Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امن فارمولہ ....جس کا ہمیں انتظار ہے

جمعرات 22فروری 2018ءکو سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ” الریاض “ کا اداریہ

  امریکہ کی جانب سے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعدمسئلہ فلسطین پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہونے والی بحث نے مختلف موڑ اختیار کرلیا۔سلامتی کونسل کی بحث نے نئے امریکی امن منصوبے سے پردہ اٹھایا ہے۔ فلسطینی ، امریکہ کو واحد ثالث کے طور پرتسلیم کرنے سے انکار کررہے ہیں کیونکہ وہ امریکہ کو غیر جانبدار قرار دے رہے ہیں۔ ایسے عالم میں امریکی امن منصوبے کے نقوش بھی ابھی تک اجاگرنہیں ہوسکے ۔
القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی اقدام سے قبل مسئلہ فلسطین جس قدر پیچیدہ تھا اَب مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔امریکہ کاا قدام قیام امن کی راہ میں نئی رکاوٹ کے طور پر سامنے آیا ہے۔امریکہ نئے امن منصوبے کی باتیں کررہا ہے۔ یہ متعلقہ فریقوں کے درمیان حتمی ہم آہنگی پیدا کرنے والا حل ثابت نہیں ہوگا بلکہ اس پر بحث مباحثے کالامتناہی سلسلہ شروع ہوگا۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہم واقعات کی بابت اپنا فیصلہ انکے وقوع پذیر ہونے سے قبل لگا رہے ہوں۔ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ طویل تاریخ کے مطالعے کا نتیجہ ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اگرحل مطلوبہ تقاضوں پر مشتمل نہ ہوں تومتعلقہ فریق انہیں کسی بھی حالت میں قبول نہیں کرتے۔ فلسطینیوں نے مبنی بر انصاف جامع امن کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اسرائیل نے ایسا کچھ نہیں کیا۔
اگر اسرائیل فلسطین میں قیام امن کے سلسلے میں سنجیدہ ہوتا تو وہ 16بر س قبل ہی اس عرب امن فارمولے کو قبول کرلیتا جو اپنی نوعیت کا پہلا تھا اور جملہ تفصیلات پر مشتمل تھا ۔ اسرائیل نے اسے صرف اس لئے مسترد کردیا کیونکہ وہ امن نہیں چاہتا۔ ہم امریکہ کے متوقع امن منصوبے کی بابت یہ نہیں کہتے کہ وہ ناکام ہوگا لیکن ہم امریکی امن منصوبے کی کامیابی کے سلسلے میں بہت زیادہ پرامید بھی نہیں۔ جب تک اسکے تمام نقوش سامنے نہیں آتے اس کی بابت ہم اپنے تحفظات ہی کا اظہار کرتے رہیں گے۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: