Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سادہ لوح صاحبانِ کمال، مفلسی سے بد حال

 ہمارے ہاں ہنربھی ہے، ہنرمندبھی پھر اغیار کے آگے دست سوال دراز کیوں؟
عنبرین فیض احمد۔ کراچی
ثقافت کسی بھی قوم ، ملک یا معاشرے کے لئے روح کی حیثیت رکھتی ہے۔ اخلاقی و معاشرتی رسومات ، علوم و فنون ، عقائد و افکار کے مجموعے کو بھی ہم ثقافت کہہ سکتے ہیں۔ ثقافت کو اتحاد کی علامت بھی قرار دیا جاتا ہے۔ ثقافت کسی بھی قوم یا ملک کا ورثہ اور ا س کی پہچان ہوتی ہے۔ اگر ہم اسے پس پشت نہ ڈال دیں تو دنیا کی کوئی بھی طاقت ہمیں آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر ہم بحیثیت قوم ترقی کی راہ پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی ثقافت کو نہ صرف ساتھ لے کر چلنا ہوگا بلکہ اسے اجاگر بھی کرنا ہوگا۔
دنیا میں کوئی بھی قوم ہو،وہ اپنی زبان ، ادب ، ثقافت و تہذیب سے ہی پہچانی جاتی ہے او رکوئی بھی ادب جس قوم سے منسوب ہوتا ہے وہ اس قوم کی تاریخ ،ثقافت و تہذیب کا آئینہ دار اور ترجمان ہوتا ہے۔ اردو ادب کی مثال لے لیجئے ، یہ پاکستانی قوم کی روایات ، تہذیب و ثقافت کا امین اور آئینہ دار ہے۔ 
کتنے ہی کٹھن اور مشکل حالات کیوں نہ ہوں مگرحق کی ترجمانی اورمظلوم کا ساتھ دینا کبھی نہیں چھوڑنا چاہئے۔ ثقافت کسی صوبے کی ہو یا ملک کی ،ہماری چال چلن ، رہن سہن، نشست و برخاست سے ہی ہماری ثقافت جھلکتی ہوتی ہے۔جس طرح ہر خطے کی آب و ہوا مختلف ہوتی ہے۔ اسی طرح پاکستانی تہذیب و ثقافت بھی دوسری قوموں سے الگ تھلگ ہے۔ کوئی قوم ثقافت کے اعتبار سے دوسری قوم کے ساتھ مماثلت نہیں رکھتی۔ خواہ وہ پہناوے کا مسئلہ ہو یا کھانے کا ، زبان کا ہو یا پھر رنگ و صورت کا، جس طرح سے ایک ملک کے اندر ایک ضلع کے ثقافتی پہلو دوسرے ضلع سے الگ ہوتے ہیں ،اسی طرح ایک ملک دوسرے ملک کی تہذیب وثقافت سے بالکل الگ ہوتا ہے ۔ 
ہمارے وطن عزیز میں بھی مختلف قومیں آباد ہیں۔ ان میں 95فیصد مسلم ہیں اور 5فیصد غیر مسلم۔ ہمارا ملک نہ صرف اپنے اندر 4موسموں کی خوبصورتی سموئے ہوئے ہے بلکہ یہاں کے بسنے والی قوموں نے اپنی اپنی روایات کو بھی زندہ رکھا ہوا ہے ۔یوں کہنا چاہئے کہ روایات کو زندہ رکھنے اور اگلی نسل تک پہنچانے کے لئے مختلف واسطوں کا استعمال کیا جاتا ہے جس کا بڑی ہی خوبصورتی سے اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کے لئے میلے لگائے جاتے ہیں جن کے ذریعے پنجابی، سندھی ، بلوچی اورپختون تہذیبوں کو اجاگر کیا جاتا ہے ۔ تہواروں کے کے موقع پر مختلف ثقافتی نمائشیں ہوتی ہیں جن سے آنے والی نسل کو آگاہی فراہم ہوتی ہے اور یقینا ہماری نوجوان نسل کو بھی ان نمائشوں سے بہت کچھ سیکھنے اور دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ ان روایات کو زندہ رکھنے کا جذبہ اور بھی پروان چڑھتا ہے۔
ہمارے ہاں صوبوں کے رقص بھی اپنے انداز کے ہیں۔سندھی رقص، پنجابی رقص، بلوچی رقص اور پختون رقص ، یہ تمام اپنی مثال آپ ہیں۔ اسی طرح سندھ میں سندھی ٹوپی، اجرک ، ہاتھ سے بنی چیزیں اتنی دل کش ہوتی ہیں کہ جب انہیں نمائش کے لئے پیش کیاجاتا ہے تو یہ دیکھنے والوں کے دل موہ لیتی ہیں۔ الغرض اسی طرح کئی ایسی عمارتیں بھی ہمارے وطن عزیز میں موجود ہیں جو ہماری تہذیب و ثقافت کا نمونہ ہیں۔ مثال کے طور پر بادشاہی مسجد، مسجد وزیرخان، شاہی قلعہ، مینار پاکستان وغیرہ ۔ یہ ساری چیزیں ہمیں اپنے بزرگوں کی عظیم قربانیوں کی یاد دلاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہڑپہ ، موہنجودڑو کی قدیم تہذیب بھی ہماری صدیوں پرانی تہذیب و ثقافت کا آئینہ ہے لیکن ہماری بدنصیبی دیکھئے کہ ہم نہ صرف اپنی ثقافت سے لاعلم ہیں بلکہ اغیار کی روایات اپنائے ہوئے ہیں۔ ہماری روایت ہمیشہ ہمیشہ مہذبانہ ہی رہی ہے۔ یوں کہنا چاہئے کہ کسی بھی ملک اور قوم کے رسوم و رواج اور ثقافت ہی اس کی سب سے سچی تصویر پیش کرتی ہے اور پھر کسی بھی معاشرے کی تہذیب وثقافت کا اظہار سب سے زیادہ اس معاشرے یا ملک کے ملبوسات سے ہی ہوتا ہے۔ پاکستان کا شماربھی ان خوش نصیب ملکوں میں ہوتا ہے جس کی ثقافت کے ان گنت رنگ دکھائی دیتے ہیں لہٰذا ایسی ثقافت کا امتزاج مشکل سے ہی کسی ملک و قوم کا مقدر ہوتا ہے ۔ 
دھنک کے صفحے پر جو تصویر شائع کی گئی ہے اس میں دکھایاگیا ہے کہ اٹک  کی خاتون چنگیر تیار کر رہی ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ غیر ملکیوں کے لئے چنگیر سے زیادہ اس کی تیاری کافی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ پاکستان اپنی ثقافت میں خود کفیل ہے۔ ہمارے وطن عزیز کا چپہ چپہ ایک نئے انداز سے اپنی تہذیب و ثقافت کو دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ یہاں ثقافتی ہنر موجود ہیں جو دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں لیکن حکومتی سطح پردیسی ہنرمندوں کی حوصلہ افزائی نہ ہونے کی وجہ سے ہم اسے بیرونی دنیا میں متعارف کرانے میں ناکام رہے ہیں۔ ہماری ثقافت کی چیزیں گھریلو صنعت کاری کا حصہ بنائی جا سکتی تھیں ۔ایسی ہی چھوٹی چھوٹی چیزیںتیار کر کے انہیں بیرونی ممالک برآمد کیا جا سکتا تھا او راس طرح زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا تھا لیکن یہ ہماری لاپروائی کہئے یا عاقبت نااندیشی کہ ہمارے صاحبان اختیار نے اپنے ہنرمندوں کو درخور ا عتناءہی نہیں جانا۔ انہوں نے گلی محلوں میں تیار کی جانے والی ان دستکاریوں میںپر کوئی توجہ نہیں دی۔ اس میں کسی دلچسپی کا اظہار بھی نہیں کیا۔ ہمارے وطن کے قصبات اور شہر، ہر جگہ ہنرمند موجود ہیں مگر کسی طور بھی ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی اور نہ ہی انہیں کسی قسم کی امداد دی گئی کہ جس سے وہ اپنے کام کاج کو بڑھاتے اور معاشرے سے غربت و ا فلاس کے اندھیروں کو دور کرنے میں حکومت کا ہاتھ بٹاتے ۔
آج چین کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ اس ملک کی گھریلو دستکاریاں دنیا بھر میں گھر گھر پہنچی ہوئی ہیں او رمختلف ممالک میں چین اپنا لوہا منوا چکا ہے۔ یہاں تک کہ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیزیں سب چین خود ہی تیار کر رہا ہے اور دنیا بھر میں چین کا ڈنکا بج رہا ہے ۔اس کے ذریعے چین کو بے پناہ زرمبادلہ حاصل ہو رہا ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ اپنے ہنرمندوں کی قدر کرے او رچین کی طرح دنیا میں منفرد مقام حاصل کرنے کے لئے اقدامات کرے کیونکہ ہمارے وطن عزیز میںکسی شے کی کمی نہیں، ہمارے ہاں ہنربھی ہے اور ہنرمندبھی پھر بھلا اغیار کے آگے دست سوال دراز کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ اپنے وطن میں موجود ”دستکارفنکار“لوگوںکی قدر کرے اور ان کی کاروباری اعانت کے لئے فنڈ قائم کرے تاکہ یہ سادہ لوح صاحبانِ کمال جو آج مفلسی سے بد حال ہیں وہ نہ صرف خود باعزت انداز میں روزگار کما سکیں بلکہ ملکی ترقی و خوشحالی میں اپنا حصہ بھی ڈال سکیں۔ 
 

شیئر: