Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نماز کے وقت دکانیں بند کرنے کا رواج

***ھیلہ المشوح۔۔عکاظ***
گزشتہ دنوں زنانہ لوازمات مثلاً ملبوسات، جوتے ، آرائشی اشیاء ، میک اپ کا ساما ن اور خوشبویات فروخت کرنے والی تمام دکانوں پر سعودی خواتین کی تقرری کا فیصلہ نافذ کیا گیا۔ بین الاقوامی مارکہ جات والی دکانیں بھی100 فیصد سعودی خواتین چلانے لگیں۔ ان سے ریستوران اور خدمات فراہم کرنے والے بعض ادارے مستثنیٰ ہیں۔ امید ہے کہ ان سب کی بھی مکمل سعودائزیشن ہوجائیگی۔ اس عظیم تبدیلی کے برعکس سعودی عرب میں جو قوانین رائج ہیں وہ کافی پرانے ہیں۔ اس حوالے سے کسی تبدیلی یا قدیم قوانین کو غیر موثر بنانے کی جہت میں کوئی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آرہی ۔ایسا نہیں لگتا کہ قدیم قوانین کو عظیم تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرنے کی بھی کوئی کوشش ہورہی ہو۔ مثال کے طور پر ہر نماز کے وقت دکانیں بند کرنے کا فیصلہ اُس وقت کیا گیا تھا جب دکاندار اور خریدار دونوں مرد ہوتے تھے۔ اب جبکہ بازاروں میں سامان فروخت کرنے اور خریدنے کے حوالے سے تبدیلیاں آچکی ہیں۔ خریدنے والی بھی خواتین ہیں اور فروخت کرنے والی بھی لہذا نماز کے وقت دکانیں بند کرنے کا یہ رواج ختم کیوں نہیں کیا جارہا جبکہ اس سے وقت کا بھی ضیاع ہے۔ روزانہ کم از کم  4گھنٹے اسکی نذر ہوجاتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ خواتین پر نماز کے اوقات کی وہ پابندی نہیں جو مردوں پر ہے۔ انہیں مساجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرنے کا حکم نہیں۔ سامان فروخت کرنے اورخریدنے والی خواتین کہیں بھی نماز ادا کرسکتی ہیں۔
۰۰۰مجھے معلوم ہے کہ جونہی اس مسئلے پر بحث کا دروازہ کھلے گا مذمت، اعتراض اور سخت کلامی کی برسات شروع ہوجائیگی۔ ایسا احساس دلایا جائیگا گویا ہم نے مذکورہ بات کہہ کر کوئی خدانخواستہ کفریہ جملہ منہ سے نکال دیا ہے۔ ہم نے کوئی ایسی بات کہہ دی ہے جس کا قرآن و سنت اور سلف صالحین سے کوئی رشتہ ناتہ نہیں۔ نماز کے وقت دکانیں بند کرنے کا معاملہ پیچیدہ ہے ،حل نہیں ہوگا تو یونہی پڑا رہیگا۔ قرآن پاک میں نماز کے وقت دکانیں بند کرنے کا جو حکم آیا ہے وہ صرف نماز جمعہ کیلئے ہے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے زمانے میں نماز کے وقت دکانیں بند کرنے کی پابندی نہیں تھی۔ اسکا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ خلافت امیہ او رخلافت عباسیہ میں بھی اسکا رواج نہیں تھا۔ دنیا کے کسی بھی مسلم ملک میں آج بھی اسکا رواج نہیں۔ یہ فیصلہ حاکم وقت کا بھی نہیں جو معاشرے کے تمام امور کو منظم کرنے کا پابند ہے۔ 
بازاروں، ریستورانوں، قہوہ خانوں میں نماز کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا۔ لوگ دروازے بند کرکے گپ شپ کرنے لگتے ہیں۔ خریدار باہر کھڑے تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔ کارکن اسے بریک ٹائم سمجھ کر لطف اٹھاتے ہیں۔ نماز کے بہانے زیادہ سے زیادہ آرام کا وقفہ بھی لیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں غیر مسلم خریدار بھی ہوتے ہیں ۔ ان کے ذہنوںمیں اس حوالے سے طرح طرح کے سوالات بھی آتے ہیں۔ ایسے وقت میں جبکہ ہم بڑے بڑے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اپنے یہاں سرمایہ لگانے کی دعوت دے رہے ہیں ہمیں ان کے جذبات کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔

شیئر: