Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شادی میں کھانے کا گرین سگنل اور مہمانوں کی بے قراری

ایاز چوہدری محمد رفیق۔جدہ
دفتر سے گھرپہنچا تو گھرپر ایک دعوت نامہ آیا ہوا تھا ۔ہمارے قریبی رشتہ دار کے بیٹے کی شادی کا دعوت نامہ تھا۔ ہم نے دعوت نامہ پر تاریخ ،وقت اور جگہ کا دیکھا اور مقررہ تاریخ پر تعین کی ہوئی جگہ پر پہنچ گئے۔
پر رونق جگہ تو ایک جشن کا سماں تھا ۔ سب سج دھج کر آئے ہوئے تھے ۔ظاہر ہے شادی پر آئے تھے سجنا سنورنا تو پڑنا تھا ۔ 
ہم شادی ہال میں پہنچ کر سب سے مل جھل کر ایک نشست پکڑکر بیٹھ گئے ۔ سب بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے ۔ ہم بھی اپنا فون نکال کر سوشل میڈیا پر مصروف ہوگئے ۔دیکھتے ہی دیکھتے میرج ہال کی آرمی مطلب کہ ویٹرز کھانے کی ٹیبلوں پر مختلف کھانے  قورمہ ، بریانی ،چرغہ ،بروسٹ ،مختلف چٹنیاں ،رائتہ ہی نہیں بلکہ کھانوں کی ایک طویل قطار ٹیبلوں پر سجھانی شروع کی۔
جب ویٹرز نے سب کھانے ڈشز میں ڈال دئیے تو شادی پر آئے ہوئے سب مہمانوں کی نظریں اس ویٹرز کی طرف جم گئیں جس نے کھانے کا گرین سگنل دینا تھا۔
جیسے ہی تھکے ہارے ویٹرز نے گرین سگنل دیا کہ’’روٹی کھل گئی جے‘‘سب مہمان جو بیٹھے تھے پلک جھپکتے ہی کھانے پر ایسے براجمان ہوئے جیسے صدیوں سے بھوکے ہوں۔
کسی نے چمچ پکڑا ، کسی نے پلیٹ ،کسی نے سلاد ،کسی نے چٹنی،کسی نے روٹی ،حتیٰ کہ کہیں کہیں ایک دوسرے نے ایک دوسرے کا گریبان پکڑا ہوا تھا۔
پھر میں نے سوچا کہ جس نے دعوت دی ہے کیا وہ اپنے مہمانوں کوبھوکابھیجے گا؟لیکن پھر بھی کھانے کھلنے کے اعلان کے بعد میں پہلے میں پہلے میں پہلے کیوں؟
برائے مہربانی جس شادی میں بھی جائیں تو اطمینان سے کھائیں کیونکہ جس نے دعوت نامہ دیا ہوتا ہے اس نے آپ کو کھانا کھلانے کا بندوبست بھی کیا ہوتا ہے۔لہٰذا مطمئن ہو کر کھانے کیلئے اپنی  نشستوں سے اٹھ کر کھانا پلیٹ میں ’’لوڈ‘‘ کریں اور اپنے حساب سے پلیٹوں میں کھانا بھریں کھانے کا ضیاع نہ کریں۔
خصوصاً یہ پیغا م میں آج کے نوجوانوں کو دینا چاہتا ہوں کہ اب آئندہ اس نوجوان نسل نے ہی تہذیب اور ثقافت دونوں کو آگے لے کر چلنا ہے ۔ اگر نوجوان آج یہ فیصلہ کر لیں کہ پرانی تہذیبوں اور بے ادبیوں کا خاتمہ کرنا ہے تو مجال ہے جو یہ آئندہ ہو۔
 

شیئر: