Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ نمازپڑھتے ہیں مگر حق ادا نہیں کرتے!

 نمازیں پڑھتے پڑھتے لوگوں کی عمریں گزرجاتی ہیںلیکن غور کیاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ انکی نمازیں اس انداز کی نہیں جیسی پیغمبر اعظم نے سکھائی تھی

 

* * * *رضی الدین سید ۔ کراچی* * *
 بات عجیب ضرور ہے ، بری لگتی ہے۔یہ کہ ’’ بے شمار لوگ نمازیں پڑھتے ہیں لیکن نہیں پڑھتے‘‘۔ 70فیصد حقیقت تو ایسی ہی ہے۔ نمازیں پڑھتے پڑھتے لوگوں کی عمریں گزرجاتی ہیں،ماتھے اور ٹخنوں پر ٹیکے پڑ جاتے ہیں لیکن درست نمازیں انہیں آخرعمر تک پڑھنی نہیں آتی۔ صبح سے رات تک وہ پنج وقتہ رکوع و سجود میں وقت گزارتے ہیں ،باقاعدہ مسجدوں میں جاتے ہیں، شرعی داڑھیاں رکھتے ہیں اورٹخنوں سے اوپر پائینچے رکھتے ہیں، لیکن غور کیاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی نمازیں اس انداز کی نہیں جیسی پیغمبر اعظم نے سکھائی تھی ۔وہ بس ان کے اپنے مطلب ہی کی ہیں !۔ویسی نہیں جیسی ہونی چاہئیں۔
    کسی کی نما ز کے رکوع و سجود غلط ہوتے ہیں، ادھورے،اور تیز !،نماز انہیں بہت بھاری لگتی ہے ،جلد سے جلد جان چھڑانا چاہتے ہیں۔کسی دوسرے کو دیکھئے تو لگے گا کہ اس کی نگاہ نماز میں مسلسل اوپر نیچے دیکھنے میں مگن ہے،شاید وہ کسی وحی کا انتظا ر کررہی ہے!۔ کسی کی نماز لگاتار ہلنے جلنے اور جسم کھجانے ہی میں گزرجا تی ہے ،کسی پل قرار ہی نہیں آتا۔ کسی اورکو بلا وجہ ہی کھانسی کی عادت ہوتی ہے ، سمجھتے ہیں کہ کھا نسے بغیر نما ز ادا نہیں ہوتی حالانکہ اگر کھانسی نہ بھی کی جائے، یا بہت ہلکے سے کی جائے’’ تب بھی نماز ادا ہوجاتی ہے‘‘۔ کسی کے کپڑے دیکھو تو حد سے زیادہ گندے نظر آتے ہیں۔لوگ صفائی کے احساس سے باہر ہوچکے ہوتے ہیں۔ خیال ہی نہیں رکھتے ،سوچتے ہی نہیں کہ یہاںاور بھی بہت سارے لوگ جمع ہیں ،توکچھ انہی کا لحاظ کرلیا جائے ،شرمالیا جائے !۔کسی کی پینٹیں کم کمر والی رائج الوقت ہیں جو بے خوف پہنے وہ مسجد چلا آتاہے ۔پتہ ہی نہیں ہوتا کہ سجدے میں پیچھے کمر بہت نیچے تک کھل گئی ہے اور سترکافی نمایاں ہوگیا ہے چنانچہ کپڑے جیسے بھی ہوں ،بلاسے!نماز تو ہوہی جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ کے دربار کی عظمت اورحقوق العباد کی اہمیت کا خیال کسے ہے ؟اس قماش کے نمازی چھوٹی عمر والے تو چھوڑیں ،بڑی عمر والے بھی خال خال مل جاتے ہیں۔ کوئی شخص ہے جوجماعت میں کسی کواپنے بالکل ساتھ ملانے سے کنی کترا تا ہے ،دو ررہنا چاہتا ہے ۔کوئی صاحب ہیں جنہوں نے امام سے پہلے ہی رکوع وسجود میں جانے کی عادت اپنا لی ہے ، امام کا پابند ہونا وہ لازمی نہیں گردانتے۔ کوئی شخص جماعت کے درمیان رہ کر بھی اکیلے نماز پڑھ لینے پر مطمئن رہتاہے،سمجھتا ہے کہ نماز تو اس کی باجماعت ادا ہو ہی گئی! کوئی محض جماعت کی نما ز ہی کو اپنی کُل نماز جانتا ہے اور کہتا ہے کہ نماز تو محض فرض رکعات کی اد ائیگی کانام ہے چنانچہ ادھر امام صاحب نے سلام پھیرا اور اُدھر و ہ رفو چکر ہوئے ۔ 
    اکثر لوگ ہوتے ہیں کہ انہیں اختتام پر پتہ ہی نہیں ہوتا کہ امام صاحب نے ابھی کون کون سی سورتیں نماز میں قرأت کی تھیں؟،بس اپنی دنیا میں آخر تک گم!اِدھر وہ جماعت میں (یا تنہا نماز کے اندر) ہوتے ہیں ،اور اُدھر باہر کسی اور ہی دنیا میں نکلے ہوتے ہیں۔ حساب کتاب میں غرق !کوئی دیگر ہے جوجماعت میں اول وقت میں شامل ہونے کی بجائے تاخیر سے بھاگا بھا گا چلا آتاہے ،لوگ سمجھتے ہیں کہ ’’اف یہ کس قدر گہرا نمازی ہے!‘‘۔یہی نہیں ،تاخیر سے آنااس کا ہر نمازکا معمول بھی ہے۔کبھی وہ اس بارے میں سوچتا ہی نہیں! ہر جما عت نمازمیں پیچھے مڑکر دیکھیں تو پتہ لگتا ہے کہ سلام کے بعد کم ازکم 2صفیں تو ضرور ہی بقیہ رکعتوں کیلئے کھڑی ہوگئی ہیں۔جلدی آتے ،وقت سے قبل وارد ہوتے تو کاہے کو یہ صفیں کھڑی ہوتیں؟کوئی اور فردہے جو کہتا ہے کہ باجماعت نمازادا کرنا ہر لحاط سے ضروری نہیں ۔حیلہ گڑھتا ہے کہ اسکے گھر اذان کی آواز ہی نہیں آتی اور جب آواز ہی نہیں آتی تو مسجد تک جانا بھی اس پر لازم نہیں (راقم نے یہ حیلہ اپنے کانو ں سے خود سنا ہے)۔ کوئی صاحب ہیں جومرضی کی باجماعت نماز پڑھتے ہیں۔ مرضی ہو ،دل چاہے، تو چلے گئے اوردل نہ چاہے تو گھر ہی پر ادا کر لی ۔مقصد نماز ادا کرنا ہے اور اگر کبھی اس طرح ان سے نماز غائب ہوجائے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔
    کسی کو آخر عمرتک نماز کی ضروری سورتیں بھی یاد نہیں ہوتیں ،بس گنی چنی سورتوں ہی پر تمام نمازیں ادا کرلیتے ہیں!وہی ان کی تمام عمر کی نمازوں کیلئے کافی ہیں۔پھر تلفظ کے لحاظ سے وہ بھی غلط سلط! زندگی بیت جاتی ہے لیکن نماز و زکاۃ کے جوکئی مسائل ہیں ان سے بے خبر رہتے ہیں ۔کسی نے عموماًتوتمام عمر مسجد میں نمازیں پڑھی ہوتی ہیں لیکن افسو س ناک طور پر کبھی سوچ ہی پیدا نہیں ہوئی کہ لائو کوئی ایک آدھ پارہ یا چند مزید سورتیں قرآن کی بھی زبانی یاد کرلیں،آخرت کو مزید پکا کرلیں۔ جان سے گئے تو بس وہی10 بارہ سورتیں لے کر روانہ ہوئے!۔   
    اورپھر وہ وضو؟… اس کا بھی ایک ہی حال ہے۔ پانی بہتا رہتا ہے ، ٹونٹیاں کھلی رہتی ہیں۔ کوئی احساس ہی دامنگیرنہیں ہوتا کہ پانی کے زیاں پر نبی نے گناہ کے وبال سے کس قدر آگاہ کیاہے ؟جماعت نکل رہی ہوتی ہے اور کسی کا وضو ہی ختم نہیں ہونے پاتا۔ مسواک ایک بہت افضل سنت ہے لیکن فرض تو پھر فرض ہے ۔مسواک فرض سے بڑھ کر تو نہیں ہوسکتی۔نمازنکل جائے تو نکل جائے ،مگر مسواک نہ نکلے ۔’’الا ہَم فالا َہم‘‘ کے معنی بھی ستر ، اسی  فیصد بزرگ نمازیوں کو معلوم نہ ہوںگے۔   
      ادھر جمعے کی نماز کا حال بھی یہی ہے۔ جماعت کھڑی ہونے سے چند لمحوں پہلے تک بھی نمازی صفوں میں نظر نہیں آتے۔بس ایک ڈیڑھ صف ہی بھری ہوئی دکھائی دیتی ہے۔جمعے کے سید الایام ہونے کا احساس دلوں میں باقی ہی نہیں رہا۔پھر ادھر امام نے جماعت ختم کی اور ادھر آدھی مسجد خالی ہوکر باہر خریداری میں جُت گئی۔افسوس ناک طور پر یہی احوال حرمین شریفین میں بھی جمعے کی نمازوں کا دیکھا جاتا ہے۔زائرین دیر سے آتے ہیں،کچھ بھی احساس نہیں کرتے کہ کہاں سے کتنی مشکلات انگیز کرکے وہ یہاں تک پہنچے ہیں، اوریہ کہ آج کا دن کتنا اہم ہے؟۔ خریداری اور سونا،بس جیسے یہی دو کام ان کی ترجیح ہیں۔  
    آخر میں عیدین کی نفلیں/  سنتیں ! سو اس میں بھی لوگ کمال کرتے ہیں؟ وہی سستی ،وہی تاخیر، وہی وقتِ آخر کی بھاگ دوڑ!۔گھر والوں سے نماز کے اوقات معلوم کرو توکہتے ہیں کہ بابا ،یا ’’وہ ‘‘مسجد گئے ہیں ،ابھی آئے نہیں لیکن کسی کو کیا پتہ کہ بابا،یا ’’وہ ‘‘وہاں کیسی نماز یںادا کرکے آئے ہیں؟۔ ویسی نہیں جیسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کرنے کی تاکید کی تھی ۔
    یہ سارے احوال ہم نے زیادہ تر بزرگ نمازیوں کے بیان کئے ہیں،و ہ جن کی زندگی نمازیں ادا کرتے کرتے گزر گئی لیکن ان کی نمازیں نہ سدھر سکیں۔ چنانچہ تمام معاملات و احوال کو دیکھ کر یہ حکم لگانا بھلاکیسے صحیح نہ ہوگاکہ’’ وہ مسجدمیں تو آتے ہیں لیکن نہیں آتے ،وہ نمازیں تو پڑھتے ہیں لیکن نہیں پڑھتے‘‘ !۔
مزید پڑھیں:------دعوتِ دین کی ضرورت اوراس کا بہتر طریقہ

شیئر: