کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ ناجائز اولاد کی نسبت کا مسئلہ دوچند ہوگیا ہے۔ سویڈن جیسے ترقی یافتہ ملک میں ناجائز اولاد کی شرح 50فیصد کی حد سے آگے بڑھ گئی ہے۔ سویڈن اخلاقی قوانین منسوخ کئے ہوئے ہے۔ ایسا ملک جس کی 50فیصد سے زیادہ آبادی ناجائز ا ولاد پر مشتمل ہو، اسکا کیا حشر ہوگا ۔اسکا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔
    مغربی ملکوں میں منہ بولی اولاد کے قانون کی وجہ سے بہت سارے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ فرضی باپ اسے یہ کہہ کر کہ میں تمہارا باپ ہوں دھوکا دیتا ہے۔ اس کی سنگینی اس وقت سامنے آتی ہے جب بچے کو پتہ چلتا ہے کہ اسکا اصل باپ تو نامعلوم ہے اور خود ساختہ باپ اس سے اس سلسلے میں جھوٹ بولتا رہا ہے۔ ا س انکشاف سے منہ بولے بیٹے کی ذہنی حالت پر بڑا برا اثر پڑتا ہے اور اسے حقیقی والدین کی تلاش و جستجو کا مشن شروع کرنا پڑ جاتا ہے۔
    یہ بھی زمینی حقیقت ہے کہ جو خاندان کسی اور کی اولاد کو اپنی اولاد بنالیتا ہے  وہ منہ بولی اولاد کو وہ توجہ اور وہ چاہت نہیں دے پاتا جو درکار ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے منہ بولی اولاد کی نشوونما ذہنی اعتبار سے غیر فطری ہوتی ہے لیکن اگر منہ بولی اولاد کو پتہ ہوتا ہے کہ اسکا حقیقی باپ  اس سے دستبردار ہوگیا تھااور اسکو پالنے والا ایک غیر انسان ہے تو اسکے دل میں اس انسان کی محبت و عزت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
     سوال یہ ہے کہ آج کل جو ماہرینِ قانون و سماجی امو راولاد کی نسبت حقیقی باپ سے کرنے پر زور دے رہے ہیں اور حقیقی باپ کا نام بدلنے کے خطرات سے آگاہ کررہے ہیں تو کیا یہ وہی بات نہیں جو قرآن کریم نے اب سے 1400 برس قبل کہی تھی؟
    دیکھئے اللہ تعالیٰ کیا کہتا ہے۔ :
    ’’منہ بولے بیٹوں کو انکے باپوں کی نسبت سے پکارو ،یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے۔‘‘

شیئر: