Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’نانی دودی جانا‘‘

شہزاد اعظم۔جدہ
ضروری نہیں کہ شاگرد ہی ہمیشہ استاد سے سیکھے، بعض اوقات شاگردبھی استاد کوکچھ نہ کچھ سکھا جاتا ہے۔ اسی طرح ضروری نہیں کہ ہمیشہ بڑے ہی بچوں کو سیدھا کریں، بعض اوقات بچے بھی بڑوں کو سیدھا کر دیتے ہیں بعینہٖ’’چھٹولپن‘‘ میں ہم نے اپنے والدین کو ایک سبق سکھا دیا مگر وہی بات کہ وہ ہمارے ہی والدین تھے، ہم نے ایک مرتبہ انہیں سبق سکھایا تو انہوں نے ہم پر اس سبق کا ساری زندگی اطلاق کیا۔ ہوا یو ں کہ ہم اپنی نانی کے ہاں جانے کی ضدکر رہے تھے کیونکہ وہاں ہماری ایک بیوہ خالہ اپنی اولاد سمیت مقیم تھیں۔ براہ راست  ضدکر نہیں سکتے تھے چنانچہ ہم نے سوچا کہ کوئی بہانہ کیاجائے ، اپنے مقصد کی فطانت تو ہمارے اندر روزِ اول سے ہی کوٹ کوٹ کر بھری تھی چنانچہ ہم نے’’ جملۂ ضِد‘‘یوں ترتیب دیا کہ ’’مجھے نانی کی گود میں جانا ہے۔‘‘جب ہم نے اپنی توتلی زبان میں اپنا مدعا والدین کے روبرو پیش کیا تو اس کی صوتیات کچھ یوں نمودار ہوئیں کہ ’’میں نے نانی دودی جانا۔‘‘ ہماری یہ ’’بے وقت کی راگنی ‘‘ سن کر والدہ محترمہ سیخ پا ہوگئیں کہ گھر میں سارا کام بکھرا پڑا ہے، ہانڈی چولھے پر چڑھی ہوئی ہے، پائپ لگا کر حمام بھرا جا رہا ہے ، لکڑیاں جل رہی ہیں، آٹا تغاری میں ڈھل رہا ہے، ایسے میں تمہاری ضد مجھے ایک آنکھ نہیں بھا رہی۔ ہم نے اپنی خواہش کو رد ہوتے دیکھ کر انتہائی اقدام کیا اور تمام تر قوت ِ بدنی مجتمع کر کے منہ پھاڑ کر رونا اور زبان سے چلانا شروع کر دیا کہ ’’آآآھاااااا، نانی دودی جانا، آآآھاااااا، نانی دودی جانا‘‘ والدہ نے چولھے سے دہکتا چمٹا نکال کر ہمیں دھمکاتے ہوئے کہا کہ اس سے پکڑ کر زبان کھینچ لوں گی اگر خاموش نہ ہوئے۔ والدہ کی ڈانٹ پر تو ہم آپے سے ہی باہر ہوگئے اور ہم نے’’آآآھاااااا، نانی دودی جانا‘‘ کی رٹ کے ساتھ اپنا سانس بھی روکنا شروع کر دیا۔ ہماری والدہ بہر حال ممتا سراپاتو  تھیں، انہوں نے اپنے بیٹے کی ’’سانسیں اکھڑتی ‘‘ دیکھیں تو فوراً ارادہ بدل ڈالا ،فٹا فٹ برقع پہنا اور ہمیں گود میں لے کرقریب ہی واقع نانی کے ہاں لے گئیں اور ہمیں دروازے سے ہی ہماری بیوہ خالہ کے سپرد کر دیا۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ چھٹولپن میں ہماری حکمت عملی مثال کی حد تک کامیاب رہی تھی مگراس کے بعد والدین نے ہمارے ساتھ  ساری زندگی یہی حکمت روا رکھی۔ انہیں جب بھی ہم سے کوئی سہولت واپس لے کرہمیںمشکلات کا عادی بنانا ہوتا تو وہ سب سے پہلے انتہائی اقدام کرتے، مثلاً ہم نے ایک روز ابو صاحب سے کہا کہ موٹر سائیکل پر ہمارا رنگ کالا ہوگیا ہے،لوگ ہمیں یہ کہہ کر ’’سیاہ روئی‘‘کا احساس دلاتے ہیں کہ ’’ابے یہ تو کیسے ہو گیا ہے کالیا؟‘‘برائے مہربانی آپ ہمیں کار لے دیجئے۔ یہ سن کر ابو صاحب نے بھوں چڑھا کر دھمکی کے انداز میں کہا کہ آج سے تمہارا موٹر سائیکل چلانا بند، تم جہاں بھی جاؤ گے ، پیدل جاؤ گے۔ اگر میں نے تمہیں کوئی سواری استعمال کرتے دیکھا تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔ 
ہم ابو کے دستِ نگر تھے، انہی کی کمائی کھا کر پل بڑھ رہے تھے، اس لئے مجبور تھے، ہر جگہ پیدل آتے جاتے رہے اور شکر یہ ادا کرتے رہے کہ ابو نے گھر سے نکلنے کو منع نہیں کیا، ایسا کر دیتے تو ہم کیا کر لیتے، بیوہ خالہ کا حال پوچھنے، گھر کا ماحول دیکھنے سے بھی رہ جاتے۔ وقت گزرتا رہا اور ایک ماہ کے بعد ابو جی نے ہماری والدہ کی سفارش پر ہمیں آنے جانے کے لئے سائیکل کے استعمال کی اجازت دیدی اور تنبیہ کر دی کہ اگر ہم نے سائیکل کی بجائے ’’موٹر والی ‘‘ سائیکل استعمال کرنے کی کوشش کی تو ہمیں گھر سے پیدل برآمد ہونے کے حق سے بھی محروم کر دیا جائے گا۔ابو کو اس اقدام کا فائدہ یہ ہوا کہ ہم نے ان کی باقیماندہ زندگی میں کبھی کار خرید کر دینے کی فرمائش نہیں کی اور سائیکل کو ہی اپنا شریکِ سفرِ حیات بنائے رکھا۔والدین نے ہماری ضدوں کے آگے ’’پختہ بند‘‘ باندھنے کے لئے یہی کامیاب حکمت عملی اختیار کئے رکھی اور ہم کچھ نہ کر سکے کیونکہ اس حکمت کے موجد ہم ہی تھے۔
آج ہمارے شہرکراچی میں جس طرح لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ صاحبانِ اختیار نے شہریوں پر ہماری وہی ’’نانی دودی جانا‘‘ والی حکمت عملی آزمائی ہے ۔ شہریوں نے کہا کہ رمضان مبارک آ رہے ہیں، شدید گرمی ہے، لوڈ شیڈنگ میں کمی کی جائے اور روزہ داروں کواذیت سے بچایا جائے۔ شہریوں کی اس فریاد کا انجام یہ ہوا کہ رمضان کریم کے ابتدائی ایام میں 13،13گھنٹے بجلی بند رکھی گئی، لوگ بے حال ہوئے، چیخے، چلائے، روئے ، دہائیاں دیں مگر صورتحال میں بہتری واقع نہ ہوئی۔ کئی راتیں بھی انہوں نے گرمی کے مارے جاگ کر کاٹیں ، دن میں گھروں سے باہر نکل کر سڑکوں پر وقت گزارا۔ اس کے بعد شہریوں کو دن میں ساڑھے 7گھنٹے باقاعدہ اور چند گھنٹے بے قاعدہ لوڈ شیڈنگ کا عادی بنا دیا گیا۔ انہوں نے شکر ادا کیا کہ بجلی آ تو جاتی ہے، اب وہ دعائیں کرتے ہیں کہ ’’بے قاعدہ لوڈ شیڈنگ‘‘ کا دورانیہ کم سے کم ہوجائے۔ہم نے یہ بات اپنے دوست کو بتائی تو بہت ہی قریب کی کوڑی لے آئے کہ بھائی میاں! یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ عوام ’’نانی دودی جانا‘‘ والی حکمت عملی صاحبانِ اختیار کے خلاف آزمانے پر آجائیں؟جواباً ہمارے دل سے ’’دعا‘‘ نکلی۔
 

شیئر: