Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بہتر کارکردگی کیلئے پیشن اور پروفیشن یکساں ہونا ضروری

ثمینہ عاصم۔جدہ
ایک استاد نے طالب علموں کے نام ایک پیغام ارسال کیا کہ کاش میں دوبارہ طالب علم بن جاﺅں اور پھرکوئی ٹیچر، دوست یا والدین مجھے بتائیںکہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے پیشن اور پروفیشن ایک ہونا چاہئے۔ یہ چند باتیں جو میں آپ لوگوں کو بتانے والا ہوں، اگر یہ باتیں پہلے کوئی مجھے بتادیتا تو میں زیادہ کامیاب او رمحنتی شخص ہوتا۔ صرف ڈاکٹریا انجینیئر بننا ہی کامیابی نہیں ۔ ہمیں اپنے اندر جھانک کر دیکھنا چاہئے کہ اللہ کریم نے مجھے کس کام کےلئے پیدا فرمایا ہے۔ 
کہتے ہیں کہ انسان دنیا میں دو دفعہ پیدا ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ اس وقت جب وہ اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے اور دوسری پیدائش وہ ہوتی ہے جب وہ دریافت کرتا ہے کہ میں دنیا میں کیوں آیاہوں؟
پیشن اور پروفیشن ایک ہونے سے آپ کی کارکردگی زیادہ بہتر ہوجاتی ہے۔ کاش مجھے کوئی بتا دیتا کہ محنت کبھی ضائع نہیں ہوتی ۔ میںطالب علمی کے زمانے میں محنت اتنی نہیں کرتا تھا لیکن پاس ہوجاتا تھا لیکن اب میں محنت زیادہ کرتا ہوں۔ محنت کرنے کی وجہ یہ نہیں کہ کام زیادہ ہے بلکہ مجھے اس بات پر یقین ہوگیا ہے کہ اللہ کریم کبھی محنت ضائع نہیں ہونے دیتا ۔ آپ کی کئی محنتوں کے نتائج آپ کو زندگی میں کبھی نہ کبھی مل جاتے ہیں۔ کبھی کوئی پیدل اسکول جاتا ہے۔ ماں باپ فیس اور کتابوں کے لئے محنت کر رہے ہیں اور بچہ پاس ہونے کے لئے محنت کررہا ہوتا ہے۔ محنت کے رزلٹ کا ٹائم بدل جاتا ہے۔ 
کاش یہ بات مجھے پہلے کوئی بتاد یتا کہ زندگی میں اتنی کامیابی ذہانت یا ڈگریوں سے نہیں ملتی جتنی ماں باپ کی دعاﺅں ،رحمتوں اور برکتوں سے ملتی ہے۔ مجھے کامیابی کی ایک وجہ اور بھی نظر آئی کہ میں پڑھائی میں اتنا قابل نہیں تھا جتنا میں فرمانبردار اور مو دب تھا۔ والدین اور استاد کی عزت کرتا تھا اور اس تابع داری نے مجھے بہت کچھ عطا کیا۔ مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ اگر آپ نے بڑا انسان اور عزت دار بننا ہے تو اپنے گھر میں جو بزرگ ہیں، ان کی عزت ،احترام اور تابع داری کرو۔ کبھی اپنے بزرگوں سے یہ نہ کہیں کہ میرے لئے دعا کریں بلکہ آپ اپنے آپ کو ایسا بنا لیں کہ وہ آپ کے لئے خود بخود دعا کریں۔ ماں باپ کی دعائیں ، اساتذہ کی دعائیں کھوٹے کو بھی کھرا کر دیتی ہےں۔
کاش مجھے کوئی بتا دیتا کہ میں اپنی نالائقی کی وجہ سے 3گھنٹے کی فلم دیکھ کر فلم کے ہیرو کو اصلی ہیرو سمجھتا رہا ۔ اگر کوئی مجھے یہ بتا دیتا کہ مائیکل ہارٹ کی کتاب میں ریسرچ کے بعد دنیا کی سوعظیم ہستیوں میں سب سے پہلے جو اسم مبارک ہے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے ۔ کاش مجھے کوئی بتادیتا ہے کہ پتھر کھا کر بھی دعائیں عطا فرمانے والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی اصل میں لائقِ تقلیدہستی مبارک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اصل ہیرو تو ہر غلطی معاف کر دیتا ہے۔ کاش یہ بات جو اتنی دیر سے سمجھ میں آئی ، پہلے آ جاتی۔ کاش کوئی بتاتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو پڑھ لو تا کہ پتہ چلے کہ اصل عظمت کیا ہوتی ہے۔
کاش ہمیں کوئی یہ بتا دیتا کہ جھنڈے والی گاڑیوں سے یا بڑے عہدوں سے آدمی بڑا نہیں ہوتا ۔ آدمی اپنے کردار، اعمال اور اخلاق سے بڑا ہوتا ہے۔ آدمی جھونپڑی میں پیدا ہوسکتا ہے ، سوکھی روٹی کھا سکتا ہے لیکن خوابوں پر پابندی نہیں لگا سکتا۔ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی میں کوئی موٹیویشن یا تحریک نہیں ہوتی بلکہ جتنا بڑا خواب ہوگا اتنی ہی زیادہ موٹیویشن یا تحریک ہو گی۔
ہمارے خواب یا اہداف اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ کاش اس وقت جب میں چھوٹا تھا ،مجھے چپیڑیں مارنے کے بجائے ،برا بھلا کہنے کے بجائے، مرغا بنانے کے بجائے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر میری حوصلہ افزائی کی جاتی اور میرے چھوٹے چھوٹے کاموں پر کسی نے ” ویری گڈ ، شاباش، تم اس سے بھی اچھا کر سکتے ہو“ جیسے الفاظ کہے ہوتے تومیں آج زیادہ کامیاب انسان ہوتا۔
کاش اسکول اور کالج کے زمانے میں والدین یا ٹیچرز مجھے یہ بتاتے کہ میری اچھی یا بری عادتیں میرا کردار اور شخصیت اور میرا مستقبل ہوں گی تو میں ہر اچھا کام کرنے کی کوشش کرتا۔ بچپن سے ہی آپ کی اچھی عادتیں آپ کا مستقبل بدل سکتی ہیں۔ پودا آہستہ آہستہ بڑا ہوتا ہے اور پھر درخت بن جاتا ہے۔ اسی طرح آپ کی عادتیں بھی عمر کے ساتھ ساتھ پختہ ہو جاتی ہیں۔
کتابیں پڑھئے لیکن صرف کتابیں پڑھنے یا نصیحتیں کرنے سے کوئی نہیں سیکھتا بلکہ ہمارے والدین اور ٹیچرز کے اچھے عمل سے ہی ہم سیکھتے ہیں۔ اچھی بات کو اچھا کہنا کسی کی اچھائی اور اچھی چیز کی تعریف کرنا بھی اچھی عادت ہے۔ امید کو قائم رکھنا ،محنت کرنا، مسکرانا اور مثبت سوچ رکھنا بھی اچھی عادت ہے۔ نصابی کتابیں آپ کی تعلیم میں کام آتی ہیں لیکن دوسری اچھی کتابیں آپ کی زندگی بنانے کے کام آتی ہیں۔ ہمارے ہاں لوگ اچھی کتابیں پڑھنا ضروری نہیں سمجھتے ۔وہ نصاب کی کتابیں ہی مشکل سے پڑھتے ہیں۔ اگر وہ کتابیں پڑھنا اپنی عادت بنا لیںتو آج حالات کچھ اور ہوتے ۔وقت کی قدر کریں اور اس کے لئے پلاننگ کریں۔ وقت ضائع کرنے کی وجہ سے زندگی ضائع ہو جاتی ہے۔ دوسروں کی مدد کرنا اپنی عادت بنالیں۔ہمارے سامنے ایک حالیہ مثال عبدالستار ایدھی کی ہے جنہوں نے دوسروں کی مدد کرنے کے لئے بے حد محنت کی۔انہوں نے کن کن حالات میں کام کیا ، وہ سب کے سامنے ہے ۔
سب سے بہتر انسان وہ ہوتا ہے جو اپنے لئے تو جیتا ہے لیکن دوسروں کے لئے جینا سیکھیں۔ اگر آپ کے پاس دولت ہے تو اس سے دوسروں کی مدد کریں اور اگر پیسہ نہیں ہے، علم ہے تو اسے دوسروں کو سکھائیں اور ان کے علم میں اضافہ کریں۔ 
 

شیئر: