Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عوام ٹھان لیں تو خوفناک رجحان کا خاتمہ ہو جائے

عنبرین فیض احمد۔ ینبع
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں ہر قسم کا قانون موجود ہے لیکن افسوس یہاں اس قانون کی پاسداری کرتا کوئی دکھائی نہیںدیتا بلکہ لوگ قانون کو ہاتھ میں لینا بہادری سمجھتے ہیں حالانکہ کوئی بھی ملک یا معاشرے اس وقت تک ترقی و خوشحالی کی طرف گامزن نہیں ہو سکتا جب تک اس ملک کے عوام ملک کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل پیرا نہ ہوں۔ اگر ہمارے وطن عزیز میں عوام موجود ہ قانون کی پاسداری کرنا شروع کردیں تو یقین جانئے ہمارے ملک کے آدھے مسائل حل ہو جائیں گے کیونکہ کافی حد تک جرائم پر کنٹرول پانا ممکن ہو جائے گا۔ بحیثیت شہری ہم چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھیں اور معمولی معمولی غلطیاں کرنا بھی چھوڑ دیںتو ہم مثالی ملک بن جائیں گے کیونکہ ان کوتاہیوں اور غلطیوں سے نہ صرف ہمارا بلکہ ملک اور قوم کا بھی نقصان ہوتا ہے ۔ انہیں ترک کر کے ہم بڑے بڑے حادثات سے بچ سکتے ہیں۔ اگر ہم قانون کا احترام کریں اوراس کے ساتھ ہی اگر کوئی ہمیں قانون کی خلاف ورزی کرتا دکھائی دے تو اس کی اطلاع پولیس یا پھر حکومت کے کسی اعلیٰ حکام تک پہنچائیں تو بہت سارے قانون شکن قانون کی گرفت میں آسکیں گے۔ آج ہمارے وطن عزیز میںجہاں لوگ ببانگ دہل ہر قسم کا ناجائزکاروبار کرنے سے گریز نہیں کرتے ، اگر ہم انہیں پولیس کے ذریعے کیفر کردار تک پہنچانے کی ٹھان لیں تواس خوفناک اور شرمناک رجحان کا خاتمہ ہو سکے گا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں ایک ذمہ دار شہری ہونے کاثبوت دینا چاہئے ۔جہاں کوئی غلط کام ہوتانظرآئے، ہمیں فوراً اطلاع کر دینی چاہئے تا کہ مناسب کارروائی ممکن ہو سکے اور اس جرم کا خاتمہ کیا جا سکے ۔ حکومت کی بھی یہ ذمہ داری ہے جب بھی کوئی قانون بنایا جائے تووہ اس پر سختی سے عملدرآمد ممکن بنائے کیونکہ قانون لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کے لئے بنائے جاتے ہیں اس لئے قانون کی پاسداری ضروری ہوتی ہے او رحکومت کسی بھی قانون پر سختی سے عملدرآمد کروائے تو یقینا ملک میں بڑے سے بڑے جرم کو روکا جا سکتا ہے۔ 
بدقسمتی سے ہمارے وطن عزیز میں قانون کی پاسداری کو لوگ اپنی توہین سمجھتے ہیں اس لئے قانون کی پاسداری کا رحجان ذرا کم ہی پایا جاتا ہے۔ خاص طور پر ٹریفک کے قوانین کو تو کوئی خاطر میں نہیں لاتا ۔ اس لئے حادثات بھی بے شمار ہوتے ہیں۔ ٹریفک کے اشاروں کو کھلے عام توڑناگویا فیشن بن چکا ہے۔ منچلے نوجوان بغیر لائسنس سڑکوں پر موٹرسائیکلیں اور گاڑیاں لئے دندناتے پھرتے ہیں اور کوئی ان کو پوچھنے والانہیںہوتا اور تو اور نہ ہی کوئی ہیلمٹ کی پابندی کو خاطر میں لاتا ہے۔ یہاں تک کہ ٹریفک لینز کا بھی سڑکوں پر خیال نہیں رکھا جاتا ۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ اس شعبے میںبھی کالی بھیڑیں ہیں جن کو صرف اور صرف اپنی ہی فکر ہوتی ہے اگر ان کا صفایا کر دیا جائے تو بے شمار مسائل کا خاتمہ ہو جائے گا۔ نوجوان موٹرسائیکلوں پر سوار ہو کر ہیوی ٹریفک کو غلط اوورٹیک کرتے ہیں اور پھر فخریہ انداز میں یہ جا وہ جا۔ اس طرح وہ اپنی جان بھی خطرے میں ڈالتے ہیں اور سڑکوں پر موجود دوسرے راہگیروں کی زندگیوں سے بھی کھیلتے ہیں۔ قوانین کی اس کھلی خلاف ورزی کی وجہ عوام میں قانون کی پاسداری کا شعور نہ ہونا یا پھر ان قوانین پر عملدرآمد کے لئے سختی نہ ہونا ہے۔ اس لئے قانون کے رکھوالوں کو چاہئے کہ وہ ٹریفک قوانین کی پابندی کے لئے سختی کرنے سے ہرگز گریز نہ کریں کیونکہ یہ قوانین عوام کے مفاد کے لئے ہی بنائے جاتے ہیںلیکن ہماری بدنصیبی ہے کہ ہمارے ہاں قانون اور ائین کی پاسداری ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ تمام مہذب قومیں اپنے ملک میں اپنے قوانین کا احترام کرتی ہیں۔ ہمیں بھی ایک مہذب قوم کی طرح قانون کی پاسداری کو یقینی بنانا چاہئے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ٹریفک کے اہلکار خود قانون کی پاسداری کریں۔ تب ہی عوام میں بھی شعور بیدار ہو گا او ر دونوں مل کر کام کریں گے۔ تب جا کر ہم ایک مہذب قوم کہلا سکیں گے لیکن افسوس ہمارے ٹریفک کے اہلکار تو قانون کی پاسداری کی بجائے اپنی ہی جیب گرم کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔
دھنک کے صفحے پر جو تصویر شائع کی گئی ہے وہ کراچی سٹی ریلوے کراسنگ کی ہے جہاں ٹرین کے سامنے دو رکشے گزر رہے ہیں۔ ایک رکشہ میں سواری موجود ہے جبکہ دوسرے رکشہ کا دروازہ بند ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہو رہا ہے کہ آیا اس میں سواری موجود ہے یا نہیں لیکن یہ منظر کتنا خطرناک ہے کہ کسی بھی لمحے ٹرین پٹری پر سے گزر سکتی ہے اور کوئی خطرناک حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔ کئی لوگوں کی زندگیوں کو ان رکشے والوں نے دا¶ پر لگا رکھا ہے۔ کہاں ہیں ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ؟جب انسانی زندگی ضائع ہو جاتی ہے تو یہ نیند سے بیدار ہوتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی بھی ملک یا معاشرے کی اقدار و تہذیب کی ترقی و خوشحالی میں قانون کا کلیدی کردار ہوتا ہے اور قانون کا بنیادی مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ معاشرے میں پیدا ہونے والے شر انگیز رحجانات اور ان سے پیدا ہونے والے تکلیف دہ عوامل کا تدارک کرکے پیدا شدہ خرابیوں کی مرمت کی جائے جو معاشرے میں توازن کو برقرار رکھ سکے۔ رسوم و رواج کی پاسداری تو سب ہی کرتے دکھائی دیتے ہیں خواہ وہ دنیا کو دکھانے کے لئے ہی کیوں نہ کرتے ہوں لیکن شاید وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ قوانین کا احترام معاشرے کے ہر فرد پر لازم ہے، یہ ہر فرد کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے ۔ چاہے اس فرد کا تعلق کسی بھی طبقے سے کیوں نہ ہو۔ اگر معاشرے میں قانون کی عملداری نہ ہوتو قانون کا احترام بھی مفقود ہو گا۔ معاشرہ ہمیشہ فرد سے ہی بنتا ہے اور فرد کی تربیت کا انحصار اس کے والدین اور اساتذہ پر ہوتا ہے ۔ اگر معاشرے میں اساتذہ اور والدین کا رویہ درست نہیں ہو گا تو یقینا ہماری نئی نسل کی پرورش بھی درست نہیں ہو گی۔ اس لئے اپنے بچوں کی تربیت پر ہمیں نظر رکھنی چاہئے کہ وہ بلا وجہ اپنی اور دوسروں کی جانوں کو کھلونا نہ سمجھیں۔ 
کسی بھی ملک کا سمجھدار شہری وہی ہوتا ہے جو قانون کا احترام کرتا ہے۔ کسی قوم کی تہذیب و تمدن کا اگر اندازہ لگانا ہوتو وہاں کی ٹریفک پر ایک نظر ڈال لینی چاہئے۔ ٹریفک قوانین پر عمل پیرا ہونے سے وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ حادثات کی روک تھام بھی ممکن ہو جاتی ہے۔ ایک تجزیے کے مطابق ہر سال انسانی دشمنی کے نتیجے میں اتنے افرادہلاک نہیں ہوتے جتنے ٹریفک حادثات میں مارے جاتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ لوگوں کی حفاظت کے لئے ٹریفک قوانین کو فعال بنائے اور وارڈن اسکیم کا اجراءکرے تا کہ لوگوں کی جانوں کی حفاظت ہو سکے۔ انسانی جان بہت قیمتی ہوتی ہے ۔جس گھر کا چراغ بجھتا ہے اس کا ندازہ تو وہی لگا سکتا ہے کہ اس کی دنیا کی کتنی بڑی دولت چلی گئی اس لئے حکومت کو چاہئے کہ ٹریفک کے قوانین پر عوام کو سختی سے عمل پیرا کروائے تا کہ ملک میں ٹریفک حادثات میں کمی آسکے۔
 

شیئر: