Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آج میری سمجھ میں آگیا صبر و شکر ہی سب سے بڑی نعمت ہے

دنیا کی ہر چیز مل جائے اور صبرو شکر نہ ملے تو ایسی چیزوں کا کوئی فائدہ نہیں، بچی کی باتیں سن کر ماں نے عمارہ کو گلے لگالیا اور کہا اب تم واقعی سمجھدار ہوگئی ہو
عنبرین فیض احمد۔ کراچی
غربت کس بلا کو کہتے ہیں یا غربت کس چیز کو کہتے ہیں عمارہ کو بالکل معلوم نہ تھا بس اسے تو صرف یہ پتہ تھا کہ ہم غریب ہیں اور ہمارے پاس کھانے کو بھی پیسے نہیں ہوتے کیونکہ اس کے گھر میں صرف سبزی دال ہی بنا کرتی تھی جن سے اسے چڑ تھی۔ اسے سبزیوں میں بھنڈی سے عجیب قسم کا بیر تھا ۔ ہری ہری عجیب سی لمبی اور لیس دار اس چیز سے کراہت محسوس ہوتی ، پھر یہ کہ اسے کھایا بھی جائے ہفتے میں تین چار مرتبہ اس کے بس کی بات نہیں تھی۔
عمارہ کے والدین اسے لاکھ سمجھانے کی کوشش کرتے کہ یہ سب اللہ کی نعمتیں ہیں، انہیں برا نہیں کہتے ، اس طرح برا منہ بناکر کھانا نہ کھایا کرو، ناشکری ہوتی ہے، اللہ ناراض ہوسکتا ہے ، لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہ آتا۔ اس کے والدین کبھی اسے پیار سے اور کبھی ناراضی سے سمجھاتے مگر اسے تو سبزیاں اور دال بالکل ہی پسند نہیں آتی۔ وہ ہمیشہ دل ہی دل میں سوچتی کہ آخر ہمارے والدین کے پاس اتنے پیسے کیوں نہیں کہ ہم بھی اپنی پسند کی چیزیں پکائیں اور سب مزے لے لے کر کھائیں۔ کبھی اسے اپنی نصیب پر رونا بھی آتا سبزیوں کو دیکھ کر مگر دو چار نوالے زہر ما ر کر کھانا ہی پڑتا۔ 
اکثر اس کے ابا کو اس پر ترس آتا اور وہ اس کی ماں سے کہتے کہ اگر اس کو سبزیاں پسند نہیں تو کچھ اور بنا دیا کرو ۔ مہمانوں کیلئے انڈے جو رکھے ہوئے ہیں ان میں سے ہی کوئی فرائی کرکے اسے کھلا دیا کرو۔ شوہر کی ان باتو ں سے وہ جیسے پھٹ پڑتی اور کہتی کہ پانچ میں سے صرف دو انڈے باقی رہ گئے ہیں وہ بھی ڈھیر ساری پیاز اور ٹماٹر ڈال کر بناتی ہوں تاکہ بچے کھاسکیں صرف ایک کے لاڈ اٹھاﺅں اور باقی بچوں کی گردنوں پر چھریاں پھیر دوں کیا؟ وہ اگر کچھ نہیں کہتے تو کیا ان کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی۔عمارہ کی ماں اس کی ناجائز خواہشات کے سخت خلاف تھی۔ جہاں اس کے ابا نے اس کی طرفداری کی اماں غصے میں لال پیلی ہوجاتی آخر اس کے ابا کو خاموشی اختیار کرنی پڑتی۔
آج مہینے کی پہلی تاریخ تھی، گھر کے سب ہی افراد خوش تھے۔ خوش کیوں نہ ہوتے کیونکہ عمارہ کے ابا کو تنخواہ ملنی تھی۔ ہر پہلی تاریخ کو اس کے ابا تنخواہ کے ساتھ کچھ پھل گھر ضرور لاتے اور سا تھ ہی ہر بچے کو دس، دس روپے بطور پاکٹ منی بھی دیتے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہتے کہ ہر بچے کو آزادی ہے کہ وہ اپنے پیسے جس طرح چاہے خرچ کرے۔ کسی سے کوئی باز پرس نہیں کی جائے گی۔ یعنی ہر ماہ کی پہلی تاریخ اس چھوٹے سے گھرانے کیلئے بہت ہی خوبصورت اور خوشیوں بھری شام ہوا کرتی۔ عمارہ اس تاریخ کا شدت سے انتظار کرتی۔ وہ سوچتی کہ ان دس روپوں سے کیا کیا چیزیں بن سکتی ہیں۔ انڈے تو آہی جائیں گے، کبھی گوشت کے خواب دیکھتی اور مسکرانے لگتی۔ دسترخوان پر سبزیاں دیکھ کر دل مچل اٹھتا کہ یہ کھانے کے بجائے اپنے دس روپوں کے انڈے ہی لے آئے اور مزے سے آملیٹ بناکر کھائے۔ 
انہی سوچوں میں اس نے اپنی ماں کو دیکھا جو نہایت فکرمندی میں بیٹھی تھیں۔ عمارہ نے ماں کے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کہ کیا بات ہے، ایسے کیوں بیٹھی ہیں؟ ماں نے کہا کہ جب سے گرمیوں کی چھٹیاں ہوئی ہیں صبح سے شام تک سارا دن کھیلتی رہتی ہو، یہ نہیں ہوتا کہ ذرا ماں کا ہاتھ بٹا دو۔ گرمی کے مارے ماں کا برا حال تھا ، یہی وجہ تھی کہ وہ عمارہ پر برس پڑیں۔ پھر کہنے لگیں اب تو سبزیوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں، روز ہی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ اس ملک میں غریب جائے تو جائے کہاں؟ آخر کیسے زندہ رہ سکتے ہیں۔ عمارہ کو اپنی ماں پر بہت ترس آیا۔ ان کیلئے پانی لے کر آئی تو اخبار سے پنکھا جھلنے لگی۔ 
بس بھنڈیاں ہی تھیں جو کچھ ذرا سستی تھیں ورنہ ساری سبزیوں کی قیمتوں کو تو جیسے آگ لگ گئی ہے۔ بس آج آدھا کلو بھنڈی بڑی ہی مشکل سے لے آئی ہوں ، جو ایک وقت ہی چل سکتی ہے۔ ہاں اگر تھوڑی اور بھنڈیاں کسی طرح لے کر آجاﺅں تو دونوں وقت کھانا ہوجائے گا۔ اماں اپنے ہی حساب کتاب میں لگی ہوئی تھیں۔ عمارہ کو اپنی اماں کی پریشانی دکھی کئے جارہی تھی اس کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس طرح اپنی ماں کی پریشانی کو کم کرے۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے دس روپے جو شام کو اس کے ابا نے پاکٹ منی کے دیئے تھے اپنی ماں کی ہتھیلی پر رکھ دے۔ تب ہی اس نے چپ چاپ دس روپے کا نوٹ نکالا اور ماں کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ 
پھر کچھ ایسا ہوا کہ رات کو جب کھانا لگا جس میں صرف بھنڈی ہی تھی تو سب سے زیادہ کھانا عمارہ نے ہی مزے مزے سے کھایا۔ سب بہن بھائی اور سب سے زیادہ اماں حیران تھیں کہ آخر عمارہ آج سبزیاں وہ بھی بھنڈی اتنے شوق اور مزے سے کس طرح کھا رہی ہے۔ عمارہ نے اپنی ماں کو پیار کرتے ہوئے کہا کہ اللہ میاں نے ہمیں کھانے کو تو دیا ہے نہ معلوم کتنے ہی ایسے لوگ بھی ہونگے جو بغیر کھانا کھائے سو جاتے ہونگے۔ میری آج سمجھ آگیا ہے کہ صبر وشکر ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ دنیا کی ہر چیز مل جائے اور صبر شکر نہ ملے تو ایسی چیزوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس کی باتیں سن کر ماں نے عمارہ کو گلے لگالیا اور کہا اب تم واقعی سمجھدار ہوگئی ہو۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: