Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عدم مساوات، کسی صنف نازک نے مرد کی تعریف میں شعر نہیں لکھا

ثمینہ عاصم۔ جدہ
شاعر حضرات نے عورتوں کی خوبصورتی پر نثری کتابوں کا ڈھیر اور دواوین کے انبارلگا دیئے۔ عورتوں کی آنکھوں پر ، زلفوں پر ، نازکی پر ، ہونٹوں پر نہ جانے کتنا کچھ کہہ ڈالا، کیسی کیسی اور کس کس انداز میںتعریفیں کر ڈالیں لیکن حیرت اور انتہائی افسوس کی بات اور ادبی عدم مساوات کا لا ینفک ثبوت ہے کہ کسی صنف نازک نے مرد حضرات کی تعریف میں کوئی شعر نہیں لکھا ۔ انہیں حسرت ہی رہی کہ کبھی کسی جانب سے آنے والی کوئی ایسی نسوانی صداسماعتوں سے متصادم ہو کہ کیا کہنے تیری مونچھیں تلوار جیسی، تیرے ابرو کٹار جیسے،ترے نخرے خونخوار جیسے وغیرہ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عورتیں شایدتعریفیں سننے کی عادی ہیں، کرنے کی عادی نہیں اور مرد حضرات تعریف کرنے میںایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے عادی ہوتے ہیں۔ اگر انہیںنقاب میں بھی کوئی نازک صنف دکھائی دے جائے تو وہ صوتی، بصری، اشارتاً کنایتاً توصیفی حرکات کر نے سے گریز نہیں کرتے۔ اس موقع پر وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ نقاب میں کہیں ان کی والدہ محترمہ نہ ہوں۔ اس امکان کو رد کرنے کے حفظ ماتقدم کے طور پروہ گھر میں موجود اپنی والدہ کے برقع کواچھی طرح ”ازبر“ کر لیتے ہیں تاکہ اسے دیکھتے ہی وہ جان جائیں کہ اس برقعے میں مستور وجود میری والدہ ہی ہیں کوئی اور نہیںیا یہ کہ اس برقع کی آڑ میں میری والدہ ہو ہی نہیں سکتیں کیونکہ میری امی کا برقع ایسا ہے ہی نہیں۔
مردوں کی شاعری میں اپنی پسندیدہ شخصیت کی خوبصورتی کی تعریف کے ساتھ ساتھ ان کی بے وفائی کا رونا بھی ہوتا ہے اوروہ ہر وقت اس بے وفائی کے خیال سے آہیں بھرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ وہ اپنی بیویوں میں ان محبوب یا پسندیدہ صنف مخالف کی خوبصورتی اور ادائیں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلا شبہ یہ تو وہی مثال ہو گئی کہ اگر کوئی غم نہ ہو تو بکری پال لو۔ ظاہر ہے اب بکری تومحبوبہ ہونے سے رہی۔
بعض حضرات اور خصوصاً وہ مذکر ہستیاں جو صنف مخالف کی منظوم تعریف کرنے کے فن سے آشنا ہوتے ہیں، وہ اپنی پسندیدہ شخصیت کی پرچھائیں تلاش کرنے کے چکر میں ہی دوتین شادیاں بھی کرڈالتے ہیں پھر اگر ہر بیوی اپنے مزاج اور استطاعت کے مطابق ناک میں دم کرنا شروع کر دے توبہت جلدموصوف کی اصلاح ہو جاتی ہے، مزاج میں سدھار آجاتا ہے ، نظر جھک جاتی ہے ، دنیا سے دل اکتانے لگتا ہے اور پھر ”پسندیدہ شخصیت“کا خیال ذہن سے کسی حرف غلط کی طرح مٹ جاتا ہے ۔
ایک مذکر کو اپنی ممکنہ زوجہ کی بے وفائی کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس سانحے کے کچھ روز کے بعد ہی اس مونث نے کہیں اور شادی کر لی۔ کئی مہینوں تک افسردگی کے بادل چھائے رہے ۔ ایک سال گزرنے کے بعد لڑکے کی اماں نے ایک جگہ ان کی منگنی کر دی۔ لڑکا بھی خوش تھا لیکن چیٹنگ کے دوران سابقہ روابط کا ذکر چل نکلا۔ بس پھر کیا تھا لڑکے نے فوراً کہا مجھے اپنی سابقہ ممکنہ اہلیہ جو ”بے وفا“ ہوگئی، اسی جیسی شکل اور انداز چاہئے تم اس کی طرح مہندی لگانا کپڑے اس فیشن کے پہننا اور یہ والا پرفیوم لگانا میں تم سے شادی تو کرلوں گا لیکن تمہیں ویسا ہی بن کر رہنا ہو گا۔ میری خواہش کے مطابق ۔ اس بات پر ذراگرما گرمی ہوگئی ۔ لڑکی نے اپنی والدہ سے کہا کہ وہ اپنے پرانے روابط کوبھولا نہیں اور اس کی یہ مجال کے اپنی سابقہ کو مجھ سے زیادہ اہمیت دے رہاہے۔
آج صورت حال یہ ہے کہ وہ صاحب اپنی منگنیاں تڑوانے کا ریکارڈ قائم کر چکے ہیں اور ان کی پسندیدہ مگر بے وفا شخصیت اپنے شوہر کے ساتھ لندن کی ہوائیں کھا رہی ہیں۔ یہ اس کے غم میں گنجے ہوئے جائے رہے ہیں۔ 
ایک صاحب اپنی ماموں زاد سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ آپس کے جھگڑوں کی وجہ سے دونوں کی شادی نہ ہو سکی حالانکہ دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے۔ اس کے بعد لڑکی کی شادی ہو گئی اور وہ دو بچوں کی اماں بن گئی اور یہ صاحب ماموں بن گئے لیکن اس کی لڑکی نے ان صاحب کی شادی 38سال کی عمر تک نہ ہونے دی۔ جہاں بھی ان کے رشتے کی بات چلتی کسی نہ کسی وجہ سے بات ختم ہو جاتی ۔ آخر کسی نے مشورہ دیا کہ آپ شہر سے باہر کسی دوسرے شہر میں رشتہ تلاش کریں۔ لڑکے کی بہنوں نے ایسا ہی کیا اور اس شخص کی شادی دوسرے شہر میں جا کر کر دی۔ وہ صاحب روزانہ گھنٹوں اپنی پسندیدہ ہستی سے نیٹ پر مشورے لیتے رہتے تھے اور اپنے گھر کا سکون اور بیوی کا چین برباد کرتے تھے مگر وہ صاحبہ اپنا گھر خراب نہیں کرتی تھیں ۔
آج کے دور میں یہ چیٹنگ ہر گھر کی کہانی بنتی جا رہی ہے۔ اس نیٹ اور چیٹنگ کی وجہ سے بہت سے بسے بسا ئے گھر ٹوٹ رہے ہیں۔
 
 

شیئر: