Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسانی کردار کومتنازعہ بنانے والاقول و فعل کا تضاد

عنبرین فیض احمد۔ ینبع
آپا آپا جلدی آئیے یہاں پر منے اور عمرانہ کی زبردست لڑائی ہورہی ہے۔ عمرانہ بری طرح سے چیخ اور رو رہی ہے۔امی امی منے نے میری گڑیا توڑ ڈالی۔ پہلے تو اس نے میری پینٹنگ پھاڑ دی تھی۔ نہیں نہیں پہلے اس عمرانہ کی بچی نے میری پنسل کو دانتوں میں لے کر چبایا تھا پھر لڑائی شروع ہوئی تھی اور پھر میری کاپی پر کارٹون بھی بنایا تھا۔ 
دونوں بچوں نے مل کر مجھے پاگل بنا ڈالا ہے۔ ہر لمحہ لڑائی اور فساد، ذرا ذرا سی بات پر جھگڑا، پتہ نہیں ان دونوں کو کیا دشمنی ہے ایک دوسرے سے ۔ مل کر کیوں نہیں رہتے۔ نہیں نہیں امی جان یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ پہلے منے نے میری کہانیوں کی کتاب کے ورقے پھاڑ کر رکھ دیئے تھے۔ امی جان نے آتے ہی دونوں بچوں کی پٹائی لگائی او رپھر دونوں کو چُپ کرا دیا۔ برائے مہربانی چپ ہو جا¶،کیا ہو گیا ہے تم دونوں کو، ہر وقت لڑتے رہتے ہو۔ ہروقت تکرار ہوتی رہتی ہے۔ ہر لمحہ بات بات پر جھگڑا اور پھر معمولی معمولی باتوں پر گھر میں ایک فساد کھڑا ہو جاتا ہے۔ تم لوگ عقل کے ناخن کیوں نہیں لیتے ؟ اب تم دونوں بچے نہیں رہے۔ تم سگے بہن بھائی ہو مگر اتنی اتنی باتوں پر ایسے لڑائی کرتے ہو جیسے ایک دوسرے کے جانی دشمن ہو ۔تمہیں کتنی دفعہ سمجھایا تھا کہ مسلمان کبھی اپنے بھائی سے نہیں لڑتا۔ تم لوگوں نے وہ کہانی تو سنی ہو گی جس میں ایک جنگ کے دوران تین زخمی مسلمان سپاہی دم توڑ رہے تھے لیکن ان کے پاس پانی اتنا نہیں تھا کہ تینوں پی سکتے لہٰذا تینوں ہی بغیر پانی پئے جاں بحق ہو گئے مگر کسی نے گوارہ نہ کیا کہ وہ پہلے پانی کا ایک گھونٹ پی کر اپنی جان بچا لیتا اور دوسرے بھائی کو مرنے دیتااور ایک تم لوگ ہو کہ ایک چیز کے لئے اس طرح لڑ رہے ہوجیسے ایک دوسرے کا گلا ہی کاٹ دو گے۔ کب تم لوگوں کو شرم آئے گی کہ چند پیسوں کی چیزوں کے لئے جھگڑنا شروع کر دیتے ہو۔تمہاری نظر میں بھائی بہن کی محبت کی کوئی اہمیت نہیں حالانکہ بھائی بہن کی محبت تو اتنی قیمتی شے ہے کہ اس کے سامنے ان چیزوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ یہ دنیاوی چیزیں تو دو دن میں اپنی اہمیت کھو دیتی ہیں مگر بہن بھائی کا مقدس رشتہ تو ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ کیا ہزاروں روپے خرچ کر کے کوئی بہن اپنے بھائی کو خرید سکتی ہے؟ نہیں ناں ۔
دوسرے دن ان خاتون کا چھوٹا بھائی بڑا پریشان حال اپنی بہن کے پاس آیا او رکہا کہ آپا آج میں تمہارے پاس بڑا مان لے کر آیا ہوں ۔ مجھے پوری امید ہے کہ تم میرا مان نہیں توڑو گی کیونکہ بہنیں ہمیشہ بھائیوں کے پیار پر سب کچھ قربان کر دیتی ہیں۔ 
خاتون نے کہا ہاں ہاں کہو کیا بات ہے۔ آپا مجھے بزنس میں زبردست نقصان ہوا ہے او رمیری چھوٹی بیٹی کی شادی بھی سرپرہے۔ میرے پاس اسے دینے کے لئے پھوٹی کوڑی تک نہیں ۔ اس کے سسرال والے جہیز کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ اگر آپ کچھ رقم کا بندوبست کر دیں تو میں تمام عمر آپ کا احسان مند رہوں گا اور جلد از جلد آپ کی رقم بھی لوٹانے کی کوشش کروں گا۔ یہ سنتے ہی خاتون کے تو جیسے ہاتھوں کے توتے ہی اُڑ گئے ۔ وہ بولیں، ارے واہ! خوب کہی۔ بجائے بہنوں کو دینے کے، بہن سے لینے چلے آئے۔ میرے پاس کیا دیکھ لیااگر ہمارے گھر میں دولت ہے تو اس کاکیا مطلب ہے کہ میں لوگوں میں بانٹتی پھروں۔ میرے ہاں بھی بیٹی ہے۔ میں کس بل پر اتنا بڑا خطرہ مول لوں۔آخر کل کو مجھے بھی ضرورت پڑسکتی ہے اور پھر ادھار تو محبت کی قینچی ہوتی ہے۔ 
مگر آپا ابھی کل ہی کی تو بات ہے ،آپ بچوں کو بتا رہی تھیں کہ ہزاروں روپے خرچ کر کے بھی کوئی بہن، بھائی کی محبت کو نہیں خرید سکتی۔
خاتون نے جواب دیا کہ ہاں بھئی! بچوں کو لڑائی جھگڑے سے بچانے کے لئے ایسی ایسی مثالیں دینا بہت ضروری ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں ہوتا کہ ہم بھی بچے بن جائیں اور اپنی سمجھ وعقل سے عاری ہو جائیں۔ اپنا اچھا برا سمجھے بغیر دوسروں کو اپنی دولت پکڑا دیں ۔ جا¶ بھئی کہیں اور سے اپنا بندوبست کرو۔میں اتنی بیوقوف بھی نہیں کہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے نشیمن کو آگ لگا دوں۔ آج تم ادھار مانگنے چلے آئے، کل معاف کروانے بھی چلے آ¶ گے تو میں تمہارا کیا بگاڑ لوں گی۔ بہن بھائی کا رشتہ تو اپنی جگہ لیکن لین دین بھی اپنی جگہ۔ منا بھی وہیں پر کھڑا تھا، کہنے لگا کہ امی آپ کل ہی تو ہمیں بھائی بہن کی محبت پر اتنا لیکچر دے رہی تھیں۔ آج آپ کو کیا ہو گیا ہے۔ 
ہمارے معاشرے میں بہت سی ایسی اخلاقی اور معاشرتی خرابیاں ہیں جو ہماری روایات کو گھن کی طرح چاٹ کر معاشرے کو ختم کر رہی ہیں۔ ان برائیوں میں سے ایک ہمارے قول و فعل میں پایاجانے والاتضاد بھی ہے۔ اس تضاد سے انسانی کردار متنازعہ ہو کر رہ جاتا ہے اور جھوٹ وغیبت جیسی بڑی قباحتیں نہ چاہتے ہوئے بھی انسانی کردار کا حصہ بن جاتی ہیں۔
اگر ہم ایک ایک کر کے تمام شعبہ ہائے زندگی کاجائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ خرابی ہماری زندگی کے کاروبار اور معمولات سمیت ہر چھوٹی چھوٹی معاشرتی اکائی سے لے کر بڑی سے بڑی اکائی کے گرد اپنا مضبوط حصار قائم کئے ہوئے ہے جو ہمارے لئے بہت ہی شرم کا مقام ہے۔ 
 
 

شیئر: