Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’شام‘‘ میں غم کی شام آخر کب ختم ہو گی

تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے، کیا ہم نہیں جانتے کہ فرقہ واریت سے کبھی کچھ حاصل نہیںہوا، امریکہ او ر روس ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مشغول ہیں
عائشہ حیات عباسی ۔  اسلام آباد
2011 کے عرب  اسپرنگ کے بعد جہاں بہت سے عرب ممالک میں تبد یلی آئی وہیں اس نے ایسے مسائل کو جنم دیا ہے جو  اتنے گھمبیر ہیں کہ انکا حل شایدبرسوںبعد بھی نہ مل سکے ۔شام جو کہ انبیاء کی سر زمین بھی کہلاتا ہے  ۔ وہ  ایسے خو نی مسائل کا شکار ہوا کہ آ ج تک  ہزاروں جا نیںقر بان کرنے کے با وجود کو ئی حل نظر نہیں آتا۔پر امن احتجاج کو خو نیں  بنانے میں شام کے صدربشا ر الا سد کا بھر پور ہاتھ ہے  جب مختلف ممالک میں عرب اسپر نگ کا آغاز ہو ا تو  شام میں بھی  جمہو ریت کے حامیوں نے پر امن  احتجاج کا آ غاز کیا۔  اس پر امن احتجا ج کو حکو مت نے تسلیم نہ کیا اور لو گو ں کو پکڑنے کے بعد انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنا یا،قتل کیا گیا ۔ اس کے نتیجے میں انسانیت  و امن  دشمنوں کو مو قع مل گیا اور پھر تقسیم  در تقسیم ہو گئی ۔مختلف گرو پس بن گئے۔شام  میںکبھی فر قہ وارانہ تقسیم نہ تھی لیکن ان تضادات کے دوران فرقہ واریت کو بھی خو ب  ہوا  دی گئی۔ان حا لات میں عا لمی طا قتوں نے بھی بھر پور حصہ ڈالا۔ مسلمان مما لک نے آپس میں اس مسئلے کو حل کرنے کے بجا ئے فر قوں کی بنیاد پر گروپس بنا  لئے۔ امر یکہ اور روس نے اس میں ان کا ساتھ دیا۔بشا ر الا سد کو ایران،لبنان کی حز ب اللہ اور عر اق کی حما یت جبکہ ترکی  اور قطر بشا ر الا سد کے مخا لفین کی حما یت میں شام میں موجود ہیں۔اس سارے عمل میں داعش نے  بھی اس دہشت ذدہ جنگ میں شام اور عر اق کو تبا ہی کے دہا نے پر پہنچا دیا۔
بشا ر الا سد نے روس کے ساتھ مل کر اپنے ہی کئی نہتے معصو م لو گوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا  اور ہزاروں کو ملک چھو ڑنے پہ مجبور کیا۔شام میں تبا ہی کے ایسے منا ظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ انسانیت کا نپ جاتی ہے۔اس15 ما رچ کو شام جنگ کے 15 سال مکمل ہوں گے۔ ان15سالو ں میں  ایک اندازے کے مطا بق 465,000  معصو م جا نیں قر بان ہوئیں لا کھوں زخمی ہو ئے اور لا کھو ں بے گھر ہو گئے ۔اس جنگ کا خا تمہ کب ہو گا کو ئی نہیں جانتا کیو نکہ کو ئی اس مسئلے کو شاید حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔حا لیہ دنو ں میں مشرقی غو طہ میں  شا می حکو مت اور روس کی بمباری سے 674 عام شہری ما رے گئے جن میں کثیر تعداد بچوں کی ہے  اور عالمی برادری کی مجر مانہ خامو شی  یہ ظاہر کرتی ہے کہ انہیں ان چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیو نکہ اصل مسئلہ تو طا قت کا ہے۔ امر یکہ اور روس کئی سالو ں سے دنیا کے مختلف مما لک میں ایک دوسرے کو نیچا دیکھنے کے کھیل میں مشغو ل ہیں جبکہ مسلمان ممالک  ان کے ساتھ مل کر اپنے ہی مسلمان بہن بھائیوں کو قتل اور در بدر کرنے میں مصر وف ہیں۔
تا ریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کیا ہم نہیں جانتے کہ فر قہ واریت سے کبھی کچھ حاصل ہوا؟ نہیں بلکہ نقصان ہی نقصان ہیں۔دراصل یہ مسئلہ ہے ہی فرقہ واریت کا  ہے جس میں امریکہ اور روس بھی شا مل ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو مسلمان ممالک اکھٹے ہو کر بھی تو اپنے مسائل کا حل تلاش کر سکتے ہیں نہ کہ امریکہ اور روس کے ساتھ مل کر آپس میں لڑیں۔کیا مغر بی مما لک کی طر ح مسلمان مل کر کام نہیں کر سکتے۔ ان کے درمیان مل کر کام کرنے کے لیے  اتفاق نہیں ہو سکتا۔او آئی سی  کا  وجود بھی ان مسائل کا خا طر خواہ حل  نہیں دے سکا۔او آئی سی جو کہ مسلمان ممالک کی تنظیم ہے کبھی کبھی ہی ان مسائل پر بات کرتی نظر آتی ہے۔  کوئی ٹھو س اور خا طر خواہ اقدامات نہیں دیکھنے کو ملتے۔ 
ہم  امر یکہ یا روس کو ظا ہری طور  پر ذمہ دار تو ٹھرا سکتے ہیں لیکن ہمیں اپنے گر یبان میں جھانکنا چاہیے کیو نکہ ماضی  میں ہمیں  مسلمان ممالک کی آپس میں لڑی گئی لڑا ئیوں کو نہیں بھو لنا ۔ ہم چند دن افسوس کریں گے چند مذمتی بیا نات جاری کرنے کے بعد بھو ل جا ئیں گے ۔
یہ وہی شام ہے جہاں  2009 میں ایک رپو رٹ کے مطابق 6 ملین سیاح  آئے۔ آج شام کو دیکھ کے ایسا گمان ہوتا ہے شائد زندگی کا یہاں سے کبھی گزر نہیں ہوا۔ہر طرف موت کے سائے منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ شام کا شہر ایلیپو جو کہ یو نیسکو  ورلڈ ہر یٹیج سائٹ ہے تبا ہی کا دردناک منظر پیش کر تا ہے۔  اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چا ہیے کہ شام کا مسئلہ  اس طر ح حل نہیں ہو سکتا  کیو نکہ اس میں شکار صر ف 
 عام شہری ہی ہوتے ہیں۔تمام مسلمان ممالک کو چا ہیے کہ آ پس کے اختلافات بھلا کر ان  مسائل کا دوررس حل تلاش کریں اسی طرح ان ممالک میں امن  بحا ل کیا جا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: