Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

متاع حیات

فائزہ امجد
چھن گئے یہ گہنے، یہ جھومر، یہ بندے، لٹ گئے یہ موتی، یہ ٹیکا، یہ ہیرے کھو گئے میرے قیمتی متاع حیات سارے
لڑکپن میں سب کزنز کے ساتھ مل کر بڑوں سے چھپ کر انڈین سپر اسٹار کی سپرہٹ مودی دیکھنے کا اتفاق ہوا جسے دیکھ کر کئی دن تک دل کانپتا رہا اور ایک دوسرے ہی سے کیا اپنے ہی دامن سے نظریں چراتے رہے۔
وقت گزرتا رہا ، زمانہ تیزی سے آزادی اور جدیدیت پسندی کی طرف بڑھتا رہا۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے ذہنوں کو آہستہ آہستہ آکاس بیل کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب تو یہ نام نہاد جدت پسندی ، آزادی کے نام پر کھلم کھلا معاشرے میں اپنی جڑیں اتنی مضبوطی سے گاڑ چکی ہے کہ سب اس ماحول کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ یہ حقیقت ہی نہ سمجھے کہ اپنا قیمتی ترین سرمایہ ہی لٹائے جارہے ہیں۔
بیس سال بعد اچانک وہی فلم خاندان کی موجودگی میں نظروں سے گزری تو بے اختیار ذہن میں لڑکپن کے وہ احساسات و جذبات ذہن میں کوند پڑے تو زبان سے بے ساختہ الفاظ ابھرے، اس میں تو کوئی بے حیائی نہیں۔ یہ سب تو ہر روز میڈیا کے ذریعے عام نظروں سے گزرتا ہے۔
انہی احساسات نے یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ ہم اتنے بے غیرت ہوچکے ہیں کہ ایک مکمل ضابطہ حیات رکھتے ہوئے اپنا قیمتی ترین مال و زر غیروں کے ہاتھوں رہن رکھوا دیا ہے۔ اپنی عزت کا جنازہ تیار کرکے دھوم دھام سے دشمنوں کے ہاتھوں میں تھما دیا ہے۔ کیا میری نسل میں میری جیسی شرم و حیا جنم بھی لے سکے گی یا نہیں؟؟
کہاں گئی وہ چہرے کی لالی، وہ آنکھوں کا پانی، کدھر سے لاﺅں وہ اپنی نسل کے لئے بھرم۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: