Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غریب،امیر ہوجاتے ہیں اور امیر غربت کا شکار

اُم مزمل۔جدہ
وہ بارش سے بچنے کے لئے تیز قدم اٹھارہی تھی۔ وہ اچانک سامنے والے درخت کے پیچھے سے راستے میں آگیا اورکہا ” دیکھو تو میں تمہارے لئے کیا لے کر آیاہوں۔تمہیں سرخ، سبز کانچ کی چوڑیاں نہیں مل رہی تھیں۔ گاﺅں میں رہنے سے آدمی ایسا ہی ناامید ہوتاہے کہ کبھی ایک چیز تلاش کرو تو شہر جا کر ہی وہ چیز ملتی ہے۔
وہاں قریب قریب موجوددرختوں کے تنے ذرا بلندی پر جاکر ایسے ایک دوسرے میں پیوست ہو گئے تھے کہ ان سے چھن چھن کر 
بہت کم دھوپ یہاں تک پہنچتی تھی اور اب بارش کی بوندا باندی بھی ایسی تھی کہ پتوں پر جلترنگ بجاتی بارش کے کسی وقت تیز ہوجانے کی اطلاع دے رہی تھی۔ وہ تیزی سے چلتی گھر کا فاصلہ کم سے کم کرتی جا رہی تھی۔ وہ ساتھ ساتھ چلتا چوڑیوں کی خریداری کی مزےدار کہانی 
سنا رہا تھا کہ میں نے تمہارے لئے ایک چھوڑایک درجن دکانوں کو چھان مارا۔جو چیزیں ہمارے گاﺅں میں اتنی کم کم سہولتوں کے ساتھ ملتی ہیں ،شہر میں ان کی ایک ساتھ کئی کئی دکانیں ہوتی ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ دینا بھر کی تمام جگہوں سے یہاں ہی آگئی ہیں۔میں نے بھی خوب وقت لگا کر دل سے تمہارے لئے یہ چوڑیاں خریدی ہیں۔
وہ اپنی ان تمام چیزوں کے بارے میں سوچے جارہی تھی جنہیں وہ صحن میں آسمان تلے صبح چھوڑآئی تھی۔ اگر بارش واقعی اچانک تیز ہوگئی تو سب کتابیں گیلی ہو جائیں گی۔ اس نے کہا کہ میں حویلی سے جلدی چھٹی لے کرآئی ہوں کہ میری کتابیں صحن میں چارپائی پر رہ گئی ہیں۔ گھر جاکر سب سے پہلے انہیں سمیٹنا ہے پھر دوسری چیزیں کمرے میں لے جانی ہیں۔
وہ پوچھنے لگا تم تو اپنی کتاب،کاپیوں کو قیمتی چیزوں کی طرح الماری میں بند کرکے رکھتی ہو، آج کیسے چارپائی پر چھوڑدیں؟ وہ بتانے لگی کہ چھوٹی بی بی نے اچانک جلدی بلوالیا کہ انہیں کوئی کام تھا۔ شہر سے انکے تایا کا بیٹا آیا ہوا ہے جس سے پچھلے سال منگنی ہوئی ہے۔ انہیں ان کی پسندیدہ چیزیں بنوا کر ان کے ساتھ شہر بھجوانا ہے۔ وہ پوچھنے لگاکہ تم تو اماں کے ساتھ دوسری حویلی میں کام کرنے جاتی ہو اور چھوٹی بی بی کی حویلی تو اتنی دورہے ، تم وہاں تک پیدل چل کر گئی ہو۔ اس کا ابھی کسی سے بات کرنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا کہ جب مزے سے گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی تو ایسا ہی لگ رہا تھا کہ میں نے دنیا فتح کر لی ہے۔ یہ چھوٹی بی بی کی پرانی سی گاڑی نہیں بلکہ چاند پر جانے والی چاند گاڑی ہو، وہ سوچتی تھی وہ غریب گھر میں ضرور پیدا ہوئی ہے لیکن ہمیشہ زندگی ایک حالت میں نہیں رہتی۔ غریب لوگ امیر بن جاتے ہیں اور امیر غربت کا شکار ہو جاتے ہیں،چھوٹی بستیوں کے لوگ بڑے شہروں میں جابستے ہیں ۔کوئی پستی سے اونچائی کا سفر طے کرلیتا ہے اور کوئی اونچائی سے پستی میں جا گرتا ہے۔ کوئی قیدی رہا ہوجاتا ہے اور کسی کی آزادی چھن جاتی ہے ،بیمار صحت مند ہوجاتا ہے اور صحت مند بیمار پڑ جاتا ہے ۔کبھی غریب گھرانے کا فردصدر بن جاتا ہے اور کبھی صدر کو چکی پیسنی پڑجاتی ہے ۔بے بس اور مظلوم کی دعا قبولیت کے درجے تک پہنچ جاتی ہے ۔
اس نے اسکی خاموشی کو اسکی کتابوں کو بارش سے بچانے کی فکر سے منسوب کیا۔ اسے چوڑیاں پہنانے کے لئے اس کا راستہ روکے سامنے آگیا اور بڑے استحقاق جتانے والے انداز میں کہنے لگاکہ ” تو میری بچپن کی منگ ہے اور اب منگنی کی بھی تیاری ہو رہی ہے۔ دل تو چاہتا ہے کہ منگنی کے بدلے شادی ہی کرالوں مگر ابھی مجھے اپنے پرانے قرضے اتارنے ہیں جو پہلے لئے تھے اور اس پرتو ہر سال سود کا بھی پیسہ اتنا چڑھ جاتا ہے اور پٹواری کہتا ہے کہ یہ تمہارے پاس جو رقم دی ہے اسکا ہر مہینے کا کرایہ ہے۔ بھلا سود کا نام کچھ بھی رکھ دو، وہ سود ہی رہتاہے۔ اصل میں تو یہ غریب لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کے مترادف ہے ۔
  بارش کی ہلکی ہلکی پھوار تیز ہونے لگی تھی کہ اچانک وہ کہنے لگا ابھی تو باپ کا قرضہ مجھ پر سے اترا نہیں اور روز بروز اس میں کمی کی بجائے سود بڑھتا جا رہا ہے۔ اس سال میں نے سوچا تھا کہ اپنی منگ کو اب اپنے گھر لے آﺅں گا۔ اسی لئے شہر بھی روزانہ سواری لیکر جانے لگا لیکن اب ان لوگوں نے بھی روزانہ کے حساب سے رکشے کا کرایہ ہم رکشہ چلانے والے لوگوں کا بڑھادیا ہے اب تو سارا دن محنت کرتا ہوں،جان ہتھیلی پر رکھے سواری کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے میں لگا رہتا ہوں۔ کبھی کبھی تو عین ریل گاڑی کے سامنے سے ایسے گزرتا ہوں کہ آج ہی میرا آخری دن آجائے، نہ میں زندہ رہوں گا اور نہ ہی میرے اوپر قرض کے سود کا بوجھ ہو گا لیکن پھر تیری یاد آجاتی ہے کہ دن بھر تو بھی کام کرتی ہے اور نماز پڑھ کر رب کریم سے دعا بھی کرتی ہے ۔ تیرا یقین بھی پکا ہے کہ دعا تو ضرور پوری ہوتی ہے، ہمیں تو بس وقت کا انتظار کرنا ہے۔
وہ نجانے کن سوچوں میں گم بارش کے پانی کو اپنی ہتھیلی میں جمع کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور اسکے دونوں ہاتھوں سے بنے پیالے سے پانی اپنا راستہ بنائے جاررہا تھا۔ وہ اس راستہ بناتے پانی پر نگاہ جمائے کہنے لگی کہ ” دیکھو تو اس پانی کے دھارے کو، کیسے اپنا راستہ بناتا جارہا ہے۔ ایسے ہی اپنا راستہ بناتے جاﺅ اور اس بات کو ضرور ذہن میں رکھو کہ مالک حقیقی نے ہمیں کتنی ہی نعمتیں عطا فرمائی ہیں ۔ ہم چل سکتے ہیں، سن سکتے ہیں اور سوچ سکتے ہیں۔ ایمان کے بعد عافیت سب سے بڑی نعمت ہے ۔انسان صحت مند ہو اور زندگی کا شعور بھی رکھتا ہو اس سے بڑی بات اور کیا ہو گی؟ اپنی زندگی کو یوں بیکار نہ سمجھو ۔
وہ کہنے لگا کہ چند دن پہلے لڑکوں کا ایک ٹولہ آیا اور کہنے لگا کہ تم لوگ تو کافی تجربہ کار ہوگئے ہو۔ اگر ہمارے بتائی ہوئی جگہ پر ریس لگاﺅ تو ہم تمہیں اس کے لئے پیسے بھی دیں گے اور مختلف سائٹس پر تمہاری تصویریں بھی لگائیں گے لیکن ایک وعدہ کرنا پڑے گا کہ اگر ایکسیڈنٹ ہوگیا اور تم معذور ہوگئے تو اس کی ذمہ داری ہم لوگوں پر نہیں ہوگی اور نہ ہی ہم تمہارا علاج کروائیں گے۔
وہ اس روح فرسا بات کو سن کر کہنے لگی کہ کبھی ایسا کام نہ کرنا۔ وہ فوراً بولاکہ سچ تو یہ ہے کہ ان کی طرف سے انعام میں دی جانے والی رقم کاسوچ کر ہی منہ میں پانی بھر آیا تھا لیکن جب تصور میں دوسرا منظرنظر آنے لگا کہ ابھی تو میں صحت مند ہوں، جی جان سے دن رات محنت کر رہا ہوں۔ ان کی باتوں میں آگیا تو پیسے شرط کے ساتھ ہونگے جو اچھا نہیں ہو گا اور اگر کوئی معذور ہو گیا تو ساری زندگی اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ رہ سکے گا ۔ایسے میں وہ گھر والوں کا کیا خیال رکھ سکے گا؟ 
وہ اب مطمئن انداز میں اس کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ میں تو تجھے جھلا سمجھتی تھی پر تو تو بڑا ہوشیار نکلا۔ وہ گلا پھاڑ کر زور زور سے ہنس رہا تھا اور کہہ رہا تھاکہ جس کی گھر والی تجھ جیسی استانی ہو وہ بھلا بے وقوفی کا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے؟
جاننا چاہئے کہ دین سے دوری مصائب کا سبب ہے۔ 
 

شیئر: