Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یہ مرد کیوں اپنی ذہنیت نہیں بدل سکتا

سوشل میڈیا پر دوستی شروع ہوئی  اور ایک ممتاز ادیب نے خاتون سے بات کرتے ہوئے اچانک ہی پٹری تبدیل کرلی، اسے ایسا لگا جیسے آنکھوں میں کسی نے مرچیں بھر دی ہوں، کافی دیر وہ اس پیغام کو دیکھتی رہی
سیمیں کرن۔ فیصل آباد
’’میں آپکا اِنتہائی شکر گزار ہْوں کہ آپ نے میری فرینڈ ریکوسٹ acceptکرلی۔آپ جیسی شخصیت کو اپنے دوستوں میں شامل دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوگی‘‘
فہیم راشد کی طرف سے پیغام پڑھ کرصبوحی اشرف نے تیزی سے ٹائیپنگ کے لیے کی پیڈ پر اْنگلیاںچلائیں۔
’’ارے فہیم راشد صاحب ،کیوں شرمندہ کرتے ہیں؟دراصل یہ توخود میرے لیے باعثِ عزت ہے کہ آپ جیسی علمی ادبی اور مشہور عالم شخصیت سے بات کرنے کا موقع مِل رہا ہے اور آپ نے مجھے اپنے حلقہ احباب میں شامل کرکے یقینا میری عزت افزائی کی ہے‘‘
فہیم راشد کی طرف سے جوابی پیغام آیا!
’’دراصل میں خود بہت کم کِسی کو حلقہ احباب میں شامل کرتا ہوں ،میرے اپنے فینز اور دوستوں کی تعدادمیں نہ چاہتے ہْوئے بھی روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے گو کہ میں اِس معاملے میں کافی محتاط پسند واقع ہْوا ہوں۔بس اِک دِن اچانک اِتفاقاً ہی آپکے پروفائل پہ نظر پڑگئی اور آپکی قابلیت و شاندار شخصیت،تعلیم و مشاغل اور آپکے عمدہ ادبی ذوق نے بڑا متاثر کیا اور میں خود کو روک نہیں پایا‘‘
صبوحی اپنی اِس قدر تعریف پر جھینپ بھی گئی اور قدرے متاثر بھی ہوئی،یوں لگا فہیم راشد نے بات کو موڑا تھا،اْس نے دِل میں سوچا ’’اتنی بڑی شخصیت اور اِس قدر عاجزی اور انکساری کہ اپنی تعریف پر بات ہی بدل دی ’’بلا شبہ وہ اپنے ملک کے اِیک مایہ ناز ادیب تھے۔
فہیم راشد کی طرف سے پیغام آیا’’اچھا تو آپ درس و تدریس سے منسلک ہیں خوب اور کیا کرتی ہیں؟
بہت کم فیس بْک پر نظر آتی ہیں؟کافی عرصے بعد ریکویسٹ کا جواب آیا؟‘‘
صبوحی نے جواب لکھنا شروع کیا!
’’جی جاب اور گھرداری کے بعد وقت ہی کہاں بچتا ہے؟’’آپ سمجھ سکتے ہیں!‘‘
فہیم راشد کی طرف سے کچھ دیر کے بعد جواب مِلا! 
’’جی میں سمجھ سکتا ہوں خواتین پر دوہری ذمہ داریاں آجاتی ہیں جب وہ دونوں محاذوں پر سر گرم ہوں‘‘
صبوحی اشرف نے صِرف ’’جی‘‘پر اِکتفا کیا۔وہ مقامی کالج میں معلم تھی۔ سِول سوسائٹی کا اِک رکن ،رکْن فعال جو بغیر کِسی نمود و نمائش کے خاموشی سے وقت کے کشکول میں اپنے حصے کے سِکے گراتے چلے جاتے ہیں۔یہ فیس بْک کا سِلسلہ بھی اِسی سِلسلے کی ضرورت کے تحت بنایا گیا تھا اور پھر اْس کے ساتھ کچھ اچھے  سنجیدہ  لوگ دوستوں میں شامل ہونے لگے۔ اْن سے اچھی اور عِلمی گفتگو اِک پْر لطف تجربہ بن گیا اور یوںیہ سِلسلہ ضرورت کے عِلاوہ فراغت و لطف کا ذریعہ بھی ٹھہرا۔فہیم راشد سے پہلی تعارفی گفتگو نے اچھاتاثر چھوڑا ،کچھ دیر کی رسمی گفتگو کے بعد  صبوحی آن لائن ہوئی تو فہیم راشد بھی آن لائن تھے۔تھوڑی دیربعد اْن کا میسج چمکا ’’آہا۔ آج تو آپ بھی موجود ہیں بڑے عرصے بعد نظر آئیں‘‘
صبوحی نے جواب بھیجا’’جی آپ جانتے توہیں دوہری مصروفیات‘‘
فہیم راشد نے لکھا ’’جی شادی تو خود باقاعدہ اِک اِدارہ ہے‘‘
’’اچھا تو کیا کرتے ہیں آپکے صاحب ؟‘‘
’’جی وہ بزنس مین،  ہیں ایکسپورٹ ا مپورٹ کا بزنس ہے سو اکثر و بیشتر  ملکی دوروں پہ ہوتے ہیں‘‘
گڈ بڑا اچھا لگا یہ جان کر اور کِتنے بچے ہیں آپکے ؟
’’جی ماشااﷲ دو بچے ہیں میرے ،بیٹا میڑک میں اور بیٹی آٹھویں میں‘‘
چلئے آپکے بارے میں جان کر خوشی ہوئی ،آپ نے لکھا کہ آپکا تعلق لاہور اور لائلپور یعنی موجودہ فیصل آباد سے ہے یہ دونوں شہر میرے دِل میں بستے ہیں‘‘
صبوحی نے کی بورڈ پر ااْنگلیاں چلائیں!
’’اچھا یہ سْن کر بڑی تقویت ملی بلکہ یوںکہیے کہ میرے اندر کے متعصبِ پاکستانی کو اِک راحت مِلی،
فہیم راشد نے یہ پڑھ کر اِک بڑا سا ’’اسمائل فیس ‘‘بھیج دیا ۔
صبوحی کی اْنگلیاں پھر چلنے لگیں!
’’اچھا تو آپکا تعلق لاہور اور فیصل آباد سے ہے ،فیصل آباد میرا ننھیالی شہر ہے اور لاہور میں ددھیال اور اَب میرا سْسرال ہے…سو لاہور میں میری جڑیں بہت گہری ہیں‘‘
فہیم راشد کی طرف سے پیغام آیا:
’’اور میری طرف یہ ترتیب اْلٹی ہے ،آپکا فیصل آباد اور میرا لائلپور میرا آبائی دودھیالی شہر جہاں میں نے آنکھ کھولی اور میری اماں لاہور سے تھیں سو بچپن میں اْنکے ساتھ لاری یا ریل میں بیٹھ کر جایا کرتا تھا۔یہ تقسیم سے پہلے کی باتیں ہیں تب تو آپ پیدا بھی نہیں ہوئی ہوں گی پھر تقسیم نے آپکو اِدھر اور ہمیں اْدھر کر دیا‘‘
صبوحی نے جواب ٹائپ کیا اِک سمائل کا سائن بنایا ’’ارے تب تو میری والدہ بھی پیدا نہیں ہوئی تھیں۔‘‘
فہیم راشد نے جواب میں اِک قہقہہ بھیجا اور صبوحی آنے والے پیغام کو دیکھنے لگی۔
’’اِسکا مطلب ہے تم تو اِک جوان لڑکی ہو ابھی ،مجھ سے تو کافی چھوٹی ہوئیں پھر تو تم کہہ سکتا ہوں تم کو‘‘
صبوحی کے پھیلتے لب پیغام پڑھ کر سکڑ گئے۔
’’لڑکی نہیں اِک اْدھیڑ عمر خاتون ،بڑے ہوتے بچوں کی ماں اور باہمی عِزت کے لیے عمر تو بڑی غیر اہم شے ہے۔میرے گھر میں تو چھوٹے سے بچے کو بھی ’’آپ ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے‘‘
پیغام کافی تیکھا تھا اور فہیم راشد نے کْرسی پر بے چینی سے پہلو بدلا
’’تمھارے نکھرے سْتھرے خیالات جان کر بڑی خوشی ہوئی مگر یہ بھی تو دْرست ہے کہ القابات و آپ جناب دِلی احترام کے عکاس تو نہیں ہوتے ،اَب جب لڑکیوں کو گھر کی خواتین کو ہمارے ہاں پنجاب میں بزرگ ’’کڑیے‘‘کہہ کر بْلاتے ہیں تو کیا بے تو قیری ہوئی اور باہمی احترام مقصود نہیں ہوتا۔‘‘
صبوحی کے تنے اعصاب کچھ ڈھیلے پڑ گئے اور جواب میں اْس نے جی کے ساتھ اِک مسکراہٹ بھیج دی۔
فہیم راشد کی طرف سے جو پیغام آیا ،لکھا تھا!
’’اِک تو تم آج کل کے جوان جلد باز بہت ہو‘‘صبوحی اِک دم آسودہ سی ہوئی اور ’’شر مندہ ہوں‘‘کے 
ساتھ اِک’’ قہقہہ ‘‘بھیج دیا۔
اْس کے بعد کبھی کبھار ہْوا کہ وہ دونوں اکٹھے آن لائن ہوئے ،گفتگو ہوئی تو فہیم راشد سے یہ بات چیت بڑی اچھی رہی۔
مہذبانہ انداز و اطوار،گفتگو میں علمیت اور بے تکلفی کی سر حد کو زرا سا چھْو کر آتا کھْلا پن جِس کو صبوحی نے اْنکے شعبے اور پیشے کا مزاج سمجھ اور جان لیا کہ اْس گفتگو میں یادیں،حسرتیں،ماضی کے جھروکے تھے خاص طور پر جب وہ لکھتے:
’’تم اْس شہر میں بستی ہو جو میرے دِل کے بے حد قریب ہے سو تم بھی مجھے بہت عزیز ہو‘‘
اِن جملوں میں اِک خاص حِسی تعلق جو شہر کی نسبت سے اْبھرتا مگر عمومی طور پر اْسکے لیے اِک بزرگانہ شفقت لیے جملے ہوتے ۔
اور صبوحی کے لیے اِن جملوں میں چھْپے احساس و درد کو سمجھ لینا کوئی اِتنا بھی مشکل نہ تھا یا شاید اْسکے سادہ و پرْ خلوص دِل کا شیشہ ہی اِتنا صاف تھا کہ لفظ اْسکے سامنے تصویریں بن جاتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ جب کبھی وہ آن لائن ہوتی اور فہیم  راشدصاحب بھی موجود ہوتے تو اْن کے درمیان اچھی گفتگو ہوتی ۔اِک باہم مکالمہ تھا جو تدریجی مراحل سے گزررہا تھا۔۔۔اور یہ طے تھاکہ فہیم راشد کی گفتگو علمی اور دِلچسپ ہی نہ ہوتی بلکہ محققانہ و مدبرانہ انداز بھی جھلکتا جو صبوحی کو بھلا لگتا اور اْس کے پوچھے گئے سوالات کے احسن جواب مِلتے اور وہ جو شروع میں اْنکے انداز میں کچھ بے تکلفی کھلی تھی اْسے ،اْس نے جانا کہ شاید یہ مزاج کا حصہ تھا ورنہ وہ اِنتہائی مہذب،سلجھے ہوئے آدمی تھے، دانشور تھے ،اِک بڑے قد کاٹھ کے ادیب تھے۔ اْن سے بات چیت ہونے کے بعد وہ اْنکی کِتابیں بھی خرید لائی اور جب اْنکو پڑھا تو مزید اْنکی قائل ہوگئی۔اِک عِلم کا بہتا دریا تھا،خیالات و مزاج کیفیت میں وہ سلجھا ئو تھا کہ اْسکو پختہ یقین ہوگیا کہ فہیم راشد اِک اِنتہائی نفیس اور سلجھے ہوئے اِنسان ہیں، اپنی تحریرکے ظاہر و باطن کی مانند!۔ بدلتے موسم دروازوں ،کھڑکیوں پر ٹھنڈی خشک ہواوْں کی دستک دینے لگے اوریہ موسم تو صبوحی پر ہمیشہ ہی بہت بھاری ہْوا کرتا تھا۔
وہ بیمار پڑگئی۔اِک طویل عرصہ گزر گیا آن لائن ہوئے۔کِسی سے بھی کوئی رابطہ کیے ،دو ماہ اِسی طرح گزر گئے۔سردی شدید تھی، وہ پژمردہ سی خاموشی سے کمبل میں دبکی پڑی تھی کہ اْسکی بیٹی نے اْسے زبردستی اْٹھایا اورپیار سے بولی ’’اْٹھیں مما ،کچھ فریش ہو جائیں،چائے پیتے ہیں اور ساتھ میں فیس بْک آن کرتے ہیں‘‘
تبدیلی کے خیال سے اْسکا بھی دِل کچھ بہل سا گیا،بیٹی جھٹ پٹ دو کپ چائے بنا لائی۔بچے اکثر اْسکے ساتھ ہی بیٹھ جایا کرتے تھے اور اکثر اچھے عِلمی ادبی سوالات ومکالمے سے لطف اندوز ہوتے تھے اْسکی زندگی کے سب گوشے میاں اور بچوں پر کھلی کِتاب کی مانند تھے وہ توسادہ سی بس عِلم پر ور عورت تھی۔
بیٹی کچھ دیر اْسکے پاس بیٹھی رہی ،اپنی دوستوں کو پیغامات چھوڑے ،بچے بھی اْسی کا اکائونٹ اِستعمال کرتے تھے الگ سے اِجازت نہیں دی تھی اْس نے  ۔وہ اِیک سمجھدار و زمہ دار ماں تھی۔جب بچی نے دیکھا کہ ماں مصروف ہو گئی اْٹھ کر بیٹھ گئی تو وہ اْٹھکر چلی گئی ۔اْسکا مقصد ہی یہ تھا کہ ماں کو بستر میں سے نِکالے اور اْسکا دھیان بٹائے ۔
صبوحی نے بہت سارے پیغامات کے جواب لکھے۔ ابھی وہ جواب دینے میں ہی مصروف تھی کہ فہیم راشد آن لائن ہوئے اور کچھ دیر بعد اْن کا پیغام آیا
’’ارے بھئی کہاں غائب ہوگئیں؟مجھے نہیں پتہ تھا کہ سردیوں میں تم زیر زمین چلی جائو گی‘‘
جملہ معنی خیز اور عِلمی تھا۔ صبوحی کا جی خوش ہو گیا۔۔۔
اْس نے ’’جی کے ساتھ صِرف اِک قہقہہ روانہ کیا اور لکھا !
’’سردی بھی تو خوب پڑ رہی ہے۔آپ کے ہاں بھی تو یہی موسم چل رہا ہے ،بس بیمار کر دیا مجھے تو اِس موسم نے ‘‘جواب آیا ’’ہاں یہ تو ہے،موسم تو سرد ہے ،سرد موسم میں اپنا خیال رکھو میں تو پریشان تھا کہ کہاں غائب ہو گئیں؟‘‘
صبوحی نے کی پیڈ پر اْنگلیاں چلائیں’’مجھے بھی آپ سے بات کر کے خوشی ہوئی۔‘‘
فہیم راشد کا پیغام آیا ’’اور سردیاں کیسی گزر رہی ہیں‘‘صبوحی نے لکھا’’ہا ہا ہا کمبل میں‘‘
فہیم راشدگویا ہوئے’’ پھر کچھ معنی خیز جملے اداکئے۔۔۔
صبوحی کے لیے یہ پیغام گویا کچھ لفظ نہیں تھے یوں لگا جیسے آنکھوں میں کِسی نے مرچیں بھردی ہوں،وہ کچھ دیر حق دق اِس پیغام کو دیکھتی رہی پھر لکھا
’’آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟مطلب کیا ہے آپکا؟‘‘
فہیم راشد زرا سنبھل گئے جیسے:
’’میرا مطلب ہے میاں  صاحب کہاں ہیں۔۔۔
صبوحی پر تو جیسے اِن الفاظ نے کسِی  بم کا سا اثر کیا اور اْسکے پر خچے اْڑگئے۔ اْس نے لب بھینچے؛
’’فہیم راشد صاحب زرا سنبھل کر،میں اِک حد سے زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتی آپکو اِتنے عرصے میں اچھی طرح اندازہ ہو گیا ہو گا اور میں بہت بور اور خشک قِسم کی اِنسان ہوں۔ مجھ سے تو اِس بے تکلفی سے میری سہلیاں بھی بات نہیں کر سکتیں‘‘
فہیم راشد کی مردانہ یا عالمانہ انا کی دم پر جیسے پائوں آگیا ،جوابی پیغام جوآیا
’’اِتنی ہی بور اور خشک ہو تو یہ بچے کہاں سے آ گئے ؟‘‘
صبوحی کے منہ پر جو طمانچہ پڑا تھا اِسکا جواب اِس سے بڑا تھپڑ تھا ۔۔وہ شخص اگر بھول گیا تھا کہ وہ کون ہے تو وہ کیوں یا د رکھتی۔
اْس نے اِنتہائی سرد لہجے میں لکھا
’’ویسے ہی آگئے جیسے میں اور تم اپنے ماں باپ کے گھر آئے تھے‘‘
یہ کہکر فہیم راشد کوd unfrienکرتے ہوئے اْس نے بہت تکلیف اور دْکھ سے سوچا
مرد کیوں اپنی ذہنیت نہیں بدل سکتا۔۔۔۔
********

شیئر: