Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عدلیہ اور احتسابی ادارے تحفظ کے لئے تیار

***صلاح الدین حیدر۔ کراچی***
ہمیں تو پہلے ہی سے قوی امید تھی کہ عدلیہ اور احتسابی ادارے اپنے اوپر آنچ نہیں آنے دیں گے، یہی ہوا 24 گھنٹے سے پہلے ہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے عدلیہ کے وقار پر اٹھنے والے ہاتھوں کو یاد دلا دیا کہ آئین کے تحت انہیں پورا اختیار ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے غیر آئینی اقدامات جس میں قانون سازی بھی شامل ہے، کا بغور جائزہ لیں اور کہیں غلطی نظر آئے تو پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کو رد کردیں، رد ی کی ٹوکری میں پھینک دیں۔ ایک طرف تو چیف جسٹس ثاقب نثارکی بہت کھلے الفاظ میں وضاحت سامنے آگئی تو دوسری طرف سے احتسابی اداروں نے اپنا دائرہ کار مزید بڑھا دیا۔اکثر تنقید ہوتی تھی کہ عدلیہ اور احتساب کمیشن صرف سیاستدانوں کو ہی ہدف تنقید بناتا ہے، لیکن کئی ایک معروف شخصیات، فو ج میں جرنیلوں اور دوسری کئی مقتدر طبقات پر ہاتھ ڈالنے سے گریز اں ہے  تو آخر اس کے جواب سے قوم کو علم ہوہی گیا۔ ن لیگ کے فیصلے کے بعد پارلیمنٹ میں ججوں کے کردار پر بحث کی جائے۔چیف جسٹس نے غیر مبہم الفاظ میں فرما دیا کہ انہوںنے ہمیشہ ہی پارلیمنٹ کو سپریم مانا ہے، اُسے قانون سازی اور دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کا حق بھی حاصل ہے لیکن آئین کے آرٹیکل 68کے تحت ججوں کا کردا ر پارلیمنٹ میں زیر بحث نہیں لایا جاسکتا۔ پابندیاں اور قیود بہت واضح ہیں۔مطلب صا ف ظاہر ہے سپریم کورٹ کو معلوم ہوگیا کہ اس کی خاموشی سمجھ کر اس کی اقدار اور آئین میں دئیے گئے تحفظ کو پامال کرنے کی سازش شروع ہوگئی ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تو پارلیمنٹری ارکان جس میںحزب اختلاف بھی شامل تھی سے’’  بپتسمہ‘‘ رکھنے کی درخواست کرتے ہوئے ججوں کے بارے میں قرار داد پاس کرنے کی استدعا کی تھی لیکن نہ صرف اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے اسے یکسر ردکردیا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ قانون میں پائے جانے والی کمیوں کو دور کرنے کیلئے اگر حزب اقتدار کی طرف سے کوئی قدم اٹھایا گیا تو وہ اس پر سوچ بچار کرسکتے ہیں۔بہت سی دوسری سیاسی جماعتوں نے جن کی پارلیمنٹ میں نمائندگی  ہے،  خاقان عباسی کی تجویز پر خاموش ہی رہنے میں بہتری سمجھی۔دوسرے الفاظ میں وہ حکمران ن لیگ کی حمایت سے اپنے آپ کو دور کھنا چاہتے تھے، یہی بات بہت واضح تھی ۔ چیف جسٹس کا تفصیلی بیان ایک تقریب میں آیالیکن پارلیمنٹ کے بلائے گئے اجلاس کے 24 گھنٹے کے اندر ہی انہوںنے عدالت ِ عالیہ اور عدالت عظمیٰ جو آئین کی رکھوالی ہوتی ہیں  اور عوام الناس کو انصاف دلانے میں ہر اوّل دستے کا کردار ادا کرتی ہیں،انہوںنے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ بے شک پارلیمنٹ سپریم ہے لیکن ملک کا آئین پارلیمنٹ سے بھی زیادہ سپریم ہے۔طاقت کا سرچشمہ اور انصاف کے ترازو کے دونوںپلڑے کو ہم پلہ رکھنے میں اس کا کردار حرف آخر ہوگا۔
انہوںنے یہی بات  واضح کردی کہ سپریم کورٹ نے کبھی بھی انتظامیہ کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کی تاوقتیکہ انتظامیہ قانونی حدود سے باہر پیر پھیلانے کی کوشش نہ کرے۔اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا ۔دوسری بات انہوںنے یہ بھی عوام اور پارلیمنٹرین کے گوشِ گزار کردی کہ پارلیمنٹ بلا شبہ آئین سازی پر اختیار رکھتی ہے عدالت عظمیٰ کو بھی آئین نے یہ اختیار دیا کہ وہ کوئی بھی ایسی قانون جو پارلیمنٹ سے پاس کیا جائے لیکن کوئی آئین کی کسی بھی شق سے متصادم ہو تو وہ اسے ردّ کرسکتی ہے ۔ ایسی ہی کچھ صورتحال حقوق انسانی سے ٹکرائو کے خلاف ہونے کے بار ے میں بھی ہے۔ 
انہوںنے یہ بات بھی واضح کردی کہ آئین کے تحت سپریم کورٹ کو کچھ اختیارات حاصل ہیں،اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ،عدالت نے کبھی بھی اپنی حدود سے تجاوز نہیں کیا ، ہمیشہ آئین اور قانونی حدود میں رہ کر  اپنی ذمہ داریاں بہت اچھی طرح سے سمجھ بوجھ کر فیصلے دئیے اور اگر کبھی کوئی فیصلہ انسانی کمزوری کی وجہ سے کمزور پایا گیا، تو لارجر بنچ بنا کر ان کی تصحیح بالآخر کر دی گئی۔ان کے وضاحتی بیان سے صاف ظاہر ہے تھا کہ انہیں پارلیمنٹ کا اجلاس جو ججوں کی کردار کشی کیلئے بلایا گیا تھا، گراں گزرا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کے معاملا ت دخل در اندازی ہوئی جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا۔ انسانی تہذیب و تمدن اور ان کے اصولوں پر چلنے والے مماملک اس بات کو نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ عمل پیرا بھی رہتے ہیں۔انصاف اور قانون کا بول بالا ہے تو  وہ معاشرے کو صحیح ڈگر پر رکھتا ہے  ورنہ تو خلفشار ہوگا، انصاف دینے والے ادارے کی اگر ہنسی اڑائی جائے گی تو پھر باقی کیا بچے گا،صرف خلفشار اور جہاں یہ دونوں باتیں ہوں، وہاں ملکی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ کاش نواز شریف ، مریم  نواز  اور ان کے بنائے ہوئے وزیر اعظم جو کہ اپنے آپ کو خود ہی وزیراعظم تسلیم نہیں کرتے بلکہ ہر بات کیلئے نواز شریف کی طرف دیکھتے ہیں،  انتظامیہ کیا چلائیں گے؟اگر پنجاب کے وزیر قانون ، رانا ثنا اللہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انتظامیہ مفلوج ہوجائے تو صحیح کہتے ہیں، لیکن ان کا بیان عمران خان اور پارلیمنٹ کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے، جو کہ سرے سے ہی نا قابل قبول ہے۔انتظامیہ مفلوج اسلئے ہے کہ نون لیگ اور اس کے قائد نواز شریف اور بیٹی مریم نے جگہ جگہ چیف جسٹس ، عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کیخلاف زہر اُگلنا شروع کردیا ہے جو کہ قابل گرفت ہے۔ اگر کسی وجہ سے سپریم کورٹ خاموش ہے ، یا تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کررہی ہے تو وہ بات سندھ ہائی کورٹ کے سابق سربراہ جسٹس شائق عثمانی نے صاف طور پر سمجھا دی کہ سپریم کورٹ چاہے تو فوراً ہی باپ بیٹی کی گرفتاری کا حکم دے سکتی ہے لیکن توہین عدالت کی6مہینے کی سزا کس کام کی؟یہی تو طریقہ سابق وزیر اعظم اور اہل خانہ نے اپنایا ہے کہ انہیں جلد سے جلدتوہین عدالت کی سزا ہوجائے اور چند ماہ بعد دودھ سے دھلے پھر سے پاک صاف ہو سیاست کی دکان چمکا سکیں لیکن سپریم کورٹ کے سامنے ایک جامعہ منصوبہ ہے ۔انہوں نے پانامہ لیکس کیس کی سماعت کے دوران بہت سارے سوالات نواز ، مریم ، حسن، اور حسین سے پوچھے، داماد کیپٹن صفدر، اور بیٹوں ، حسن اور حسین سے پوچھے یہاں تک کے وزیرخزانہ اسحاق ڈار تک سے پوچھا کہ ان کے اثاثے حکومت میں آنے کے بعد 91فیصد کس طرح بڑ ھ گئے،جواب ندار، تو پھر ظاہر ہے کہ سپریم کور ٹ ٹرائل کورٹ نہیں ہوتی۔ اس نے JITبنا دی جس میں افواجِ پاکستان کے نمائندوں کو بھی شامل کیا گیا۔ اس نے 4 واضح الزامات کی فہرست سپریم کورٹ کے سامنے پیش کردی ہے، جب تک یہ کالم چھپے گا اس سے پہلے ہی FIAکے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا ء اپنا بیان ریکارڈ کے ساتھ سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرچکے ہوں گے۔ اسحاق ڈار کے خلاف بھی 2 گواہ پیش ہو چکے ہیں۔ ایک گواہ بچ جائے گا۔ اسکے بعد اگر دفاع میں نواز شریف ، اسحاق ڈار ، کیپٹن صفدر یا مریم نے کوئی گواہ پیش نہیں کیا یا ان کے وکلا ء کے دلائل سامنے نہیں آئے  یا کمزور ثابت ہوئے تو پھر سپریم کورٹ اپنا فیصلہ سنا دے گی  جو امید ہے کہ نواز شریف کو حوالات بھیج دے گا۔ سابق صدر پرویز مشرف کا خیال ہے کہ چونکہ نواز شریف دو  مرتبہ پنجاب کے چیف منسٹر اور3 دفعہ وزیراعظم رہ چکے ہیں  تو شاید جیل کی سلاخوں سے چھٹکارا مل جائے لیکن گھر میں نظر بند کردیا جائے، دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ 
احتساب کمیشن نے جس کی سربراہی سپریم کورٹ کے ایک سابق جج جناب جسٹس اقبال کررہے ہیں، عمران خان کے خلاف ایک خاتون وفاقی وزیر  اور 3 سابق جرنیلوں کے خلاف بھی مقدمات درج کرنے کا آرڈدے دیا، ان جرنیلوںپر الزام ہے کہ وہ جب ریلوے کے منسٹر تھے تو انہوںنے سیکڑوں ایکڑریلوے کی زمین کچھ اداروں اور لوگوں میں تقسیم کر دی جس کا انہیں اختیار نہیں تھا۔بحث کو سمیٹتے ہوئے یہ کہنا کافی ہوگا کہ ہم آج دوسراپاکستان دیکھ رہے ہیں، جہاں انصاف کا بول بالا ہونے والا ہے، کہاں تک کامیابی ہوگی؟ اس کاعلم صرف غیب کو ہے۔
 
 

شیئر: