Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جسے ترقی کا ضامن سمجھا وہ دھوکہ نکلا،اے کاش میں سمجھ سکتی

معاشرے  کی بے خبر سوئی ہوئی خواتین پر افسوس ہوتا ہے جو انجانے میںاپنی نسل کو گمراہی کی جانب دھکیل رہی ہیں
 ناہیدطاہر -- ریاض 
  انجان شہر۔۔۔اجنبی راہ۔۔۔۔ منزل کا  پتہ نہ کوئی امیدِ رسائی۔۔۔! بس وہ دوڑ رہی تھی ، شدتِ پیاس سے گلا بری طرح خشک ہوگیا جسم میں کوئی سکت بھی باقی نہ رہی تو وہ  لہرا کر زمین پر گر گئی، آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا،کئی ساعتیں گزر گئیں ، اچانک فرشتے کی شکل میں ایک سایہ نمودار ہوا جو اس کے قریب چلا آیا۔۔ ،وہ  اسے جھنجھوڑ نے لگا۔اس سائے کا شفیق لمس، وہ اپنی ٹوٹتی سانسوں کے درمیان   محسوس کررہی تھی۔
پ۔۔ا۔۔ن۔۔ی۔۔۔۔۔۔پانی۔۔۔!!! وہ بہ مشکل گویا ہوئی۔ مہربان سائے نے  پانی کی بوتل اس کے خشک ہونٹوں سے لگائی اور وہ ایک ہی سانس میں سارا پانی پی گئی۔  سائے نے اس کی نم وسرد کلائی کو اپنے ہاتھ میں تھام کر دھیرے سے بھینچا جیسے لڑکی کو تحفظ کا احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہو۔ 
 گھبراؤ نہیں بیٹی۔۔۔۔! میں تمھارے ساتھ ہوں۔۔۔!!!نہایت مخلص لہجہ تھا۔جواب میں وہ لڑکی بے اختیار رونے لگی۔  
  رونا نہیں۔۔۔۔۔۔یہ بزدلوں کا کام ہے۔۔۔۔!کچھ بتاؤ تو سہی تاکہ میں تمھاری  مدد کر سکوں۔۔۔ !  
 آنٹی میں اس شہر میں اجنبی ہوں۔۔۔۔۔! 
ھممم۔۔۔۔۔!چاہو تو تم  میرے گھر چل سکتی ہو۔۔۔۔ورنہ میں تمھیں قریب کے کسی پولیس اسٹیشن پہنچا دوں گی۔جہاں بہتر انداز میں تمھاری مدد کی جائیگی۔   
نہیں۔۔۔۔ہرگز نہیں!وہ خوف سے لرزنے لگی۔ مریم  نے آگے بڑھ کر اس لڑکی کی کلائی تھامی اور اپنے ہمراہ کرتے ہوئے سڑک کے کنارے چل دیں۔ 
وہ ایک چھوٹا سا مکان تھا۔۔۔ جس کے درو دیوار کافی خستہ اور بوسیدہ نظر آرہے تھے۔  گھر میں داخل ہونے کے بعد مریم شفقت بھرے لہجے میں گویا ہوئیں 
لڑکی۔۔۔۔! تمھیں ڈرنے کی قطعی ضرورت نہیں ، تم یہاں پوری طرح محفوظ ہو۔
میرا نام یاسمین ہے۔وہ نقاہت بھری آواز میں کہتی ہوئی مسکرائی۔
تمھاری مسکراہٹ بہت حسین ہے۔
یاسمین یہ سن کر پژمردہ انداز میں دوبارہ مسکرااٹھی 
  آنٹی !گھر اور تحفظ۔۔۔۔۔!  اس بات کا مفہوم اور اہمیت آج جان پائی ہوں۔۔۔۔۔میں نے ہمیشہ اسلام کے احکام اور چہار  دیواری کو عورت کے حق میں ،ظلم اور قید تصور کیا تھا۔۔۔مجھے لگتاتھا، پردے کے نام پر عورت کی آزادی کو طوق پہنا کر نظر بند کیا جاتا ہے۔۔۔۔!!!جہاں وہ آنسو، آہوں اور بے کسی کی زندہ لاش بن کر جینے پر مجبور ہوجاتی ہے۔  اچانک  وہ  سسکیاں لیتی ہوئی مریم کے قدموں میں بیٹھ گئی اور گڑگڑانے لگی۔
   کیا آپ مجھ بد نصیب کو پناہ دیں گی ؟۔ مریم  نے یاسمین کا بازو  تھام کر اٹھا یا اور گویا ہوئیں۔ گھبراؤ نہیں ! جب تک چاہو یہاں رہ سکتی ہو۔۔۔لیکن ایک شرط پر۔۔۔۔! 
شرط۔۔۔؟ 
  تمھیں وعدہ کرنا ہوگا کہ تم صوم و صلاۃ کی پابند رہوگی،کیونکہ جب تم ایک مسلمان کے گھر  ر ہوگی تو یہاں  کے  آداب اور اصول کا اتباع کرنا بھی لازمی ہے۔  
یاسمین شرمندگی سے گویا ہوئی۔میں نے پی۔ایچ۔ڈی کی ، دنیاوی تعلیم حاصل تو کرلی مگر افسوس۔۔۔۔۔۔اسلام کی بنیادی تعلیم سے ناواقف ہوں۔۔۔۔۔!  
  یاسمین۔۔۔۔! یہ ہماری قوم کابہت بڑا سانحہ ہے کہ آج کا مسلمان کس راہ پہ گامزن ہے۔۔۔۔۔اس بات کی ہمیں کوئی فکر ہے نہ احساس۔۔۔۔۔۔۔! 
 خیر میں تمھاری بہتر رہنمائی کی پوری کوشش کروں گی۔۔۔۔تم اپنے بارے میں  کچھ تفصیل بتاؤ۔
کاش میری والدہ آپ جیسی دیندار خاتون ہوتیں ،آج میری زیست کا سفینہ یوں   بھنور میں ہچکولے نہ کھارہا  ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
 آنٹی ، ممی بہت مصروف ہستی تھیں۔۔۔۔     انھوں نے  میری نگہداشت  کے لئے  ایک غیر مذہب آیارکھ چھوڑی تھیں، ایک ننھے پودے کی جن ہاتھوں سے آبیاری ہوئی اس کا نتیجہ یہ نکل آیا کہ اس کے  پھلوں میں مٹھاس کی جگہ تعصب و کڑواہٹ نے لے لی   ،میں نے اسلام کے احکام ، شریعت کو غلط سمجھا۔۔۔۔۔اسی کڑواہٹ کے زیراثر  ایک غیر مذہبی لڑکے سے بیاہ کا فیصلہ بھی کیا جب والدین نے اس بات کی مخالفت کی تو گھر سے فرار ہو گئی۔ افسوس تقدیر کا برگشتہ ، میں دھوکہ اور فریب کے چکر میں بْری طرح اْلجھتی چلی گئی۔میں نے جسے اپنا شریکِ سفر بنانا چاہا وہ کسی ایسی تنظیم سے وابستہ تھا جن کا مقصد مسلمان گھرانوں کی بھولی بھالی لڑکیوں کو    پھنسا کر شادی   انجام دینا ہوتا ہے،یہ تنظیم نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے طور پر لڑکوں کو بے شمار عنایتوں سے نواز رہی ہے۔  معاشرے میں مذہب کے نام پر اس طرح کے گھناؤنے کھیل بھی کھیلے جارہے ہیں۔۔۔۔ اس بات کا مجھے کوئی  علم نہیں تھا۔ پتہ نہیں کتنی معصوم لڑکیاں اس جعل سازی کی شکار ہورہی ہیں۔۔۔۔۔۔اس لڑکے کے چنگل سے بہت مشکل سے فرار ہوئی ہوں۔۔۔۔۔ اتنا کہہ کر یاسمین دوبارہ  سسک پڑی۔مریم اس معصوم لڑکی کو گلے سے لگا تے ہوئے گویا ہوئیں۔ بیٹی۔۔۔!مصائب کا ثابت قدمی  سے مقابلہ کرنا سیکھو۔۔۔۔اللہ تعالی کسی کو ناامید نہیں کر تے۔۔۔۔!!!
آنٹی۔۔۔۔!    چھینک پر سوری اور بے حیائی اور بے پردگی کو فیشن ،اسی کو عمدہ اخلاق وتہذیب سمجھا تھا۔۔۔۔۔۔مریم ملائمت سے گویا ہوئیں
نبی کی سنتوں پرعمل پیرا رہنا۔۔۔۔ایک کامیاب زندگی کارازہے۔
یاسمین، آج تمھیں اس حالت میں دیکھ کر مجھے معاشرے کی بے خبر سوئی ہوئی خواتین پر بہت افسوس ہورہا ہے جو انجانے میں  اپنی نسل نوع  کو گمراہی کی جانب دھکیل رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ 
مریم نے نا صرف یاسمین کو پناہ دی بلکہ دینی اصولوں سے تراش کر یاسمین کی شخصیت کو بیش بہا گوہر میں تبدیل کر دیا۔
یاسمین کی زندگی مکمل طور پر بدل چکی تھی۔یہاں تک کے اس کا لباس بھی سنتوں والا ہوگیا ، ہمیشہ سر پر اسکارف پہنے رہتی۔۔۔۔کیونکہ لباس کا مقصد صرف ستر پوشی،موسم کے اثرات سے حفاظت یا زینت ہی نہیں بلکہ لباس ایسا ہو جس سے تقوے کا اظہار ہورہا ہو اور یہ تقوی یاسمین میں آگیا تھا۔
  مریم نے اس گوہر کو اپنے خاندان کی زینت بنانے کا ارادہ کیا۔
    یاسمین۔۔۔! تمھیں اپنے اکلوتے بیٹے کی ہمسفر بنانے کا ارادہ کیا  ہے۔   یاسمین یہ سن کر شرم سے سرخ ہوگئی۔
  یہ سچ ہے اسلام ہی عورت کی ترقی کا  ضامن ہے اس کے بنا عورت جہالت کا ملبہ ہے!!! 
********

شیئر: