Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹلرسن کی رخصتی، دیکھتے ہیں کیا فیصلے ہوتے ہیں؟

مشاری الذایدی۔ الشرق الاوسط 
آخر وہی ہوا جس کی توقع کی جارہی تھی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن کو برطرف کردیا۔اس سے قبل ٹرمپ نے واضح کیا تھا کہ امریکہ کی خارجی پالیسیوں کا فیصلہ وہ خود کریں گے۔ ان کا اشارہ ان اختلافات کی طرف تھا جو ان کے اور ٹلرسن کے درمیان تھے۔ اب کئی ماہ انتظار کے بعد آخر کار ٹرمپ نے انہیںبرطرف کردیا ہے ۔ٹلرسن جو دراصل توانائی اور تیل کے بزنس کی دنیا میں شہرت رکھتے ہیں، شروع سے ہی ٹرمپ کی خارجہ پالیسی سے متفق نہیں تھے۔ ان کا ٹرمپ کی ٹیم میں موجود ہونا عجیب تھا۔ٹرمپ امریکہ کی خارجی سیاست میں بنیادی تبدیلیاں چاہتے ہیں۔ ان کی آخری پالیسی شمالی کوریا کے صدر سے ملاقات کی خواہش ہے تاکہ امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان تاریخی نزاع کے متعلق کوئی مفاہمت پیدا ہو۔
ٹلرسن ایران کے متعلق ٹرمپ کی پالیسیوں کے مخالف بھی تھے ، گوکہ ان کی مخالفت نرمی پر مشتمل تھی۔اسی طرح انسداد دہشت گردی کے علمبردار ممالک ، سعودی عرب، امارات، بحرین اور مصر کا قطر کے حوالے سے موقف کو بھی ٹرمپ کی تائید حاصل ہے مگر ٹلرسن کا جھکاﺅ قطر کی طرف تھا۔یہاں تک کہ انہوں نے قطر اور اخوان کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کے علمبردار ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ قطر کا ”محاصرہ“ ختم کریں جبکہ چاروں ممالک نے اس اصطلاح کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ قطر کا ”محاصرہ“ نہیں بلکہ مقاطعہ یعنی قطع تعلق کئے ہوئے ہیں۔ٹلرسن کی امریکی صدر کی پالیسیوں کی مخالفت پر ٹرمپ نے میڈیا کو بتایا کہ ہم دنوں بعض معاملات کو مختلف زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہم دونوں میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ہم دونوں مختلف طریقہ سے سوچتے ہیں۔
نئے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیوکانگریس کے سابق رکن رہے ہیں۔انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے قانون پڑھا ہے۔ امریکی فوج میں کام کر چکے ہیں اور 1991ءمیںکویت کی آزادی میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ان کی ٹرمپ کے ساتھ فری کوئنسی ملتی ہے۔وہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر تھے۔ اب ان کی جگہ جینا ہاسپل کو سی آئی اے کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ اس سے قبل وہ پوپیو کی نائب تھیں۔ یہ پہلی خاتون ہیں جنہیں سی آئی اے کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ابتدائی رپورٹوں کے مطابق پﺅہاسپل 1985ءسے سی آئی اے سے وابستہ ہیں۔القاعدہ کے حوالے سے خاصی معلومات رکھتی ہیں۔2002ءمیں تھائی لینڈ میں ایک امریکی ٹھکانے کی سربراہ تھیں جہاں اس وقت القاعدہ کے بعض جنگجوﺅں کو قید کیا گیا تھا۔
ٹلرسن کی رخصتی سے ٹرمپ انتظامیہ میں اب ایران کے حق میں کوئی آواز اٹھانے والا نہیں نہ قطر اور اخوان کے لئے نرم گوشہ رکھنے والا ہے۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ ٹلرسن پر تکیہ کرنے والوں نے شاید کچھ زیادہ ہی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔جب تک ٹلرسن کے پاس وزارت خارجہ کا قلمدان تھا اس وقت تک وہ ایران اور قطر کے لئے زیادہ مفید ثابت نہیں ہوئے۔ اب ان کی رخصتی کے بعد تو آخری رمق بھی باقی نہیں رہی۔ ٹرمپ انتظامیہ کو ایک سال اور چند ماہ گزرے ہیں۔ آہستہ آہستہ ٹرمپ انتظامیہ کے خد وخال واضح ہورہے ہیں۔ اس انتظامیہ میں اب مکمل ہم آہنگی ہونی چاہئے۔ ہمیں مشرق وسطی میں اب اس بات کا انتظار ہے کہ یہ ہم آہنگ انتظامیہ چند فیصلے کرکے ہمارے مسائل کے حل کی طرف توجہ دے گی۔ ہمارے خطے میں ابھی تک بے شمار مسائل ہیں جو ٹرمپ انتظامیہ کی توجہ کے طالب ہیں۔ دیکھتے ہیں آنے والے دنوں میں یہ ہم آہنگ انتظامیہ کیا فیصلے کرتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: