Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عہد،معاشرتِ انسانی کی عمارت کا ستون

 قدرت نے ہر شے کا جوڑا بنایاجو ایک دوسرے کی تکمیل ہے اورمکمل کامیابی کی واحد شکل یہ ہے کہ دونوںایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں
 
* * * * *
* * * ڈاکٹر بشریٰ تسنیم ۔ شارجہ* * *
   زندگی یا مہلتِ عمر اگر ایک کرنسی ہے اور یہی تجارت کیلئے رأس المال ہے تو اس مال سے نفع بخش تجارت کا حصول بنیادی اصول و قواعد پہ عمل کرنے کی شرط کے ساتھ ہی کامیاب ہونے کی دلیل ہے۔کسی بھی میدان عمل میں مسابقت کے امکانات ہی سے صلاحیتیں، قابلیتیں اجاگر ہوتی ہیں اور کامیابی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
    اللہ رب العزت نے سیدنا آدم  ؑاورسیدہ حوا  ؑکو اس کاروبار دنیا میں اسی مسابقت کے میدان عمل میں اتارا( الذی خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا( الملک  2 ) ۔
    مسابقت کا ایک جذبہ تو سیدنا آدم  ؑاورسیدہ حوا  ؑکے درمیان تھا کہ دونوں میں سے کون اپنی زندگی میں اپنے حصہ کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے مراحل میں اپنے رب کی رضا کو مقدم رکھنے میں زیادہ مستعد ہے۔دوسرا مقابلہ انسان (آدم و حوا) اور شیطان کے درمیان تھا کہ شیطان رأس المال کو چھین نہ لے یا خسارے کی تجارت میں نہ لگا دے۔
    شیطان کا مقابلہ دونوں نے مل کر کرنا ہے، ایک دوسرے کا ہاتھ تھا مے رکھنا ہے اس لئے کہ دونوں کا دشمن ایک ہی ہے اور ایک دلچسپ اور خوشگوار دوستانہ مسابقہ دونوں اصناف کے درمیان ہے۔اس مسابقت میں تنگ دلی، نفرت، دشمنی نہیں بلکہ اپنی منزل تک پہنچنے کیلئے راستے (دنیا) کو آسان بنانا ہے۔وسعت ِ قلبی،محبت اور بشاشت کے ساتھ کہ دونوں کا محبوب حقیقی اور منزل ایک ہی ہے۔ جب دشمن بھی ایک ہی ہو اور منزل مراد بھی یکساں ہو تو ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کیلئے ایک دوسرے کی معاونت میں لطف و سرور آجا تا ہے۔
    ’’عہد الست‘‘ کے بعد پہلا عہد’’ نکاح’’ ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے متعین کردہ قواعد و ضوابط کے تحت قائم کیا جاتا ہے۔ساری انسانی معاشرت کی عمارت اسی بنیاد پہ استوار کی گئی ہے۔ اس عمارت کی بنیاد جیسی ہوگی ویسا ہی معاشرہ وجود میں آئے گا ،جیسے قواعد وضوابط اسکے ہونگے جیسی ترجیحات اس رشتے کو قائم کرنے اور نبھانے کی ہوں گی ویسے ہی نتائج سامنے آئیں گے۔جانوروں اور انسانوں  کی  معا شرتی زندگی اور بقائے نسل کے سلسلے میں معاہدوں کا ہونا ہی دونوں کے درمیان امتیازی فرق ہوتا ہے۔معاہدوں کو ایمان داری سے نبھا نے والے اور نہ نبھانے والے انسان کبھی  برابر نہیں ہو سکتے۔
    شریک زندگی کا انتخاب ہر انسان کی معاشرتی ضرورت ہے تو مومن کیلئے یہ انتخاب اپنی دائمی معاشرتی زندگی کو دائمی کامیابی سے ہمکنار کرنا ہے۔یہ سوچ شریک زندگی کے انتخاب کا رخ متعین کرتی اور اس کو ایفائے عہد و وفا کا حسن عطا کرتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ  سارے انسانی اوصاف کا امتحان اسی ایک رشتے میں مخفی ہوتا ہے۔ انسانی جذبات کے سارے اچھے برے اخلاق کے امکانات مرد اور عورت میں ودیعت کئے گئے۔دونوں کو اچھے بھلے کاموں میں ایکدوسرے پر سبقت لے جانے کا موقع برابر عطا کیا گیا۔دونوں کی ہدایت  و رہنمائی کیلئے وہی ایک نبی اور ہدایت اتاری۔ دونوں کو ایک ہی زمین کا میدان عمل دیا گیا۔دونوں کے لئے سزا اور جزا کا ایک ہی قانون اتارا گیا۔دونوں کے نیک اعمال کا صلہ ضائع نہ ہوگا ۔دونوں سے "حیاۃطیبہ ’’ کا وعدہ کیا گیا۔دونوں کو برابر ایک جیسی جنت کی طرف دوڑنے کی ترغیب دلائی گئی۔دونوں سے ہی اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی رضامندی (و رضوان اللہ اکبر) اور دیدار کرانے کا وعدہ کر رکھا ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ قدرت نے ہر شے کا جوڑا (زوج) بنایاجو ایک دوسرے کی تکمیل ہے اور مکمل کامیابی کے حصول کی واحد شکل یہ ہے کہ دونوں (زوج)ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں ۔اُس عہد سے وفا کریں جو ان کے اور رب کے درمیان ہے اور جو اسی رب کے نام پہ مرد و عورت کے درمیان قائم ہواہے جس کو اللہ الخالق نے اپنی نشانی بتایا ہے(الروم 21)۔
    اس مقدس رشتے میں خیانت اور منافقت نہ کریں۔’’ایکم احسن عملا ‘‘ کا دوستانہ مسابقہ قائم کریں۔رشتہ میاں بیوی کا ہو یا اس رشتے کی وجہ سے وجود میں آنے والے باقی سارے رشتے، اختلافات ہونا عین فطری عمل ہے۔ جہاں بھی مزاجوں کا اختلاف ہو یا فرائض و حقوق کی جنگ، اللہ تعالیٰ نے یہ دیکھنا ہے کہ دونوں فریقوں کے بہتر عمل میں سے بھی احسن عمل کس کا ہے؟
    احسن عمل کی کڑی ’’عہد الست ‘‘سے جڑی ہے اور یہی اپنے رب سے وفا ہے۔ اپنے رب سے بے وفائی دنیا کی ساری وفاؤں کی نفی کر دیتی ہے۔ایک عاقل بالغ انسان کی باعزت معاشرتی زندگی کی ضمانت اس کا اپنے زوج سے عہد نبھانا ہے۔معاشرے کا سارا فساد نکاح کے عہد میں خیانت،بے ایمانی اور بے وفائی ہے۔جس گھر یا معاشرے میں زوجین کے درمیان عہد وفا(نکاح کی پاسداری) نہ رہے وہاں باقی سارے معاشرتی معاہدوں اور معاملات کی پائیداری بے اصل ہوجاتی ہے۔ کھوکھلی بنیاد پر عمارت قائم رکھنا آخر کب تک ممکن ہے؟
    شیطان کا سب سے اہم ٹارگٹ یہی محاذ ہے۔اس محاذ سے انسان کی پسپائی ایسا نقصان ہے کہ ساری دنیا کی فتحیابی بھی اس کا ازالہ نہیں کر سکتی ۔
    فاعتبروا یا اولی الابصار۔
    ربنا ھب لنا من ازواجنا وذریاتنا قرۃاعین واجعلنا للمتقین اماما ۔آمین۔

شیئر: