Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یونیسیف کی رپورٹ پر پاکستان میں تشویش

 حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کیا جائے ، سندھ حکومت فنڈنگ پر توجہ دے تو زیادہ مثبت نتائج نکالے جاسکتے ہیں
صلاح الدین حیدر ۔بیورو چیف ۔۔ کراچی
جس ملک کا وزیر خزانہ ماہر معاشیات نہیں وہاں اکثر و بیشتر سڑکیں، پل اور تعمیراتی ترجیحات پر توجہ زیادہ ہوتی ہے۔ انتہائی ضروری سوشل سیکٹر یعنی تعلیم اور صحت کے شعبوں کو ثانو ی حیثیت دی جاتی ہے،جو کہ سرے سے ہی غلط ہے ۔ہمارے ملک میں تو ےہ بھی دےکھا گیا ہے صحت اور تعلیم کو یکسر نظر انداز کردیا جاتاہے، حکمران طبقہ انہی چیزوں پر نظر رکھتا ہے جو کہ زیر تکمیل کے مراحل یا تکمیل ہونے کے بعد لوگوں کو نظر آئےں اور اُن کی واہ واہ ہوجائے۔پاکستان میں اگر کسی کو کریڈٹ جاتاہے اسپتال اور تعلیم کی طرف توجہ دینے پر تو وہ صرف پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف ہیں جنہوں نے کینسر اسپتال کی بنیاد ڈال کر اےک نیک کام کیا ہے۔عمران خان نے فلاحی منصوبوں کی بنیاد ڈالی تھی۔لاہور کا شوکت خانم ہسپتال ، پشاور میں اسی طرح کا دوسرا اور اب کراچی میں بھی تیسرا شوکت خانم ہاسپٹل زیر تعمیر ہے، لےکن افسوس مخالفین اندھے پن میں اس کی تعریف نہیں کرتے۔ پچھلے کئی سالوں سے سند ھ کے تھر صحرا میں ادویہ اور خوراک کی کمی کی وجہ سے سیکڑوں نومولود پیدا ہونے کے چندماہ بعد اور زیادہ سے زیادہ ایک سال بعد موت کی آغوش میں چلے گئے۔ےہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ چند سر پھرے ڈاکٹروں نے جس میں مشہور زمانہ ڈاکٹر غفار بلّواور ان کے شاگرد ڈاکٹر نند لال نے جو بچوں کے ماہر ڈاکٹر ہیں آج کل علاج معالجے کا بیڑا اٹھایا ۔ گاﺅں ، گاﺅں قریہ قریہ گئے۔حاملہ عورتوںکیلئے تربیتی ورکشاپ بھی کئے۔ انہیں بتایا کہ دوران زچگی کس قسم کی احتیاط کی ضرورت ہے تاکہ خود ان کی جان اور نئی زندگی لینے والے بچے کی جان اور صحت محفوظ رکھی جاسکے۔کچھ کامیابی تو ہوئی ہے، لےکن جہاں سرکار صرف رشوت اور کمیشن کھانے میں دلچسپی رکھتی ہو، وہاں مالی ذرائع کا رونا اوّل دن سے شروع ہوجاتاہے۔ اقوام متحدہ کے دنیا بھر میں کام کرنے والے ادارے یونیسیف کی اس حالیہ رپورٹ کے بارے میں پاکستان میں تشویش پائی جاتی ہے۔ رپورٹ نے دنیا بھر میں پاکستان کورسک سے بھرپور ملک قرار دیا ہے۔رپورٹ کے مطابق2016ءمیں ہر 1000پیدا ہونے والے بچوں میں پہلے ہی مہینے 46لقمہ اجل بن گئے۔ہر 22پیدا ہونے والے بچے میں اےک فوت ہوجاتاہے۔ ڈاکٹر کوشش تو کرتے ہیں لےکن جب خوراک اور صاف پانی کی کمی ہو اور غلاظت اور صفائی ستھرائی کیجانب توجہ نہ ہو تو لاکھ کوشش کر لیں۔نتیجہ مثبت آنے سے رہا۔ رپورٹ میں یونیسیف نے بتایا ہے کہ 80فیصد نومولود موت کے منہ میں جانے سے بچائے جاسکتے ہیں اگر حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کیا جائے۔ ریکارڈ پر نظر ڈالی جائے تو 1990ءسے لے کر 2016ءتک اموات کی شرح 62فیصدکم ہوئی ہے۔ ےہ اس بات کی غمازی ہے کہ اگر سندھ حکومت فنڈنگ پر توجہ دے تو زیادہ مثبت نتائج نکالے جاسکتے ہیں۔شرو ع میں تو ےہ تعداد پریشان کن تھی۔ 22لاکھ نئے پےدا ہونے والے بچے پہلے مہینے ہی زندگی کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔26لاکھ زندہ پےدا ہی نہیں ہوتے۔ اس معاملے پر بہت زیادہ شور مچا پاکستان میں،لےکن ےہاں تو وہی مثل صادق آتی ہے کہ نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ دےکھیں شاید مستقبل میں کچھ بھلائی ہوجائے۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: