Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلائے جاں

***جاوید اقبال***
پاکستانی افواج کے کمانڈرانچیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے یورپ میں حالیہ خطاب نے میرے ذہن  میں افغان مہاجرین کے جلوزئی کیمپ کا منظر لا کھڑا کیا2008 ء کی بات ہے۔  میں پاکستان کے دورے پر گئے کچھ سعودی صحافیوں کے ہمراہ تھا۔  پروگرام میں افغان مہاجرین کے لیے قائم کئے گئے جلوزئی کیمپ کا دورہ بھی شامل تھا۔ جونہی ہم وہاں پہنچے درجنوں افغان بچوں نے ہمیں گھیر لیا۔  4 برس کی عمر سے 18 برس تک کے شلوار قمیض میں ملبوس چاک و چوبند بچے پرُ امید نگاہوں سے گھورتے ہمارے چاروں طرف ہجوم کر آئے۔  ہمیں ان سے بات چیت کا موقع ملا۔ سب کی پیدائش کیمپ میں ہی ہوئی تھی۔  اقوام متحدہ کے کمیشن برائے مہاجرین کے قائم کئے گئے مدرسے میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ اردو اور پشتو روانی سے بولتے تھے مگر مستقبل ابھی تک ان کے لیے پرچھائیں سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ انہی کی طرح لاکھوں افغان بچے پاکستان میں قائم کیمپوں میں پڑے تھے اور انہیں اور ان کے دیگر اقرباء کو دربدر کرنے والی دونوں سپر پاورز ان کے حال سے بے نیاز تھیں۔  ایک اپنی شکستگی کے الم میں مبتلا زخم چاٹ رہی تھی تو دوسری اپنی فتح کے نشے میں سرشار کرہ ارض کے کسی دوسرے مقام کو تاخت و تاراج کرنے کے لیے گھات میں تھی۔ 
اورآج اس جنگ میں سب سے زیادہ خسارہ برداشت کرنے والا پاکستان اپنے زیاں کا حساب کررہا تھا۔  دسمبر 1979ء میں کابل پر سوویت اتحاد کے حملے کے نتیجے  میں افغان مہاجرین کا سیلاب پشاور کی طرف بڑھا۔  میزبانی دینی فریضہ بھی تھا چنانچہ پشاور اور دوسرے شہروں کے نواحات میں ان بے گھروں کو بسانے کے لیے کیمپ قائم ہونے لگے۔  2011ء کے اواخر تک 40 لاکھ افغان پاکستان میں پناہ گزیں ہوچکے تھے۔  ان کی آمد اور قیام کو منظم کرنے کے لیے حکومت پاکستان نے ان کے نام رجسٹر کرنے کا فیصلہ کیا اور انہیں پاکستانی قومی شناختی کارڈ کی طرز پر پی او آر کارڈ کے اجراء کا آغاز کیا۔  پروف آف رجسٹریشن نامی اس دستاویز پر واضح الفاظ میں افغان شہری کے الفاظ تحریر ہوتے تھے۔  ستمبر 2001ء میں نیویارک کے ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملوں نے کابل پر امریکی حملے کی راہ ہموار کردی۔  چنانچہ افغانوں کو ایک اور دریائے خون عبور کرنا پڑا۔  پشاور کا سکون بحال نہ ہوا۔ مہاجرین کی واپسی التواء کا شکار ہوگئی۔  فروری 2017ء میں اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین نے مطلع کیا کہ تقریبا 13 لاکھ رجسٹرشدہ افغان مہاجرین ابھی تک مختلف کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے 81 فیصد خیبر پختو نخوا میں، 10 فیصد پنجاب میں، 8 فیصد بلوچستان میں اور ایک فیصد سندھ میں ہیں۔  یہ بنیادی طور پر افغانستان کے پشتون ہیں جبکہ تاجک ، ہزارہ ، ازبک ،بلوچ اور ترکمان بھی تھوڑی تعداد میں موجود ہیں۔  ان مہاجرین کو رہائش اور دیگر سہولیات حکومت پاکستان کی طرف سے ملتی ہیں جن کے لیے اسے سالانہ 133 ملین ڈالر دیئے جاتے ہیں۔  سادہ الفاظ میں پاکستان کو اس میزبانی کے عوض فی مہاجر 78 ڈالر سالانہ ملتے ہیں۔  فی کس تقریبا 650 روپے ماہانہ!رجسٹر کئے گئے مہاجرین کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنے لیے روزگار تلاش کریں۔  مکانات کرائے پر حاصل کریں ، ملک کے اندر جہاں چاہیں سفر کریں اور پاکستانی مدارس اور دیگر تعلیمی اداروں میںتعلیم حاصل کریں۔ آج اوسطاً ہر سال 6,500 ہزار افغانی پاکستانی جامعات میں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔  افغانی مہاجرین کی بروقت واپسی نہ ہونے سے ہمارا معاشرہ تباہ کن صورتحال سے دوچار ہوچکا ہے۔ صاحب استطاعت افغان مہاجرین نے پاکستان کے ذرائع نقل و حمل پر تقریبا قبضہ کرلیا ہے۔ کراچی سے پشاور اور پھر آگے جلال آباد یا کابل تک درآمد شدہ مال پہنچانے کے لیے افغان گاڑیوں کے قافلے ہر دم رواں دواں رہتے ہیں۔ پاکستان کی پرُآسائش زندگی ترک نہ کرنے کے لیے ہمارے یہ معزز مہمان ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہوتے ہیںاور ہمارا قومی شناختی کارڈ حاصل کرنے کے لیے افغان مہاجر ڈیڑھ سے 2 لاکھ روپے تک بھی ادا کرتا ہے۔ ایک پاکستانی سیاستداں نے حالیہ دنوں میں کہا ہے کہ یہ افغانی اب پاکستان میں اپنے قانونی قیام کی مدت پوری کرچکے ہیں۔ یہ اب ہمارے شہروں میں پھیل گئے اور ہم سے ہمارے روزگار چھین رہے ہیں۔ 
افغانیوں نے میزبان ملک کو بدلے  میں کئی قباحتوں کا تحفہ دیا ہے۔ افیون ، حشیش ، ہیروئن ، قیمتی پتھروں ، لکڑی ، تانبے ، گاڑیوں اور الیکٹرانک سامان کی اسمگلنگ جڑ پکڑ چکی ہے۔ پاکستان کو اقتصادی طور پر اربوں ڈالر کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جنیوا کنونشن کے تحت اپنا سمندر نہ رکھنے والے ملک کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنی درآمدات کے لیے پڑوسی ملک کے ذرائع مواصلات استعمال کرے۔  افغانستان کی بغیر کسٹم ڈیوٹی درآمد کی گئی اشیاء کابل تک رسائی حاصل کرنے سے پہلے ہی واپس پشاور اور باڑہ پہنچ جاتی ہیں اور ہمارے کسٹم کے اہلکار خاموشی سے تماشہ دیکھتے ہیں۔ 
جنرل قمر جاوید باجوہ نے اصرار کیا ہے کہ افغان مہاجرین کی ان کے آبائی ملک کو واپسی کا عمل تیز کیا جائے۔  بہت مناسب اور بروقت مطالبہ ہے۔ اس کی وجوہ تو متعدد ہیں لیکن ایک وجہ جسے ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کچھ یوں ہے۔ مہاجر کیمپوں میں گریڈ 1 سے گریڈ 6 تک کے افغان بچوں کو انگریزی زبان سکھانے کیلئے جو کتب استعمال کی جارہی ہیں ان کے ہر صفحے پر افغانستان کے پرچم کی تصویر ہے اور ہندوستان کو افغانستان کا دوست تحریر کیا گیا ہے۔ واقفیت عامہ کی کتاب میں گلگت،  بلتستان اور سارے کشمیر کو ہندوستان کا حصہ دکھایا گیاہے۔ پاک افغان سرحد کو ڈیورنڈ لائن لکھا گیا ہے۔ یہ نصاب اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین کے زیر نگرانی تیار کیا گیا ہے اور یہ اس تنظیم کے زیر نگرانی چلنے والے 101 مدارس میں پڑھایا جارہا ہے۔  جب خیبر ختو نخوا کی حکومت نے اقوام متحدہ کے اس ادارے کو احتجاجی مراسلہ ارسال کیا اور اس نصاب کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تو جواب ملا کہ افغانستان میں پڑھائے جانے والے نصاب کے مطابق یہ کتب تیار کی گئی ہیں تاکہ جب یہ مہاجر بچے واپس اپنے ملک جائیں تو انہیں وہاں کے تعلیمی اداروں میں زیر استعمال کتب اجنبی نہ لگیں۔ 
وطن عزیز میں افغان مہاجرین کے لیے قائم ایک سو کے قریب مدارس میں نوخیز ذہنوں کو پڑھایا جارہا ہے کہ ایک ڈیورنڈ لائن ہے، سارے کا سارا کشمیر ، ہندوستان ہے اور افغانستان کا اکلوتا دوست ہندوستان ہے تو پھر ہم ابھی تک بلائے جان بنے اس بن بلائے مہمان کو کیوں جپھا مارے بیٹھے ہیں؟
 

شیئر: