Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب اور امریکی سینیٹ

 یاسر الغسلان ۔ الوطن
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ سعودی سفارتکاروں کو امریکہ میں سیاسی اور ابلاغی مہم چلانے کی اشد ضرورت ہے۔ سعودی سفارتکاروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں موثر کردارادا کرنیوالے اداروں ، شخصیات اور تنظیموں کے رویے تبدیل کرنیوالی پالیسی اپنائیں۔ صرف اس بات پر انحصار نہ کریں کہ سعودی عرب کے تعلقات امریکہ کی انتظامیہ کے ساتھ اچھے ہیں، وہائٹ ہاﺅس ، امریکی وزارت دفاع اور وزارت خارجہ جیسے اداروں کے ساتھ رابطے بہتر اور مضبوط ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی امریکی تعلقات کی جڑیں گہری ہیں۔ دونوں کے مفادات مشترک ہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں ۔ دونوں کے رشتے دیرینہ ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ امریکہ کی پالیسی صرف مٹھی بھر افراد یا چند اداروں کی بدولت تشکیل نہیں پاتی بلکہ امریکہ کی پالیسی بنانے ، سنوارنے میں ریسرچ سینٹرز بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ کثیر جہتی پریشر گروپوں کے مفادات پورے کرنیوالی پالیسیوں کے نمائندہ پروگرام اور تجاویز ریسرچ سینٹرز پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ پریشر گروپ اپنے مفادات کو تجاویز کا روپ دیکر امریکی پارلیمنٹ کے سامنے قراردادوں کے مسودوں کی صورت میں پہنچواتے ہیں۔ ایوان نمائندگان سینیٹ سے اپنی قراردادیں منظور کرانے اور قانون کی شکل میں جاری کرانے کیلئے انہیں آگے بڑھا دیتے ہیں۔ ملک کا سربراہ ایک طرح سے مذکورہ فیصلوں پر عملدرآمد کرانے والے آلہ¿ کار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ امریکی صدر وہ سب کچھ کرتا ہے جسے امریکہ کی بھاری اکثریت طے کردیتی ہے۔ بسااوقات مخالف جہت میں بھی چلتا ہے۔ عام طور پر حکمراں جماعتوں کے درمیان سیاسی کشمکش اور مکالمے کی سبیل پیدا کرنے کیلئے اس قسم کے اقدامات ہوتے ہیں تاہم امریکی صدر جب بھی اکثریت کے رجحان کو تبدیل کرنے یا کالعدم کرنے کی کوئی کوشش کرتا ہے تو اس کی یہ کوشش ناکام ہی ہوجاتی ہے خاص طور پر اس صورت میں جبکہ صدر کی پارٹی کو اکثریت حاصل نہ ہو۔سینیٹ کے 100ممبران نے سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے امور کی بابت اکثریت کے موقف کو تبدیل کرالیا،اس میں ہمارے لئے ایک سبق ہے۔ امریکی سینیٹ میں 60ممبر ایسے ہیں جو سعودی عرب کے حوالے سے منفی سوچ اور موقف رکھتے ہیں۔ جب بھی امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعاون کا کوئی منصوبہ سامنے آتا ہے تو یہ ممبران اسے یا تو معطل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا سعودی عرب میں انسانی حقوق اور آزادی کے نام پر تنقید کے تیر برسانا شروع کردیتے ہیں۔ ان میں سے 34کا تعلق ڈیموکریٹک اور 25کا ری پبلکن پارٹی سے جبکہ ایک آزاد ممبر ہے۔ ان کے برخلاف مملکت کے تئیں مثبت رکھنے والے ممبران کی تعداد 34ہے۔ ان میں سے 11ڈیموکریٹک،22ری پبلکن پارٹی سے اور ایک آزاد ہے۔ 
کسی بھی پارٹی کو اپنا بنانے کیلئے سیاسی ، سفارتی اور ابلاغی جد و جہد کی معقولیت پر گفتگو ہوسکتی ہے تاہم یہ بات اپنی جگہ 100فیصد درست ہے کہ یہ ہدف بڑا مشکل ہے۔ خاص طور پر ایسی صورت میں جبکہ ہمیں یہ بات بھی معلوم ہوچکی ہے کہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور ابھی تک امریکہ کے داخلی امور کی بابت خود اپنی ری پبلکن پارٹی کی بھاری اکثریت کو اپنے حق میں کرنے میں ناکام رہی ہے۔ میری سوچ یہ ہے کہ ہمیں امریکی رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کیلئے عوامی سفارتکاری کا مشن بڑے پیمانے پر چلانا ہوگا۔وجہ یہ ہے کہ امریکی رائے عامہ مملکت کے تئیں منفی ہی ہے جبکہ یہی اپنی ترجمانی کیلئے نمائندے چن کر ایوان بھیجتے ہیں۔
امریکہ کی 19ریاستیں ایسی ہیں جہاں مملکت کے حوالے سے ری پبلکن اور ڈیمو کریٹک پارٹیوں کے ووٹرز منفی سوچ رکھتے ہیں۔ ہمیں عوامی سفارتکاری کی مہم انہی ریاستوں سے شرو ع کرنی چاہئے۔ ان ریاستوں میں مملکت کے تمدن و تہذیب کا تعارف کرانے والے پروگرام کرنے چاہئیں۔ سول سوسائٹی کے اداروں، جامعات کے طلبہ، اسپورٹس کلب ، تھیٹرز اور عیسائی و مسلم عبادت گھروں میں یہ کام انجام دینا ہوگا۔ 
امریکہ میںسعودی عرب کے تئیں مثبت موقف رکھنے والی ریاستیں 6ہیں جبکہ کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر کا موقف رکھنے ولی ریاستوں کی تعداد 24ہے۔ 
مجھے پورا یقین ہے کہ ہم افرادی ، مالی اور فکری وسائل کے ذریعے امریکی عوام میں سعودی عرب کی روشن تصویر مرتسم کرسکتے ہیں۔ 6نومبر 2018ءکو 33سینیٹرز کے انتخابا ت ہونگے ۔ان میں سے بعض نئے اور بعض پرانے ہونگے ۔ ہمیں اس سے قبل اپنی سفارتی عوامی مہم شروع کردینا چاہئے اور پہلی فرصت میں سیاستدانوں کے ساتھ مختلف فورموں پر گفتگو کے ذریعے اس کا آغاز کرنابہتر ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر:

متعلقہ خبریں