Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قومی اعزازت سے نوازے جانے والے بے بس فنکار

جون ایلیا، محسن نقوی، وحید مراد، سلطان راہی، بل بتوڑی، عینک واا جن جیسے لاتعداد  ادیب ، شاعر اور  فنکار  انی خدمات کے بدلے ناقدری اور تنہائی کا تحفہ وصول کرکے محفل دنیا کو خیرباد کہہ گئے
دانیال احمد۔ دوحہ ،قطر
سائے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
 نجانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
       یہ مشہور زمانہ شعر ہندوستان کے مشہور و معروف اور قادرالکلام شاعر بشیر بدر کا ہے۔ بشیر بدر نے اپنی پوری زندگی اردو زبان اور شعر و شاعری کیلئے وقف کر دی۔ وہ 40سال تک محافل مشاعرہ کی رونق بنے رہے۔ ان کے دلوں کو چھو جانے والے اشعار سب کی سماعتوں میں رس گھولتے رہے۔ انہیں ان کی ادبی خدمات کی بدولت  1999ء  میں پدم شری ایوارڈ اور سہتیا اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر بشیر بدر کے متعلق ہندوستان کے ایک نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ دیکھ کر بہت دل دکھا۔ رپورٹ کے مطابق بشیر بدر اب شیزوفرینیا کے مرض میں مبتلا ہیں۔ وہ شہر بھوپال میں ایک چھوٹے سے گھر میں تنہا ئی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کی اہلیہ کے سوا اور کو ئی بھی نہیں ہے۔ وہ ہردل عزیز شاعر جو لوگوں کے دلوں کا حال اپنے خوبصورت اشعار میں کہہ دیا کرتا تھا، جس کے گھر میں مداحوں،  چاہنے والوں اور دوستوں کا ایک ہجوم لگا رہتا تھا، آج جب اس کو سہارے اور ساتھ کی ضرورت ہے تو اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اپنی شاعری کے ذریعے سب کے زخموں پر مرحم رکھنے والا آج زندگی کے اس نازک موڑ پر بالکل تنہا کھڑا ہے۔
       اگر ہم پاکستان میں فنکاروں کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو ہمارے ملک میں بھی کچھ ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ شعراء کی بات کی جائے تو آزادی کے بعد ہندوستان سے ہجرت کر کے لاہور آنے والا ایک محب وطن نوجوان شاعر جس نے 19 سال کی چھوٹی سی عمر میں ہی ادبی حلقوں اور شعر و سخن کی محافل میں ایک نمایاں مقام حاصل کر لیا تھا، وہ 1974ء میں صرف 46 سال کی عمر میں سردی کی ایک ٹھٹھرتی ہو ئی رات لاہور کی مال روڈ پر مردہ پایا گیا۔ دنیا اس شاعر کو ساغر صدیقی کے نام سے جانتی ہے۔ اس نے اپنے وطن سے ٹوٹ کر محبت کی مگر افسوس کہ اسی وطن میں وہ زندگی بھر دربدر رہا۔ حکمرانوں کی بے حسی، کرپشن اور عوام کی طرف سے عدم توجہہی  اس کا سب سے بڑا المیہ تھی۔ وہ اتنا مایوس ہوا کہ نشے جیسی لعنت کا شکار ہو گیا۔ ساغر صدیقی کا یہ شعر ان کی اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
   جس دور میں لٹ جائے غریبوں کی کما ئی
   اس دور کے سلطاں سے کوئی بھول ہو ئی ہے
اردو شاعری کی تاریخ میں جون ایلیا اور محسن نقوی کے کردار کو بھی ہرگز فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کلام اردو کا ایک قیمتی سرمایہ ہے مگر افسوس کہ سخن کے ان روشن چراغوں کو بھی بڑی  بے دردی سے بجھا دیا گیا۔
       موسیقی کی دنیا میں ریشماں کی آواز کی بازگشت ہمیشہ گونجتی رہی گی۔ اندرون سندھ کے چھوٹے سے گائوں سے آنے والی اس گلوکارہ نے اپنی منفرد آواز سے ایسا جادو جگایا کہ موسیقی کاروں اور فلم انڈسٹری سے لے کر عوام تک ان کے گرویدہ ہو گئے۔ ریشماں کے گانوں نے شہرت کی ان بلندیوں کو چھوا جنہیں سرحد پار بھی سراہا گیا۔ ان کے گانے آج بھی پاکستان اور ہندوستان میں بڑے شوق سے سنے اور گائے جاتے ہیں۔ اپنی سریلی آواز سے سب کا دل جیت لینے والی ریشماں کو گلے کے کینسر نے آ لیا۔ حکومت وقت کی جانب سے ان کے علاج لیے 10لاکھ روپے اور ہر ماہ ایک لاکھ روپے وظیفے کا اعلان کیا گیا مگر پھر حکومت کی تبدیلی کے باعث یہ ممکن نا ہو سکا اور ریشماں  2013ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں۔
       فلمی دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو 1970ء اور 1980ء کی دہائیاں پاکستان کی فلم انڈسٹری کا سنہری دور تھیں۔ اس دور کے فلمی ستاروں کی چمک دمک کی یادیں آج تک باقی ہیں۔ ان بے شمار ہونہار فنکاروں میں وحید مراد اور سلطان را ہی دو ایسے نام ہیں جو اس دور میں ہر دل کی دھڑکن تھے۔ اپنے منفرد انداز، عمدہ اداکاری اور مزیدار ڈائیلاگز کی وجہ سے انہوں نے نہ صرف فلمی دنیا بلکہ عوام کے دلوں پر بھی راج کیا ہے۔ لیکن نجانے تقدیر نے کیسا کھیل رچا کہ ہردل عزیز ہیرو وحید مراد کو خودکشی جیسا قدم اٹھانا پڑا اور ہر خاص وعام کے من پسند اداکار سلطان را ہی کو کچھ ایسی سفاکی سے قتل کر دیا گیا کہ آج تک قاتل کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
       1993 ء سے 1996 ء تک ہر گھر کی رونق اور بالخصوص بچوں کے دلوں کی دھڑکن بنے رہنے والے ٹی وی ڈرامہ عینک والا جن کے مشہور و معروف کردار نستور جن المعروف عینک والا جن کے حالات زندگی بھی باقی فنکاروں سے کچھ مختلف نہ تھے۔ عینک والا جن کا کردار ادا کر کے سب کی محبتیں بٹورنے والے شیراز قیصر نے وہ دن بھی دیکھے کہ جب ان کے گھر کی چھت ٹپکتی تھی اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ان کے بچے اسکول جانے سے قاصر تھے۔ اسی ڈرامے میں بلبتوڑی کا کردار ادا کر کے سب کے چہروں پہ مسکراہٹیں بکھیرنے والی نصرت آرا نے اپنی زندگی میں وہ دن بھی دیکھے کہ جب انہیں داتا دربار کے لنگر سے کھا کر گزر اوقات کرنا پڑی۔ انہیں جلد کا ایک مہلک مرض لاحق ہوا جس کے علاج کے لیے ان کے پاس رقم نہ تھی اور وہ اسی حالت میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔ 
       یہ تو چند مشہور مثالیں ہیں ورنہ خدا جانے کتنے ہی ایسے فنکار ہوں گے جو اپنی خدمات کے بدلے میں  نا قدری اور تنہا ئی کا تحفہ وصول کر کے محفل دنیا کو خیرباد کہہ گئے۔ ایک فنکار چاہے وہ شاعر ہو، مصنف ہو، گلوکار ہو یا اداکار اس کی زندگی انتھک محنت، مشکلات سے لڑنے اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں گزر جاتی ہے پھر جا کر وہ وقت آتا ہے جب دنیا اسے جاننے لگتی ہے۔ لیکن یہ پذیرائی اور شہرت بھی چار دن کی چاندنی کی مانند ہوتی ہے۔ بشیر بدر فنکاروں کی مشقت بھری زندگی کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں
   یہ پھول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں
   تم نے میرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا
  ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے  قومی ہیرو کی قدر کرنا نہیں سیکھا۔ ایک فنکار ایک قومی ہیرو اپنی عظیم اور قابل ذکر خدمات اور اپنے قابل افتخار کارناموں کی بدولت جس عزت افزا ئی اور قدر کا مستحق ہوتا ہے ہمارے معاشرے میں وہ اسے کبھی حاصل نہیں ہوتی۔
       پاکستان کے ماضی کے خزانے کا جائرہ لیا جائے تو اس میں ایسے ایسے ہیرے ملتے ہیں جن کی چمک دمک آج بھی ہماری قوم کو روشنی فراہم کر سکتی ہے مگر افسوس صد افسوس کہ قوم کا نوجوان طبقہ ان سے مکمل طور پر ناواقف ہے۔ ہم وہ قوم ہیں جسے اللہ نے قائد اعظم اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے قابل سیاستدان اور عوامی لیڈر، علامہ اقبال، فیض احمد فیض، احمد فراز، احمد ندیم قاسمی، احسان دانش، ساغر صدیقی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، واصف علی واصف، قرہ العین حیدر، مستنصر حسین تارڑ اور انور مسعود جیسے بے شمار شاعر، ادیب، مفکر اور دانشور عطا کئے ہیں۔ ان شخصیات کو خراج تحسین پیش کرنے اور نوجوانوں کو ان سے واقف کرانے کا ایک موثر طریقہ یہ ہے کہ تعلیمی نصاب میں ان کے حالات زندگی پر مشتمل مضامین شامل کئے جائیں اور ان کے  کلام اور ادب پاروں کو بھی شامل نصاب کیا جائے تاکہ طلبہ ان کی فکر سے آگاہ ہو سکیں اور ان سے رہنما ئی حاصل کر سکیں۔ اردو کے نصاب میں اشعار کو تشریح کے ساتھ شامل کیا جائے تاکہ شعراء کی بات پوری طرح سے طلبہ تک پہنچ سکے۔
       پاکستانی سنیما ایک طویل عرصے تک زوال کا شکار رہنے کے بعد اب دوبارہ ترقی کی راہوں پر گامزن ہوتا نظر آ رہا ہے۔ لوگ پھر سے پاکستانی فلموں میں دلچسپی ظاہر کرنے لگے ہیں۔ یہ بہترین موقع ہے اپنے قومی ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنے کا۔ ان کی زندگیوں پر فلمیں بنائی جائیں اور آج کے بہترین اداکاروں کو وہ کردار دیئے جائیں تاکہ عوام اور بالخصوص نوجوان طبقہ اسے زیادہ سے زیادہ  دیکھے۔
   ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
   بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا 
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: