Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپنے نبیؐ کی گواہی کو اپنی بیٹی کے سینے میں منتقل کرتی رہی

لوہا گرم دیکھ کر عشق رسولؐ  کا جام گھونٹ گھونٹ اپنی 6سالہ بچی کو پلاتی رہی اوروہ پیتی رہی، اللہ سے دعا کرتی رہی کہ نئی ن سل کو شیطان کے وار سے بچانے کیلئے موثر ہتھیار عطا کردے 
رمانہ عمر۔  ریاض
ماما ہمیں کیسے پتہ چلا کہ اللہ ایک ہے ؟
وہ معصومیت سے اس سوال کو پوچھنے کے بعد پھر اپنی آئس کریم میں گم ہو گئی تھی۔
ہمیں کیسے پتہ چلا؟ ہمیں اللہ نے بتایا کہ وہی ایک خدا ہے۔ انہوں نے یہ اپنی کتاب میں لکھا۔ ہمیں ہمارے پیارے نبیؐ نے بتایا۔ 
میں میٹھی سی مسکان کے ساتھ یہ کہتے ہوئے اس کے بالوں کو کان کے پیچھے اڑسنے لگی جو بار بار آئس کریم کپ کو چھو جاتے تھے۔
کتنی دفعہ کہا ہے پونی نہ کھولا کرو۔ سارے بالوں میں چپچپی آئس کریم لگا لیتی ہو۔
لیکن ماما ان کے گاڈ نے ان کو بتایا ہے کہ گاڈ ایک نہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ وہ میری بات نہیں سن رہی تھی اس کا ذہن کسی نکتے پر الجھا ہوا تھا۔ کس نے بتایا ہے یہ ؟ اب کے میری مسکان غائب تھی اور آواز میں تشویش کے ساتھ ساتھ درشتگی بھی در آئی تھی۔
توسیتا کے گاڈ نے۔
اس نے اپنی کلاس فیلو لڑکی کا نام لیا۔
ہوں....  میں نے سارے غصے کو دل ہی دل میں دبایا اور خود کو مخاطب کیا ‘‘سنبھل کے بیٹا جی سنبھل کے۔ ردعمل کے اظہارسے پہلے سو بار سوچو۔ ‘‘
میں نے اس کو پھر سے آئس کریم کی طرف متوجہ کر دیا اور وہ فی الوقت اس سوال کو بھول بھال کر دوسری چیزوں میں لگ گئی مگر میرا ذہن پھرکی کی طرح گھو متا رہا۔
تو محض 6 برس کی عمر میں اس کے ایمان کو تو سیتا کے چیلنج کا سامنا ہے۔ یا اللہ کیا کروں ؟ ٹیچر سے بات ؟؟؟ دوستی سے منع کروں ؟؟؟ لا جک سے سمجھاؤں ؟؟؟
ایک سے زیادہ خدا کیسے ہو سکتے ہیں ؟؟؟؟ اگر ہوتے تو کائنات کا نظام درہم برہم ہو جاتا۔ لڑائیاں شروع ہو جاتیں۔ میرے پاس یہ سب جوابات تھے مگر۔۔۔۔ مشکل یہ تھی کہ اس کی عمر چھوٹی اور سوال بہت بنیادی اور بڑا.... کیسے سمجھاؤں ؟؟؟دوسرے سارے کام پس پشت ڈال کر میں نیٹ کھول کر بیٹھ گئی اور مختلف اسلامک ویب سائٹس سرچ کرنے لگی۔ بہت سے جوابات ملے اور غیر مسلموں کو مطمئن کرنے کیلئے لاجک  ، مثالیں وغیرہ وغیرہ۔ مگر میرے دل کو اطمینان نہ ہوا۔ وہ غیر مسلم نہیں میری اپنی بچی ہے۔پھر اس کے پاس ایمان اور اپنی بات پر اعتماد کیوں نہیں ؟
اب میں ایک نئی الجھن میں تھی۔ ان جوابوں سے وہ مطمئن ہوگی یا مزید کنفیوژ۔
بستر پہ لیٹتے وقت میں نے اپنی ننی منی گڑیا کو کلمہ پڑھوایا۔ اس نے روزانہ کی طرح رٹو طوطے کی طرح دہرایا تب اچانک ہی ایمان کی ایک چنگاری میرے سینے میں بھڑکی اور شاید وہی لمحہ تھا جب میرے وجدان نے مجھے بتا دیا کہ مجھے کیا جواب دینا ہے۔
میں نے اسے کلمہ شھادت کا آسان سا مطلب بتایا اور اس سے پوچھا
ہنی یہ جو تم نے کہا کہ لا الہ الا اللہ یہ تمہیں کس نے سکھایا ؟
آپ نے۔۔۔ اس نے چمک کے کہا
اور مجھے کس نے سکھایا ؟
آپ کی ماما نے۔ اس نے کچھ سوچ کر جواب دیا
اور ان کو کس نے ؟؟؟
یہ سلسلہ تھوڑی دیر تک چلا تو وہ بور ہوگء۔ تب میں نے کہا کہ یہ کلمہ ہم کو ہم سب کے ماں اور باپ حوا اور آدم نے سکھایا۔
آدم ؑ  تو نبی تھے۔ اور آپ جانتی ہو کہ نبی کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتے۔ تو انہوں نے ہی ہمیں بتایا کہ اللہ ایک ہیں۔ اور وہ تو جنت دیکھ کر آئے تھے۔ اللہ کے پاس سے آئے تھے جنت سے زمین پر آئے تھے۔ بعد میں سارے نبیوں نے یہی بتایا کیونکہ وہ سب سچے تھے۔ اور کیا آپ کو پتہ ہے کہ ہمارے پیارے نبی کتنے سچے تھے ؟
وہ اشتیاق سے سن رہی تھی تو میں بھی ایک کے بعد ایک قصہ سناتی گئی، تعمیر کعبہ اور حجر اسود کا قصہ ، ساری قوم کا ان کو صادق و امین کہنا اور پھر میں نے اسے بتاتا کہ صادق و امین ا لئے کہلائے کہ انہوں نے کبھی بھی رتی برابر بھی جھوٹ نہیں بولا۔ پھر میں نے اسے صفا پر چڑھ کر خاندان والوں سے سوال جواب کرنے کا واقعہ بتایا کہ کس طرح خاندان والے ان پر اندھا اعتماد کرتے تھے اور کیسے وہ اپنی کہی ہوئی بات اور وعدے کو نبھاتے تھے۔ وہ 3 روز تک ایک ہی مقام پر کیوں کھڑے رہے ؟ کیونکہ کسی سے ملنے کا وعدہ کیا تھا۔
وہ یہ سب سنتی رہی....  میں اپنے نبی کی سچائی کی گواہی کو اپنے سینے سے اپنی بیٹی کے سینے میں منتقل کر رہی تھی۔ ایک ایسا پیارا لمحہ تھا کہ وقت تھم سا گیا تھا اور میری آواز محبت اور فرط جذبات سے گلوگیر ہوگئی تھی۔ میں نے لوہا گرم دیکھا تو عشق رسولؐ  کا جام گھونٹ گھونٹ اسے پلاتی رہی اور وہ پیتی گئی۔ اس کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو گئی تھیں۔ تب میں نے اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے سوال کیا۔
ہنی یہ بتاؤ کہ پیارے نبی نے کبھی جھوٹ بولا ؟
کہنے لگی نہیں کبھی بھی نہیں
تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ ایک سے زیادہ ہوں اور وہ ہم سے بتائیں کہ اللہ ایک ہے۔ کیا وہ اللہ کے بارے میں جھوٹ کہہ سکتے تھے ؟
نہیں کبھی نہیں۔ اس نے نیند سے بوجھل آواز میں کہا۔
شاباش.... اب تم سو جاؤ اور جب بھی توسیتا تم سے اللہ کے بارے میں کچھ کہے تم اس کو بتادینا کہ تمہارے سچے نبیؐ نے تم کو کیا بتا یا ہے۔
وہ سو چکی تھی۔ میں نے اس کی پیشانی کو چوما اور دیر تک معصوم 6 سالہ بچی کا چہرہ پڑھتی رہی۔ اتنی سی عمر اور اتنے گہرے سوالات۔
اس میں اس بے چاری کا کیا قصور ہے۔ میڈیا ، نصاب ، تعلیمی ادارے اور ماحول سب کچھ ہی کنفیوژن پھیلانے میں سرگرم عمل ہیں۔ ایسے میں ماں باپ کا ایمان ، ان کا وجدان اور ان کا علم وعمل سب ہی کو زبردست قسم کے چیلنج کا سامنا ہے۔
یا اللہ ہم دونوں کی رہنمائی کر اور ہمیں اپنی نسل کو شیطان کے وار سے بچانے کیلئے موثر ہتھیار عطا کردے۔ میں نے دل سے دعا کی۔

********

شیئر: