Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی سیاست نئے موڑ پر

***صلاح الدین حیدر... کراچی***
یقین کریں، دل تو چاہتا تھا کہ آج کے مضمون کا عنوان تلخ و شیریں رکھتا،لیکن پھر اس میں تلخی زیادہ پیدا ہونے کا امکان تھالیکن نیب نے جب سے بد عنوانیوں کیخلاف مہم شروع کی ہے تو سارا پلان الٹ پلٹ نظر آنے لگا ہے۔بہتر یہی ہو گا کہ پاکستانی سیاست اپنی 70سالہ تاریخی دور کے ایک بالکل ہی نئے موڑ پر آن کھڑ ی ہوئی ہے۔ ہم سب کیلئے سبق کا انبار لیے کھڑی ہے۔ انتخابات پہلے بھی ہوتے تھے ، ملٹری لاء ،پہلے بھی لگتے تھے،سیاستدانوں کی تعریف کی جاتی تھی یا انہیں گالیوں سے نوازا جاتا تھا، سب ہی کچھ تھا، یہ ہمارے ملک میں ہی نہیں ساری دنیا میں جہاں ذرا بھی جمہورت کا شائبہ بھی باقی ہے، کم وبیش یہی کچھ دیکھنے کو ملتاہے۔
کیونکہ ہم آج سے کچھ ماہ پہلے عدالت عظمیٰ کے بارے میں غلیظ زبان تو چھوڑیں، تنقید تک سننے کے عادی نہیں تھے۔اب اس کا کیا کیا جائے جب بھی نواز شریف برسرِاقتدار آتے ہیں دلچسپی کا کچھ نہ کچھ سامان خود بخود مہیا ہو ہی جاتاہے۔شاید (ن) لیگ کے سربراہ کی ذہنیت ہی ایسی ہے۔ انا پرستی، ضد، اور خودنمائی انکے علاوہ اوروں میں بھی دیکھنے کو ملی۔ پہلے انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے جھگڑا مول لیا۔ الفاظ کی جنگ کئی ہفتے جاری رہی بالآخر چیف جسٹس کو عہدے سے الگ ہونا پڑا۔ سابق آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے ایک تقریب میں قومی سلامتی کی تجویز کیاپیش کردی، نواز شریف آگ بگولا ہوگئے۔ انکے نزدیک آرمی کو حق نہیں کہ وہ سویلین معاملات میں کسی قسم کا ’’رول پلے ‘‘ کرسکے۔اب انہیں کون سمجھائے کہ وقت کیساتھ ساتھ تقاضے بھی بدلتے رہتے ہیں، جہانگیر کرامت تو مستعفی ہو کر گھر گئے، شریف آدمی تھے لیکن انکے بعد جنرل پرویز مشرف ،نوازشریف کے پاس گئے اور انہیں صاف صاف بتادیا کہ آرمی نے انہیں یہ پیغام پہنچانے کیلئے بھیجا ہے کہ وہ جہانگیر کرامت نہیں بنیں گے، مطلب سادے الفاظ میں یہ تھا کہ پرائم منسٹرآرمی کے معاملے میں دخل اندازی چھوڑ دیں۔آرمی نے ہمیشہ سے ہی اپنی ایک نئی دنیا بنا رکھی ہے۔ وہ طاقت میں رہے یا پردے کے پیچھے رہ کر کوئی کردار ادا کرے، اسکا رول ہمیشہ سے ہی رہتاہے، اور رہتا رہے گا۔ 
ترکی کے صدر طیب اردگان ہوتے تو مشرف کو ڈانٹ کر بھگا دیتے، لیکن جب نواز شریف خود ہی آرمی کی پیدا وار ہوں اور جنرل جیلانی اور جنر ل ضیا ء الحق کے گن گاتے رہے ہوںتو پھر ان سے ایسے عمل کی کیسے امید کی جا سکتی ہے؟ چپ چپ سنا اور اپنا سا منہ لے کر بیٹھ گئے ، لیکن فطرت میں چونکہ چلبلاپن تھا اس لئے اپنے والد کے کہنے کے باوجود وہ مشرف سے نبرد آزمائی پر تُلے رہے اور بالآخر ہٹا دیئے گے۔ آرمی سے لڑنا آسان نہیں ہوتا۔نواز شریف کو آج تک یہ سمجھ نہیں آیا اور شاید آئیگا بھی نہیں۔
(ن) لیگ کے سربراہ  3 مرتبہ وزیر اعظم کے منصب اعلیٰ پر براجمان رہے۔ لوگ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں آئیے سنئے:
’’ اسد عمر جو شاید میری نظر میں تحریک انصاف کے فاضل ممبران میں سے ہیں، نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ میں آج تک فیصلہ نہیں کرپایا کہ نوازشریف بے ضمیر ہیں یا انہیں سپورٹ کرنے والے‘‘۔ یہ بہت سخت جملہ تھا جبھی تو میںنے ابتدا میں ہی کہہ دیا تھا کہ تلخیاں زیادہ ہوں گی۔ایک اور حضرت نے ٹوئٹ کیا ’’ نواز شریف کو جوتا پڑا، یہ معلوم نہیں کہ نواز شریف کی توہین ہوئی یا جوتے کی،لیکن خوشامدیوں کی کمی نہیں‘‘۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے تو انتہا کرد ی، کہ پنجاب میں پٹھانوں کو رہنے یا کام کرنے کی اجازت نہیں۔یہ بات کوئی سندھ میں کرتا تو جیل چلا جاتا۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پٹھانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے، خاص طور پر افغانستان سے آنے والوں کے بعد۔آج ٹرانسپورٹ ان کے ہاتھ میں ، قالینوں کا کاروبار وہ سنبھالتے ہیںاور نہ جانے کیا کیا؟ فہرست بہت طویل ہے۔
مزید آگے چلتے ہیں۔ایک صاحب نے لکھا ’’ آصف زرداری کے والد محترم حاکم علی زرداری نے بھٹو کو پھانسی پر لٹکانے کے بعد جنرل ضیا ء الحق کو اجرک کا تحفہ پیش کیا۔ آج ان کی اولادیں بھٹو کے وارث بنے ہوئے ہیں، ظاہر ہے کہ آصف زرداری یا دوسروں کو بھٹو یا بے نظیر سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن بھٹو کے نام میں مقناطیسیت ہے جس سے وہ بھرپور فائدہ اٹھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ 
جہاں تک نیب کا تعلق ہے تو اس نے سرکاری افسران سے لے کر ،سیاستدانوں ، بشمول عمران خان، مریم اورنگزیب اور بہت سے دوسرے نامی گرامی شخصیات کیخلاف بد عنوانیوں کو ختم کرنے کے لیے ایک طرح کا جہاد شرو ع کیا ہوا ہے۔ اچھی بات ہے۔ کوئی بھی ہو اسے عزت اور قانون کے مطابق کمائی ہوئی دولت کا حساب کتاب دینا پڑے گا۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار جو بیماری کے بہانے لندن کے اسپتال میں لمبے عرصے سے زیر علاج ہیں،کو عدالت نے نوٹس جاری کیا کہ وہ یا تو خود عدالت میں حاضر ہوں یا پھر اپنے وکیل کے ذریعے وضاحت کریں کہ آمدنی سے زیادہ 91فیصد دولت کیسے اور کہاں سے کمائی؟
عمران خان کیخلاف سرکاری ہیلی کاپٹر ذاتی استعمال کرنے کا الزام ہے، جس کی سنوائی ہونے والی ہے۔پی ٹی آئی کے چیئر مین، کو جواب تو دینا پڑے گا۔کب تک غیر حاضری کے پیچھے چھپیں گے۔جہاں تک سیاست کا تعلق ہے، وہ انگلینڈ ،یورپ کے بیشتر ممالک کو چھوڑ کر  ہندوستان، پاکستان بنگلہ دیش ، نیپال میں صورتحال تقریباً ایک جیسی ہی ہے۔ انیس بیس کا فرق ہو سکتاہے، ہر جگہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روایت پرانی ہے، جھوٹ اور سچ میں تفریق کرنا مشکل ہوتا ہے۔حال ہی میں ہوئے سینیٹ چیئر مین اور ڈپٹی سینیٹ  چیئر مین کے انتخابات میں دیکھ لیں، ہاتھا پائی تک ہوئی کہ عمران خان زندہ باد کا نعرہ کیوں لگایا لیکن وزیر اعظم کے صاحبزادے سہیل کو صاف طور پر بچالیا گیا۔یہی تو وزیروں کو کام ہے۔ آخر تنخواہ کس بات کی لیتے ہیں۔کام کاج تو کچھ ہے ہی نہیں، بس مداح سرائی کرتے رہتے ہیں، اسی میں عافیت ہے۔ 
دیکھیں اب یہ کہ نیب نے جو ایک کام اپنے ذمہ لیا ہے وہ کہاں تک نتیجہ خیز ثابت ہوتاہے؟ نواز شریف کا سیاسی دور تو تقریباً ختم ہوچکا ۔ وہ تقاریر کرتے ہیں، اس سے کچھ نہیں ہوتا۔ جہاں تک الیکشن کا تعلق ہے تو اسکے بارے میں ابھی بھی شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں۔ انتخابات کے نتیجے کیسے ہوں گے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اگر نواز شریف لاکھوں کے مجمع کو جمع کرسکتے ہیں اپنے بارے میں رونے پیٹنے کیلئے تو عمران خان کے جلسے بھی جواب نہیں رکھتے۔پنجاب میں پیپلز پارٹی تو زرداری کی نظر ہوگئی، اس کو اٹھنے کیلئے بہت وقت درکار ہوگاجو کہ اتنے کم عرصے میں ممکن نہیں ۔ ظاہر ہے کہ سینٹرل پنجاب اور شمالی پنجاب میں مقابلہ (ن) لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان ہی ہوگا۔ حکومت آئندہ کون بنائے گا، اسکے بارے میں کچھ بھی اعتماد سے نہیں کہا جاسکتا۔ ہو سکتاہے معلق پارلیمنٹ بنے اور پھر جب سینیٹ میں حزب اقتدار کی اکثریت ہے تو پھر قانون سازی بھی مشکل کام ہوجائے گا، صاف ظاہر ہے، غیب کو کیا منظور ہے وہ جانے۔
 

شیئر: