Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی میں مہاجروں کا پرسان حال کون ؟

کراچی(صلاح الدین حیدر  )پچھلے کئی ہفتوں بلکہ2مہینوں سے جب سے متحدہ قومی موومنٹ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ہے۔ مہاجروں ےا اردو بولنے والوں میں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت ہے۔ آخر ہم مہاجروں کا کیا بنے گا،کون ہمارا پرسانِ حال ہوگا۔ےہ سوال اب گھر گھر پوچھا جارہاہے۔بچے بچے کی زبان پر ہے۔معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کوشش کی کہ مہاجروں کے مختلف نمائندگان کے نقطہ نظر سے واقفیت حاصل کی جائے کہ آخر وہ سارے معاملات کو کس طرح دےکھتے ہیں۔ مصطفی کمال جوپاک سر زمین پارٹی بنا نے کے باوجود کراچی اور اس کے حقوق کی باتیں کرتے تھکتے نظر نہیں آتے۔ انہوںنے تو کھلم کھلا مہاجروں کی حمایت کی اور انہیں دلاسہ بھی دیا کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ مصطفی کمال 5سال کراچی شہر کے میئر رہے،اور ترقیاتی پروگراموں کے سارے ریکارڈز توڑ دیئے۔ان کا جواب انتہائی ہمت افزاءتھا۔ایم کیو ایم حقیقی کے سربراہ آفاق احمدنے بھی مہاجرکاز کے لئے دامے درمے سخنے خود کو پیش کردیا، صاف طور پر کہہ دیا کہ ایک اگر فوج کے افسران جیسے کور کمانڈر اور ڈائرےکٹر جنرل رینجرز محمد سعید نے کہا ہے کہ وہ مہاجروں کی حمایت میں بات کرتے ہیں، دونوں ہی ایپکس کمیٹی کے اہم ممبران ہیں۔ جب ان سے ےہی سوال کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے مہاجروں کو اےک کونے میں دھکیل دیا ہے۔ سندھ میں 30/32سیکریٹریز ہیں۔اتنے ہی غالباً ڈی آئی جیزDigs،اور ایس ایس پیز ، اور ایس پیز ہیںلےکن سارے کے سارے سندھی۔ اردوبولنے والوں کو 40فیصد نوکریوں میں کوٹہ ہونے کے باوجودکونے سے لگادیا گیا ہے تو آفاق کا کہنا تھا کہ اگر افواج کے افسران ےہ بات ایپکس کمیٹی ،چیف منسٹر کے سامنے اٹھاتے ہیں تو انہیں چاہےے کہ ہمیں بھی ساتھ بٹھائیں تاکہ اعداد و شمار سے ثابت کرسکےں کہ مہاجرین کے ساتھ کس قدر ظلم و ستم ہورہاہے۔ہم بات تو کر سکیں اپنی، بغیر اعداد وشمار کے صرف برسبیل تذکرہ کردینا کافی نہیں،بلکہ ناکام کوشش ہے۔آفاق احمد بھلے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر اکےلے بیٹھے ہیں،ان کے پرانے ساتھی عامر خان کو آفاق کے ساتھ 8سال تک جیل کی کال کوٹھری میں گزارنے پڑے۔اب پچھلے کئی سالوں سے ایم کیو ایم پاکستان میں شامل ہوگئے لےکن ان میں اور ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار میں نہیں بنتی جس سے ایم کیو ایم پاکستان د ودھڑوں میں بٹ گئی۔اےک کا ہیڈ کوارٹر بہادرآباد ، اور دوسری کا پی آئی بی ہے ۔ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی سے رابطہ کرنے کی کوشش کرنے کے باوجود کامیابی نہ ہو سکی، لےکن ےہی کچھ فاروق ستار کا بھی رویہ تھا۔ کئی ٹیلی فون کیے، مسیجز بھی چھوڑے لےکن جواب ندار د تاہم اےک گھنٹے بعد خود انہوں نے فون کیا ۔آفاق احمد نے ےہ بھی کہا کہ ایم کیو ایم کے دونوں دھڑے بس اقتدار کی جنگ اورسیٹوں کے لےے نبرد آزما ہیں۔کوئی کراچی کے مسئلے پر بات نہیں کرتا۔ےہ افسوس ناک بات ہے، کاش انہیں عقل آجائے لیکن جب مصطفی کمال سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے دھڑلے سے اپنے خیالا ت کا اظہار کیا۔ انہیں بھی اس بات کا افسوس تھا کہ بجائے کراچی کے مسائل، پانی کی کمی، کچرا کنڈی، غلاظت جو اس شہر کے ماتھے کا جھومر بن گئی ہے۔ایم کیو ایم کے دونوں دھڑے پاور گیم میں مصروف عمل ہیں، یہ انتہائی افسوس کی بات ہے۔ انہوں نے مہاجر یا اردو بولنے والوں کو جن کی اکثریت کراچی، حیدرآباد، میر پور خاص،سکھر، میں 1947ء سے قیام پذیر ہے۔کھل کے یا د دلایا کہ ہم جہاں جاتے ہیں، کراچی کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ کراچی کو لاوارث سمجھنے والوں کو ےہ بات ذہن نشین کروا دی ہے کہ کراچی کے وارث ہم ہیں۔ جب تک زندگی ہے، دل دھڑکتا ہے، ہم کراچی کو لا چار نہیں چھوڑیں گے، اس کے لئے لڑیں گے اور ا س کے حقوق دلوا کر رہیں گے۔ آئندہ انتخابات میں صوبہ سندھ میں سوئپ کریں گے اور اپنی حکومت بنائیں گے ۔ کیا ےہ ممکن ہے، فی الحال تو مذاق نظر آتی ہے لےکن مصطفی کمال اےک باہمت انسان ہیں ۔ مےئر کی حیثیت سے انہوں نے کراچی کا نقشہ بدل دیا۔ کراچی کسی بھی یورپین شہر سے مقابلہ کرسکتا تھا۔ افسوس پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے 9سالہ دور ِ حکومت میں سب کچھ الٹا کردیا ۔سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔پانی کی کمی ہے۔ کچرا کنڈی سے سڑاند کی بو آتی ہے۔کراچی ایک پرانا دقیانوسی شہر نظر آتاہے۔ انہوں نے اس بات پر فخر کیا کہ شہباز شریف نے جو آج لاہور کے ہیرو ہیں اتنے ترقیاتی پروگرام کئے ہیں کہ لاہور بالکل جدید شہر نظر آتاہے۔انہوں نے مصطفی کمال کو دےکھ کر اپنی ٹیمیں کراچی بھیجی تھیںکہ دےکھ کر آﺅ کہ کراچی کیسے ترقی کی منزل طے کررہا ہے اور کیوں اتنا آگے بڑھ گیا ہے۔ ےہ تھی مصطفی کمال کی کامیابی کہ دوسرے بھی آپ سے متاثرتھے ۔کراچی میں مہاجروں کو نوکریوں میں بالکل پیچھے چھوڑ دیا گیا ۔کالجوں میں داخلے لسانی بنیادوں پر ہورہے ہیں، جس سے اردو بولنے والوں کی بے چینی میں اضافہ ہوگیا ہے۔نا امیدی کی کیفیت ہے۔ مصطفی کمال بھلاکب چپ رہنے والے تھے، فوراً ہی کہہ دیا کہ ایم کیو ایم کے دونوں دھڑے صرف پاور اور پیسے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔انہیں عام آدمی کی جو کہ ہر طرح سے متنفر نظر آرہاہے۔ کوئی پروا نہیں ، با ت تو صحےح ہے لےکن کوئی کرئے بھی تو کیا؟ فاروق ستار نے خود مجھے ٹےلی فون کیا اور بڑی وضاحت سے اپنا موقف بیان کیا کہ کس طرح ےہ ساری کہانی شروع ہوئی۔ ان کے مطابق 5فروری کو سب نے مل بیٹھ کر سینیٹ امیدواروں کا فیصلہ کرنا ہے لےکن اُس سے پہلے ہی بہادر آباد جو فاروق ستار کے مخالف دھڑے کا ہیڈ کوارٹر ہے،سے اعلان ہوگیا کہ ہم کامران ٹیسوری کو نہیں مانتے۔کامران تو ایشو تھا ہی نہیں، دراصل آپس میں اتفاق رائے ایشو تھا، جسے انہوں نے نظر انداز کردیا۔ مزید وضاحت سے یہ بات سمجھائی کہ مجھے دیوار سے لگادیا گیا، مجبوراً مجھے اپنے ورکرز سے مینڈیٹ لینا پڑا ۔میںنے الےکشن کروائے اور بھار ی اکثریت سے کامیاب ہوا ۔اب صورتحال ےہ ہے کہ میرے پاس 35ممبران اسمبلی ہیں، 3 3/ حصہ میرے پاس ہے۔ ان کے پاس اتنے ممبران اسمبلی نہیں ہیںکہ وہ سینیٹ کی اےک سے زیادہ سیٹ بھی جیت سکیں۔ نقصان تو ان کا ہورہاہے۔ا س کے باوجو دوہ لوگ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے بیٹھے ہیں۔ میرا عامر بھائی سے کوئی جھگڑا نہیں تھا، ہم دونوں بہترین ساتھی تھے، لےکن نہ جانے کس کے کہنے پر وہ بھی منحرف ہوگئے۔سوال کیا گیا کہ اصل مسئلہ آپ لوگوں کی لڑائی نہیں ہے، مسئلہ مہاجروں میں پھیلی ہوئی بے چینی ہے، کہ وہ کس طرف اپنے حقوق کے تحفظ کے لےے دےکھیں۔ فاروق ستار نے جواب دیا کہ میں نے تو فوراً ہی آصف زرداری سے جواب طلبی کی کہ وہ راﺅ انوار جیسے بدمعاش ، بدنام زمانہ پولیس والے کو بہادر بچہ کیسے کہہ سکتے ہیں۔انہیں پوری قوم سے معافی مانگنی پڑی، فکر کی بات نہیں ہے،مہاجرین میں بے چینی ضرور ہے، لےکن 2019 ءالےکشن میں ہماری کامیابی ہوئی تو بڑی حد تک ان کی شکایات اور تذبذب میں کمی ہوجائے گی۔میں نے کئی مرتبہ مہاجروں کے جلسوں سے خطاب کئے بڑے بڑے جلسے ہوئے۔لوگوں کا جوش و خروش قابل دید تھا، ہم اپنی کوشش میں لگے ہوئے ہیں لےکن میری راہ میں زبردستی روڑے اٹکائے جارہے ہیں جو کہ انتہائی نا مناسب ہے۔ مجھ میں انا کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، میں صرف اختیارات چاہتاہوں ۔ہر تنظیم ، ہر ادارے میں سربراہ کو کچھ اضافی اختیارات دئےے جاتے ہیں، مجھے بس وہ چاہےے پارٹی چلانے کے لےے۔ 2018کے الیکشن میں سرخرو ہونے کے لئے۔
مزید پڑھیں:ایم کیو ایم پاکستان کے جھگڑے کا ڈراپ سین
 

شیئر: