Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

” ایوب آپ خوش چلے، ہم کو رُلا چلے“

شاعر و ادیب ایوب صابر کے اعزاز میں بزمِ کامرانی کا الوداعیہ
مسعود جمال۔دمام 
وطن سے دوری وہ احساس ہے جو ہر پردیسی پر طاری ہوتا ہے۔ وطن سے دور رہنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنے وطن کی محبت میں گرفتار ہو جاتاہے۔ ایک ایسے فرد کے لئے جس نے زندگی کے قیمتی28 بر س عرب کے صحرا میں گزار دئیے ہوں ، اُس کے لئے وطن لوٹنا ایک خوشگوار احساس ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پردیس میںجن احباب کے ساتھ زندگی کے ماہ و سال گزرے ہوںاُن سے جدا ہونا بھی کوئی آسان تجربہ نہیں ۔ منطقہ شرقیہ کے ہردلعزیز شاعر و ادیب محمدایوب صابر وطن لوٹ رہے تھے ۔منطقہ شرقیہ کی فعال ادبی تنظیم بزمِ کامرانی نے محمد ایوب صابر کی وطن روانگی کے موقع پرادب پرور شخصیت انظار الحسن کے کاشانے پر الوداعی تقریب کا اہتمام کیا۔ محفل کی صدارت مترنم لہجے کے قادر الکلام شاعر سعید احمد منتظر نے کی ۔ مہمانِ اعزازی کی نشست پر محمد ایوب صابرموجود تھے۔ نظامت کے فرائض منفرد لہجے کی شاعرہ اور سفرنامہ نگار غزالہ کامرانی نے خوبصورت انداز میں اد ا کئے۔ محفل 2 حصوں پر مشتمل تھی۔ پہلے حصے میں ایوب صابر کے فن پر روشنی ڈالی گئی جبکہ دوسرے حصے میں شاندار محفل ِ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔
  محفل کا آغاز تلاوت ِ کلامِ پاک سے ہوا جس کی سعادت خوش گلو شاعر و ڈائریکٹر ٹوسٹ ماسٹر ایریا25 وقار صدیقی نے حاصل کی جبکہ غزالہ کامرانی نے نعت طیبہ پیش کی ۔ مسعود جمال نے روایتی سندھی اجرک پیش کی۔ غزالہ کامرنی نے بزم کی جانب سے خوبصورت شیلڈ کے تحفے کا اہتمام کیا جو صدرِ محفل سعید احمد منتظر ، سہیل ثاقب، غزالہ کامرانی، مسعود جمال نے محمد ایوب صابر کو پیش کیا۔ غزالہ کامرانی نے ایوب صابر کے بارے میں اظہارخیال کرتے ہوئے کہاکہ ایوب صابر نے مجھے ادبی محافل میں مدعو کر کے ادب کے لئے میرا راستہ ہموار کیا ۔ اس کے بعد مجھے منطقہ شرقیہ ، بحرین ،ریاض اور کراچی کے شعرا ءسے ملنے کا موقع ملا۔ایوب صابر کی محفل میں ہی مجھے پہلی دفعہ اپنے مربی اور شفیق شخصیت ڈاکٹر شعیب نگرامی سے ملاقا ت کا موقع میسر آیا۔ مسعود جمال نے کہا کہ ایوب صابر کی یہ خوبی ہے کہ انہوں نے نہ صرف سینیئر شعرا سے تعاون کیا بلکہ نئے شعرا کی راہنمائی بھی کی۔ان کی وطن واپسی سے منطقہ شرقیہ میں ایک خلا پیدا ہو گا۔ ان کی ادبی خدمات کو یاد رکھا جائے گا۔
سید منصور شاہ نے کہا کہ ادب سماجی رویّوں اور انسانی سوچوں پر اثر انداز ہو کر معاشرے کی صورت گری کرتا ہے اور عوامی مزاج تشکیل دیتا ہے اور یہ اُس وقت ہی ہوتا ہے جب ادب کی عام لوگوں تک رسائی ہو۔ اِس دور کا سب سے بڑا فتنہ انفرادیت پسندی ہے جو اجتماعی تحرک کی قاتل اور معاشرتی جمود ہے۔ میں محمدایوب صابر سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنا سفر جاری رکھیں ۔ ہماری دُعائیں اُن کے ساتھ ہیں۔
سلیم حسرت نے کہا کہ آج جو میں اس محفل میں موجود ہوں،اس کا سہرا محمد ایوب صابر کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے شفقت سے ہر قدم پر میری حوصلہ افزائی کی ورنہ میں اس سفر میں بہت پہلے تھک کر بیٹھ چکا ہوتا۔ آج میں کتنے ہی عالمی مشاعروں میں شرکت کر چکا ہوں۔منطقہ شرقیہ ان کی خدمات کو یاد رکھے گا۔
شیراز مہدی ضیاءنے کہاکہ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب 2007ءمیں پہلی دفعہ ایوب صابر نے مجھے منطقہ شرقیہ کے مشاعرے میں مدعو کیا تھا۔ اُس کے بعد مجھے منطقہ شرقیہ کے دوسرے شعراءسے متعارف کرایاگیا۔ گزشتہ دس برسوں میں ہمارے درمیان محبت اور اپنائیت کا رشتہ قائم رہا۔ ہماری محافل میں ایوب صابر کا ہونا سب کے لئے باعث ِ افتخار ہوتا ہے۔ محمد ایوب صابر نے اظہارِ تشکر کرتے ہوئے کہا کہ میںمنطقہ شرقیہ میں ادبی منظر نامے میں تقریباً 15برس گزارنے کے بعد وطن واپسی کی تیاری کر رہا ہوں۔میں بہت خوش نصیب ہوںکہ مجھے ابتدا سے ہی شعرا ءاور ادباءکی رہنمائی اور شفقت حاصل رہی ۔ جب میں ادب کی وادی میں داخل ہوا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن مجھ پر ایم فِل کے مقالے لکھے جائیں گے۔ میں یہاں اُن شعراءکا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں جو اِس محفل میں موجود نہیں لیکن میں نے اُن کی رہنمائی سے مستفید ہوتا رہا ہوں۔میں ناز مظفر آبادی، اقبال ا حمد قمر اور تنویر احمد تنویر کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں۔میں یہاں کی خوبصورت یادیں اپنے ساتھ لے کر جا رہا ہوں۔ جب یادوں کا البم کھولوں گا تو اس کے تمام صفحات پر میرے دوستوں کی تصاویر ہوں گی۔ میں نے ادب کا احترام کیاہے، یہ کام بلاناغہ اور خلوص سے کیا ہے ، میں نے ادب کو روزانہ وقت دیا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر تمام شرکا ئے محفل کا شکریہ ادا کیا بالخصوص مسعود جمال اور غزالہ کامرانی کا جنہوں نے مختصر سے وقت میں ایک یادگار محفل کا اہتمام کیا۔
سعید احمد منتظر کو صدراتی خطبے کی دعوت دی گئی۔انہوں نے کہا کہ مجھے ابھی تک وہ زمانہ یاد ہے جب ایوب صابر نے ادبی قافلے میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اِن کی آمد کو تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیا گیاتھا ۔ ایوب صابر نے چند برسوں میں ادب میں اپنا خاص مقام پیدا کر لیا ہے ۔ایوب صابر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ تمام ادبی برادری سے رابطے میں رہتے ہیں۔ انہوں نے ایوب صابر کو منظوم خراجِ تحسین بھی پیش کیا:
 ہنستے ہوئے ادب کے چمن سے وہ کیا چلے
 ایوب آپ خوش چلے، ہم کو رُلا چلے
گردِ ملا ل صحنِ چمن میں اُڑا چلے
 دہران سے چلے تو برنگ ِ صبا چلے
 ویراں ہوا دمام تو ہے الخبر اُداس
 سب کو ہی سوگوار بنا کر وہ کیا چلے 
 کل ہی تو تازہ جھونکا ہوا کا در آیا تھا
 اور آج اِس طرح سے گلِ بے وفا چلے
 گھر دل میں کرکے رختِ سفر باندھنے لگے
 فردوس بن چکی تو قیامت اُٹھا چلے
اس کے ساتھ ہی پہلا حصہ اختتام پذیر ہوا۔وقفے کے بعدمحفلِ مشاعرہ کا آغاز ہوا۔ شعرا ءنے اپنی اپنی شعری زنبیل سے اشعار کے نایاب موتیوں کو آ شکار کرنا شروع کر دیا۔ سامعین بھی محفل میںپوری طرح محو تھے۔ واہ واہ اور مکرر ارشاد کی آوازوں سے سماں بندھ گیا۔ مشاعرہ ابتدا سے ہی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا جس کی دلکشی میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا۔ شعرا اور سامعین کے درمیان داد و تحسین کا ایک دلفریب رشتہ استوار ہو چکا تھا۔ ہر عمدہ شعر سماعتوں سے ٹکرانے کے بعد داد کی شکل میں اپنا خراج وصول کر رہا تھا۔ رات کا تیسرا پہر شروع ہو چکا تھا لیکن تھکن کا احساس کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ مسعود جمال، غزالہ کامرانی، سلیم حسرت ، وقار صدیقی ، شیراز مہدی ضیائ، حکیم اسلم قمر، افضل خان، سہیل ثاقب، محمد ایوب صابر اور سعید منتظر نے اپنا کلام پیش کیا۔کیپٹن و بیگم انظار الحسن، فرید حسین، مسرت فرید، فرحان خان، کیپٹن شاہد جمال، شاہد صدیقی، عابد کھوکھر، مختار نجمی، ہاشم سعید ، ساجد فاروق، عامر عبداللہ اور محمد یامین نے شرکت کر کے محفل کی رونق دوبالا کر دی۔اس طرح یہ شاندار الوداعی تقریب اختتام پذیر ہوئی۔شعرا ئے کرام کے کلام سے منتخب اشعار سامعین کے ادبی ذوق کی نذر:
٭٭مسعود جمال:
یاد آتی رہی رات بھر چاندنی
دل جلاتی رہی رات بھر چاندنی
ہم تڑپتے رہے اور سسکتے رہے
مسکراتی رہی رات بھر چاندنی
٭٭غزالہ کامرانی:
منصف بتاﺅ کیسے کوئی فیصلہ کرے
انصاف جب ہے ظلم کے ہاتھوں بِکا ہوا
کیسے سناﺅں پھر میں محبت کی داستاں
شاید تُو کہہ اُٹھے ہے فسانہ سنا ہوا
٭٭سلیم حسرت:
گھر جمائی یوں پڑے مادام کی دہلیز پر
”جس طرح جھکتا ہے سورج شام کی دہلیز پر“
٭٭وقار صدیقی:
ہوش اتنا تو ہے باقی ابھی دیوانوں میں
فرق کر سکتے ہیں داناﺅں میں نادانوں میں
٭٭شیراز مہدی ضیائ:
مجھ کو کتنا بھی گراﺅ میں سنبھل جاﺅں گا
سکہ وقت ہوں میں شہر میں چل جاﺅں گا
٭٭حکیم اسلم قمر:
کسی احساس کی خوشبو مجھے پَل پَل رُلاتی ہے
اُسے محسوس کرتا ہوں مگر نمدیدہ نمدیدہ
پرو لیتا ہوں لفظوں میں تری یادوں کی کلیوں کو
تو پھر اشعار کہتا ہوں مگر نمدیدہ نمدیدہ
٭٭افضل خان:
بے جان زندگی سے بھی اُکتا گیا ہوں میں
بے رنگ عاشقی سے بھی اُکتا گیا ہوں میں
تارے زمیں پہ لاﺅں یا پھر چاند تُو بتا
تیری تو بے رخی سے بھی اُکتا گیا ہوں میں
٭٭سہیل ثاقب:
حصولِ رزق سفر عشق اور یہ دنیا
ہمارے سامنے کتنے سوال بیٹھے ہیں
ملی ہے اُن کو بھی تو آمدِ خزاں کی خبر
پرندے پیڑ پہ اب خال خال بیٹھے ہیں
٭٭محمد ایوب صابر:
یہ دردِ جدائی ہے مقدر میں ہمارے
شاخوں سے جدا ہو کے ثمر بول پڑا ہے
اب لوٹ کے آئے ہو تو واپس نہیں جانا
دیوار تو خاموش ہے در بول پڑا ہے
٭٭سعید احمد منتظر:
عجب احساسِ تنہائی ہے گو تم پاس بیٹھے ہو
نظر آباد ہے پردل کی ویرانی نہیں جاتی
 
 
 

شیئر: