Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”انہی مچھروں سے لڑ کر اگر آ سکو تو آﺅ“

ابوغانیہ۔جدہ
آج سے 30سال پہلے کا ذکر ہے ، ہم کراچی کی انتہائی پرسکون و مامون، غیر ترقی یافتہ ، کیچڑ، کچرے، کھدی کھدائی گلیوں اور ٹوٹی پھوٹی پلیوں کی آماجگاہ رہائشی بستی میں موٹر سائیکل سوار کی حیثیت سے داخل ہوئے لیکن چند قدم کی مزید سواری کے بعد موٹرسائیکل سے اتر گئے اور اسے گھسیٹتے ہوئے پیدل چل پڑے۔ شام غروب ہو رہی تھی چنانچہ اندھیرے بصارت پر حملہ آور ہوتے جا رہے تھے ۔ہمارے سر پر 931مچھر مخروطی دائرے میں گردش کر رہے تھے۔ ان میں 900تو ایسے تھے جوہمارے ساکت ہونے کا انتظار کر رہے تھے تاہم 31 زیادہ ہی بے قرار قسم کے تھے ، وہ ہماری بھوں، پیشانی، ناک، کان اورگردن وغیرہ پر براجمان ہو کر لہونوشی کے مزے لے رہے تھے۔ ہمارے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ ہم ان31حملہ آوروں کی ”شخصیت“ کا اندازہ کر سکتے کہ آیا یہ ”حضرات“ ہیں یا ” خواتین تاہم اتنا ضرور ہے کہ وہ اپنی حرکتوں سے مچھر نہیں بلکہ ”مچھریاں“ ہی لگتی تھیں۔
اس بستی میں ہماری آمد کا مقصد اپنے ماضی کے ہم جماعت ڈاکٹر سے ملاقات کرنا تھا جو دکھی انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار ی کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہاں ایک مختصر سی چہار دیواری میں میز کرسی رکھے ، ضروری ادویات و آلات سے مسلح موجود ہوتے تھے۔ ہم کودتے پھاندتے ،تھکا دینے والی بصری، عصبی، ذہنی و استخوانی مشقت کے بعدان کے کلینک کے سامنے پہنچ گئے جو سطح زمین 4.5فٹ کی بلندی پر تھا۔ ہم نے اس دروازے کے سامنے اپنی موٹرسائیکل کھڑی کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے کیونکہ زمین نہ ہموار تھی۔ ڈبل اسٹینڈ پر موٹر سائیکل کا ٹک جانا نہ ممکن تھا جبکہ اسے سائیڈ اسٹینڈکے سہارے کھڑا کرنے کی کوشش کرتے تو یہ زمین پر جا گرتی۔ ہم نے ادھر اُدھر دیکھا تو پاس سے ایک ساڑھے 9سالہ بچہ گزر رہا تھا، ہم نے اسے کہا ”بھیا! ذرا سامنے پڑی دو اینٹیں اٹھا دینا۔ اس نے نجانے ہمیں کیا سمجھا، کافی لیت و لعل کے بعد اس نے دو اینٹیں اٹھائیں، ہمارے سامنے پھینکیں اور دوڑ لگا دی پھر اتنی دور جا کر رُکا جہاںاس کو یقینِ واثق ہو گیا کہ اب اگر ہم نے یہ اینٹیں اٹھا کر مارنے کی کوشش کی تو یہ اس تک نہیں پہنچ سکیں گی۔ وہ دور کھڑے ہو کر ہنسنے لگا جیسے ہماری ”چال“ کو بے اثر کرکے وہ ہمیں چڑا رہا ہے ۔بہر حال ہم نے اینٹوں کے بل پر موٹرسائیکل کھڑی کی اور پانچ سیڑھیاں چڑھ کر دوست کے کلینک میں داخل ہوگئے۔ وہ ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ہم نے کہا کہ راستے میں مچھروں نے بہت تنگ کیا۔ اس نے شاید ازراہِ تفنن کہا کہ در اصل ہم اپنے مہمانوں کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی شخصیت ہماری اس بستی کی حدود م یں قدم رکھتی ہے، ہزاروں مچھر اسے اپنے ”سایہ¿ عاطفت“ میں لے لیتے ہیں اور جب تک وہ بستی سے نکل نہیں جاتا، اس کی آﺅ بھگت کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ یہ در ا صل ایسا پروٹوکول ہے جو آپ چاہیں یا نہ چاہیں،قدرتی طور پر ہی آپ کا مقدر بنا دیاجاتا ہے ۔ اسی لئے تو اس بستی کو ”مچھر کالونی“ کہا جاتا ہے۔ہم نے کہا کہ بھیا! آپ کہیں اور اپنا کلینک کیوں قائم نہیں کر لیتے، ہمیں آنے جانے میں اتنی مشکل ہوتی ہے۔ یہ سن کر ا نہوں نے فٹ شعر دے مارا کہ:
انہی مچھروں سے لڑ کر اگر آ سکو تو آﺅ
یہ ہے راستہ حقیقت ، کوئی داستاں نہیں ہے 
ہم اُس روز مچھر کالونی میں دوست کے کلینک سے گھرواپس پہنچے توسردی لگنا شروع ہوگئی۔ لرزہ طاری ہوا ، دانت بجنے لگے۔ ہم محلے میں واقع ”سکھی انسانیت “ کے خادم ڈاکٹر کے ہاں چلے گئے۔ اس نے انجیکشن لگایا اور فرمایا کہ آپ پر ملیریا حملہ آور ہوا ہے۔ پریشانی کی بات نہیں ہم نے کونین کا انجیکشن دے دیا ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے ہمیں دوا دی اور نتیجتاًہماری جیب خالی کرا لی۔ ہم نے اپنے دوست کو مچھر کالونی فون کر کے سارا ماجرا بیان کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اصل میں میرے پاس آنے سے پہلے آپنے مشورہ نہیں لیاورنہ میں آپ کو بتاتا ۔ اب آئندہ جب بھی آپ کو مجھ سے ملنے یا اپنے کسی عزیز سے ملاقات کے لئے مچھر کالونی آنا ہو تو اپنے چہرے، گردن، کانوں، ہاتھوں، بازوﺅں، پیروں اور دیگر کھلے ہوئے جسمانی حصوںپر کوئی نہ کوئی تیل مل لیں۔ اس مقصد کے لئے سرسوں، تارپین، دھوئی تلی اور چنبیلی وغیرہ کا تیل استعمال کیاجا سکتا ہے۔ یہ تیل لگا کر جب آپ مچھر کالونی میں داخل ہوں گے تو کم از کم آپ حملہ آور مچھروں کی ”دست درازی“ سے محفوظ رہیں گے کیونکہ وہ آپ کا خون پینے کے لئے جب بھی کاٹنا چاہیں گے، ان کا ”ڈنک“جلد چکنی ہونے کے باعث پھسل جائے گا اور وہ مایوس ہو جائیں گے۔
بہر حال، ہم سال میں ایک آدھ مرتبہ ہی دکھی انسانیت کے اس خادم کے ہاں جاتے تھے ۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا کہ سارا سال گزر گیا اور ہم مچھر کالونی نہیں جا سکے ۔یوں ہی قریباً8برس گزر گئے۔ ہمیں ایک روز اپنے دوست کی بہت ہی یاد ستائی چنانچہ بازار جا کر دھوئی تلی کاایک کلو تیل لے کر آئے، اسے خوب اچھی طرح چہرے، ہاتھوں، بازوﺅں، پیروں اور کان و گردن پر ملا۔ کھدر کا شلوار قمیص پہنا اور موٹر سائیکل پر چڑھ کر مچھر کالونی پہنچ گئے۔وہاں حسب سابق ہمیں” مچھری پروٹوکول“ کا سامنا تو کرنا پڑا مگر کوئی مچھر ہم سے ”دست درازی“ کی جرا¿ت نہیں کر سکا۔ اس کی دو وجوہ تھیں ۔ ایک تو یہ کہ ہم نے ضرورت سے زیادہ ”دھوئی تلی“چپڑ رکھا تھا اور دوسری وجہ یہ کہ موٹر سائیکل پر سفر کے دوران راستے کی دھول اوردھواں ہمارے چہرے پر موجود تیل سے گلے مل کر وہیں کا ہو رہا تھا۔ اس طرح ہمارے چہرے اور دیگر کھلے حصوں پر ایسی تہ جم چکی تھی جو مچھرانہ ذوق سے بالکل مماثلت نہیں رکھتی تھی۔اس لئے انہوں نے ہمیں منہ ہی نہیں لگایا۔
ہم مچھرکالونی میں دوست کے کلینک پہنچے تو حیرت انگیز مسرت ہوئی کیونکہ اب کلینک کے ساتھ ہی ہمارے دوست کا گھر بھی تھا۔ یہ بستی اتنی ترقی کر چکی تھی کہ ہمیں موٹرسائیکل کھڑی کرنے کے لئے کسی اینٹ شینٹ کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ دوست کے گھرصدر دروازے پر ایک تختی لگی تھی جس پر موصوف کا نام لکھا تھا۔ نام کے بعد گھر کاپتہ تحریر تھا، یہ سب معقول تھا مگر وہ جوآخر میں لکھا تھاکہ”مچھر کالونی ، کراچی“، اسے پڑھ کر ہم نے” قہقہہ بار آہ“ بھری۔ دورازے پر نصب گھنٹی بجائی تو کسی قسم کی گنگناہٹ یا چھنچھناہٹ سنائی نہیں دی چنانچہ ذرا توقف کے بعد ہم نے دروازہ پیٹا، اندر سے مردانہ آواز آئی، کون اے، ہم نے اپنا نام لیا تو ہمارا ڈاکٹر دوست نمودار ہوا۔ چہرہ کچھ مرجھایا ہوا لگ رہا تھا۔ سر کے خاصے بال سفید بھی ہو گئے تھے۔ اس نے ہمیں گھر کے اندر بلایا، گھر دکھایا۔ ہمیں پسند آیا۔ ہم نے کہا گھر ہے مگر گھر والی نہیں ہے ، آخر کیوں؟ اس نے کہا کہ میں جہاں کہیں بھی رشتہ لے کر جاتا ہوں وہاں سے انکار ہو جاتا ہے اور ان کا اعتراض ہوتا ہے کہ آپ خواہ کتنے بھی اچھے کیوں نہ ہوں، ہم اپنی بیٹی کو بیاہ کر مچھر کالونی نہیں بھیجیں گے ۔ لوگ ہم سے پوچھیں گے کہ آپ کی بیٹی کا گھر کہاں ہے تو ہمیں لا محالہ کہنا پڑے گا کہ وہ مچھر کالونی میں رہتی ہے ۔ یہ سن کر وہ مذاق اڑائیں گے ۔ ہمارے دوست نے کہا کہ میں نے پائی پائی جوڑ کر گھر بنایا مگر مجھے یہ احساس نہیں تھا کہ گھر بنانے کے تقاضے کچھ اور ہیں اور گھر بسانے کے تقاضے کچھ اور۔
 

شیئر: