Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حضرت یحییٰ علیہ السلام کو الٰہ ماننے سے انکار کا خوف نکلا

 میں امریکہ میں زیر تعلیم پاکستانی کے نام سوالات بھیجتی اور وہ ان کے مدلل اور مکمل جواب ارسال کیا کرتا، پاکستانی کے ساتھ نیٹ پر مجھے یہ عرفان نصیب ہوا کہ اسلام دینِ حق ہے
 * * * ڈاکٹرمحمد لئیق اللہ خان۔ جدہ* * *
 امریکی شہری کائسی اسٹاربک قبول اسلام کی کہانی بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ عیسائی رسم و رواج نے مجھے عیسائیت سے بے زار کیااور اسلام کی سادگی نے مجھے اسلام کا چاہنے والا بنادیا۔ مذہب سے بے زاری کی شروعات اُس وقت ہوئی جب مجھے بتایا گیا کہ اگر تم نے غسل عیسائیت بپتسمہ نہ لیا تو تم دوزخ میں جاؤگی۔ کائسی کہتی ہے کہ میں نے یہ رسم لوگوں کو خوش کرنے کیلئے کی۔ ایک اتوار کو گرجا گھر میں وعظ ختم ہوا تو میں رسم کی ادائیگی کیلئے آگے بڑھی ۔ نوجوان پادری نے مسکراہٹ چہرے پر بکھیر کرمجھے خوش آمدید کہااور میرے برابر بنچ پر بیٹھ گیا۔ مجھ سے سوال کیا: تم یہ رسم کیوںادا کرنا چاہتی ہو؟ ایک لمحے کیلئے میں نے توقف کیا پھر جواب دیتے ہوئے گویا ہوئی :کیونکہ میں مسیح علیہ السلام سے پیار کرتی ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ وہ بھی مجھے عزیز رکھیں۔ اس بیان کے بعد گرجا گھر کے ارباب آئے اور سب نے مجھ سے معانقہ کیا، یہ بھی طے کیا گیا کہ مجھے غسل عیسائیت چند ہفتے بعد دیا جائیگا۔
     کائسی بتاتی ہیں کہ وہ سنڈے اسکول کے اسباق کے دوران میوزک ٹیم میں حصہ لیا کرتی تھی۔ وہ ہفت روزہ سرگرمیوں کے حوالے سے لڑکیوں کے گروپ میں بھی شریک ہوتی تھی۔ روحانی ریاضت کیلئے سالانہ کیمپ لگواتی، مجھ سے زیادہ عمر کے لڑکے مجھے گرجا کی پیانوٹیم کے حوالے سے جانتے تھے ، انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ میں ایک پادری کی بیٹی ہوں۔ پھر یوں ہوا کہ میرے والدین علیحدہ ہوگئے ، میری زندگی میں دین کا کردار بدل گیا۔میں اپنے والدین کو اپنے لئے آئیڈیل سمجھتی تھی۔میرے والدگرجا گھر میں خادم تھے، جو شماس کہلاتے ہیں۔ سب انہیں احترام کی نظر سے دیکھتے تھے جبکہ میری والدہ نوجوانوں کے گروپ کی سرپرستی کیا کرتی تھیں۔ علیحدگی کے بعد میری والدہ گھر سے رخصت ہوگئیں۔ اب والد اور دونوں بھائیوں کی نگہداشت میرے حصے میں آگئی۔
     ہم گرجا گھر جاتے رہے۔ اتوار کو والدہ ملنے کیلئے آتیں تو ہم گرجا گھر نہ جاتے۔ آئندہ 3برس کے دوران میرا بڑا اور پھر چھوٹا بھائی اور آخر میں خود میں بھی والدہ کے گھر منتقل ہوگئے۔والدہ نے گرجا گھر جانا چھوڑدیاتھا ۔اس طرح دونوں بھائی گرجا گھر کی حاضری کو غیر ضروری سمجھنے لگے۔ثانوی اسکول پورا کرنے سے ایک برس قبل میں ماں کے گھر منتقل ہوئی۔ میں نے بھی سہیلیاں بنالیں، زندگی کا نیاطرز اور انداز سامنے آیا۔ میری دوستی ایک پیاری سی لڑکی سے ہوئی۔ اس کے ہمراہ گرجا گھر گئی تو سب نے گلے لگا کر مجھے پیار کیا۔ یہ سب کچھ مجھے عجیب سا لگا۔ یہ بھی عیسائی تھے، لیکن ان کے عقائد ہمارے عقائد سے مختلف تھے۔ ان کے یہاں عبادت کی نظمیں ہوتیں لیکن موسیقی شامل نہ ہوتی۔ ان کے یہاں واعظ ، تنخواہ دار نہ تھے۔ معمرافراد عبادت کراتے ، خواتین کو گرجا گھر میں بولنے کی اجازت نہ تھی۔
    یہ حضرت عیسیٰ کا یوم پیدائش نہ مناتے۔ ان کے یہاں مجھے ایک بار پھر غسل عیسائیت واجب تھا وگرنہ میں دوزخی رہتی۔ اس واقعہ نے مجھے جھنجھوڑکر رکھ دیا۔ میں نے ماں سے کہا کہ میں عیسائی عقائد کے بارے میں الجھ گئی ہوں، میں مذہب کو سمجھنا چاہتی ہوں، گرجا گھر کے بزرگ سنانے پر اکتفا کرتے ہیں۔انجیل کا کوئی درس نہیں ہوتا، اگر انجیل اہم ہے تو اس کی تلاوت ، عبادت میں کیوں نہیں کی جاتی؟ میں نے جھنجھلاہٹ میں غسل عیسائیت نہیں کیا۔ ایک سال بعد کالج جانے لگی اور تمام گرجا گھروں سے الگ ہوگئی۔ کبھی کبھی گرجا گھر جاتی۔ کالج کے دوسرے سال اتوار کو گرجا گھر کی ٹیم میں شریک ہوئی، اس سے اچھی خاصی رقم مل جاتی تھی۔ اسی دوران میری ملاقات ایک مسلم نوجوان سے ہوگئی۔
    ہمارے ہاسٹل میں مقیم تھا۔ بڑا مہذب تھا، گہری سوچ میں غرق رہتا تھا۔میں نے ایک شام اس کے ساتھ گزاری، اس سے بہت سارے فلسفیانہ سوالات کئے۔ ایمان اور دین کے بارے میں اس کے خیالات دریافت کئے۔ وہ شیعی امامی اسماعیلی مسلمان تھا۔ گواس کے افکارملت اسلامیہ کے 100فیصد ترجمان نہ تھے تاہم اس کی گفتگو نے مجھے اپنے عقائد کے بارے میں چوکنا کردیا۔ میں چاہتی تھی کہ اس سے مزید سوالات کروں لیکن وہ میرے سوالات کے جواب دینے سے احتراز کرنے لگا۔ اگلے سال میں نے موسم گرما میں ایک لائبریری میں کام کیا۔مجھے اسلام سے متعلق جو کتاب نظرآتی اسے دھیان سے پڑھتی۔ میں نے یونیورسٹی کیمپس میں مقیم ایک اور مسلمان سے رابطہ کیا۔ اس سے اسلام کی بابت پوچھنے لگی۔ یہ نوجوان عجیب تھا۔ میں جب بھی اس سے کوئی سوال کرتی وہ مجھے قرآن کریم کے مطالعے کا مشورہ دیتا، البتہ عام انداز کے سوالات کے جواب دیدیا کرتا تھا۔ میں شام میں 2مرتبہ محلے کی مسجد میں گئی ، مجھے مسجد جانا اچھا لگا۔
     موسم گرما میں اسلام کا مطالعہ کرکے میں مسلمانوں کے حوالے سے ہونیوالی بیان بازی کے سلسلے میں زیادہ چوکنا ہوگئی چنانچہ جب کلاس کے دوران میں اسلام سے متعلق تعارفی معلومات حاصل کرتی تو ٹیچر کے غلط تبصرے سن کربے زاری محسوس کرتی، میری سمجھ میں نہ آتا کہ ٹیچر کی غلط بیانی کو کس طرح ٹھیک کروں۔یونیورسٹی کے تعلیمی عمل سے ہٹ کر میں سماجی کارکن کے طور پر بھی کام کرنے لگی تھی۔
    یونیورسٹی کیمپس میں اسلامی آگہی تنظیم کی ممبر بن گئی۔میں اس کی واحد خاتون رکن تھی۔ میرا تعارف کراتے وقت کہا جاتا کہ یہ صاحبہ مسیحی گروپ کی ہیں۔ جب بھی کوئی مسلمان اس طرح سے میرا تعارف کراتا تومیں اسے حیرت سے دیکھا کرتی۔ تعارف کا یہ انداز میرے لئے ناقابل فہم تھا۔ دراصل میری سوچ یہ تھی کہ جو کچھ اسلامی آگہی تنظیم کے دیگر ارکان کررہے ہیں وہی میں بھی کررہی ہوں لہذا ایسی حالت میں میرا تعارف مختلف انداز میں کیوں کرایا جارہا ہے؟ میں دیکھتی کہ جو کچھ وہ کررہے ہیں وہی میں بھی کررہی ہوں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی طرح میں بھی مسلمان ہوں۔میں نے سورکا گوشت کھانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ میں سبزی خور بن گئی تھی۔ شراب کی طرف میں کبھی نہیں گئی تھی۔ میں نے رمضان کے روزے رکھنا شروع کردیئے تھے۔ پھر بھی کوئی گڑبڑتھی۔
    کالج کے آخری سال سے پہلے برس کے آخر میں کچھ اور تبدیلیاں میری زندگی میں آئیں۔میں نے اپنا سر ڈھکنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا ایک محرک تو یہ تھا کہ لوگ میری چوٹی نہ دیکھیں، دوسرا محرک یہ تھا کہ ایسا کرنا اچھا لگتا تھا۔میں چاہتی تھی کہ میری چوٹی صرف میرا خاوند دیکھے اور بس۔
    آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کبھی کسی نے مجھ سے حجاب کے بارے میں بات تک نہ کی تھی۔ بہت ساری مسلم خواتین کو میں نے مسجد میں دیکھا کہ وہ حجاب کی پابندنہیں تھیں۔ اسی موسم گرما میں ایک روز میں انٹر نیٹ پرتھی۔ اسلام سے متعلق ویب سائٹس تلاش کررہی تھی۔ میں مسلمانوں کے ای میل ڈھونڈ رہی تھی۔ اس میں مجھے کامیابی نہیں ملی۔ بالآخر میں نے شادی ڈاٹ کام میں گھسنے کا خطرہ مول لے لیا۔میں اپنے ہم عمر افراد تک رسائی چاہتی تھی تاکہ ان سے اسلام کے بارے میں خط و کتابت کرسکوں۔میں نے ای میل دیکھ کر ان پر خطوط ارسال کرتے وقت یہ نوٹ تحریر کردیا کہ میں شادی نہیں بلکہ اسلام کے بارے میں معلومات کیلئے رابطہ کرنا چاہتی ہوں، چند روز بعد مجھے 20مسلمانوں کے جواب موصول ہوئے۔اُن میں ایک امریکہ میں زیر تعلیم پاکستانی، دوسرا انگلینڈ میں زیر تعلیم ہندوستانی اور تیسرا مارات میں سکونت پذیر مسلمان کا تھا۔ ان میں سے ہر ایک نے منفرد انداز سے تعاون کی پیشکش کی۔ میں نے آغاز پاکستانی سے کیا جوامریکہ میں زیرتعلیم تھاکیونکہ اس کے اوقات عمل اور میرے اوقات عمل میں مطابقت تھی۔ گپ شپ میں وقت کا فرق حائل نہ تھا۔ میں اسکے نام سوالات بھیجتی اور وہ ان کے مدلل اور مکمل جواب ارسال کیا کرتا۔
     پاکستانی کے ساتھ نیٹ پر مجھے یہ عرفان نصیب ہوا کہ اسلام دینِ حق ہے۔ اسلام حقیقی مساوات کا علمبردار مذہب ہے۔اس میں گورے ، کالے، قوم، نسل ، عمر وغیرہ سے فرق نہیں ہوتا۔ قرآن کریم کا مطالعہ کرکے پیچیدہ سوالات کے جواب ملے، میں خود کوبڑی حد تک مسلم سماج کا حصہ سمجھنے لگی۔میرے اندر یہ جذبہ شدت سے ابھرا کہ مسجد میں کھڑے ہوکر کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہونے کا اعلان کردوں ۔ میرے اندر سے حضرت یحییٰ  ؑکو الٰہ ماننے سے انکارکا خوف نکل گیا۔ میں نے 1997ء کی ایک شام کو جمعرات کا دن تھا، پاکستان سے فون پر رابطہ کرکے مزید سوالات کئے اور اگلے روز مسجد جانے کا فیصلہ کرلیا۔ ایک مسلم بھائی اور اس کی غیر مسلم بہن کے ہمراہ مسجد گئی ، اسے میں نے اپنے ارادہ سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ بس اتنا کہا تھا کہ خطیب صاحب سے کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں۔بہر حال جب میرانمبر آیا تو میں نے خطیب صاحب سے دریافت کیا کہ مسلمان ہونے کیلئے مجھے کیا کرنا ہوگا۔ انہوں نے مجھے اسلام کے ارکان بتائے اور لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ پر ایمان لانے کے بارے میں بتایا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے اسلام کا مطالعہ کررہی ہوں اور میں مسلمان ہونے کیلئے تیار ہوں۔ میں نے ان کے سامنے کلمہ شہادت پڑھا اور اس طرح میں 1997ء میں مسلمان ہوگئی۔
 
مزید پڑھیں:- - - - - -دعا کے معانی اور اہمیت

شیئر: