Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کا ہدف مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں

محمد آل سلطان۔ عکاظ
میرا خیال ہے کہ سعودی عرب نے جو سب سے بڑی سیاسی فتح حاصل کی ہے وہ اس کا پر امن مقاصد کےلئے استعمال ہونےوالا جوہری منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کواب پوری دنیا میں قبولیت عام حاصل ہوچکی ہے۔ سعودی عرب اس بات کا حریص ہے کہ جوہری ٹیکنالوجی کی منتقلی کےلئے جدید ترین ذرائع کا استعمال ہو۔ اگر ایسا ہوا تو دنیا بھر میں اسے اس حوالے سے منفرد مقام حاصل ہوگا۔اس مقصد کے حصول کےلئے سعودی عرب نے متعدد ممالک کے ساتھ معاہدے کر رکھے ہیں۔ اس نے چین، جنوبی کوریا، روس، فرانس ، برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ 16ایٹمی پلانٹ بنانے کے معاہدے کئے ہیں۔ سعودی عرب کی سفارتی کامیابی ہے کہ اس نے پر امن مقاصد کےلئے جوہری توانائی کے منصوبے کو حقیقت کا روپ دے دیا ہے جبکہ اسکے بالمقابل کئی ممالک ایسے ہیں جو ابھی تک جوہری توانائی کے حصول میں ناکام ہیں۔ 
وژن2030کے تحت سعودی عرب پر امید اور مواقع سے بھر پور ملک ہے جس کی چوٹی پر شہزادہ محمد بن سلمان جیسی نوجوان قیادت موجود ہے جنہوں نے سعودیوں کو نہ صرف خواب دکھایا ہے بلکہ اس خواب کو حقیقت بنانے کے بھی قریب ہیں۔ سعودی عرب کیونکہ بڑا ملک ہے اور اسکے پاس تیل کے زبردست ذخائر موجود ہیں ، اسے پوری طرح سے اندازہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک کےلئے طاقت اور قوت کا مرکز اس کی توانائی خواہ وہ تیل اور گیس کی صورت میں ہو یا شمسی توانائی ہو یا پھر جوہری توانائی ہے۔ اسکی کوشش ہے کہ توانائی کے حصول کےلئے وہ اسکے مختلف ذرائع کو بیک وقت استعمال کرے تاکہ اسکا مستقبل محفوظ رہے ۔ پانی اور بجلی کی مقامی بڑھتی ہوئی طلب کے علاوہ صنعتی اور زرعی ضرورتوں کو پورا کرنے کےلئے ضروری ہے کہ توانائی کے تمام ذرائع استعمال کئے جائیں۔ اس طرح وہ ایک طرف اپنی ضرورتیں پوری کرےگا تو دوسری طرف وہ متبادل ذرائع سے توانائی پیدا کرکے ایک ملین بیرل پٹرول بچا سکتا ہے جسے وہ دیگر ضرورتوں میں استعمال کرسکے گا۔ 
سعودی عرب کی ترقی سے صرف مقامی طور پر فائدہ نہیں ہوگا بلکہ خطے کے دیگر ممالک بھی اس سے مستفید ہونگے۔ اگر اسنے ا پنے وژن کے 50فیصد اہداف بھی حاصل کرلئے تو نہ صرف سعودی شہریوں کا طرز زندگی بہتر ہوگا بلکہ اس کے اثرات پورے خطے پر بھی پڑ ینگے تا ہم صورتحال اتنی آسان نہیں مگر ہدف کا حصول مشکل ضرور ہے ، ناممکن نہیں۔ سعودی عرب کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ خاص طور پر اسکے پڑوس میں ایران کی صورت میں ایک ایسا ملک ہے جو اس سے بغض رکھتا ہے اور ایٹم بم کے حصول کےلئے کوشاں ہے، اسکی کوشش ہے کہ وہ ایسے ا یٹمی میزائل تیار کرنے میں کامیاب ہوجائے جنکی پہنچ سعودی عرب کے تمام شہروں تک ہوں۔ گوکہ ایران نے مغربی ممالک کےسا تھ ایٹمی معا ہد ہ کر رکھاہے مگر سعودی عرب کو معلوم ہے کہ اس معاہدے میں کئی خامیاں ہیں جنکا فائدہ اٹھاکر ایران خطے میں طاقت کا توازن بگاڑ سکتا ہے ۔ 
سعودی قیادت اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی کہ اسکے تمام تر ذخائر اور اسکا مستقبل 2 ایٹمی قوتوں کے درمیان محصور ہوجائے۔ ایک طرف ایران اور دوسری طرف اسرائیل اور دونوں کے پاس ایٹمی ٹیکنالوجی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ جانے سے پہلے اور ٹرمپ سے ملاقات سے بیشتر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دنیا کو واضح کردیا ہے کہ اگر ایران کے ایٹمی ٹیکنالوجی اور اسکے توسیع پسند منصوبے کو لگام نہ ڈالی گئی تو سعودی عرب اتنی تیزی سے ایٹم بم بنالے گا جس کا تصور دنیا کا کوئی ملک بھی نہیں کر سکتا۔ یہ دنیا کو واضح پیغام ہے کہ سعودی عرب ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول میں کس قدر حریص ہے بلکہ وہ ایٹم بم بنانے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ عالمی برادری کی طرف سے ایران کی اچھل کود پر خاموشی سے سعودی عرب بے بس نہیں رہے گا۔ اسکے پاس اپنے مستقبل کو محفوظ رکھنے کے متبادل موجود ہیں جنہیں کسی بھی وقت استعمال کیا جاسکتا ہے۔ 
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: