Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

والدین سمیت سب ساتھ چھوڑ گئے

ماں اور باپ اپنی اپنی محبت کیساتھ چلے گئے، تہوار آتے ہیں، چلے جاتے ہیں، خاندان کے ساتھ تہوار منانے کی خوشی مجھے ملی ہی نہیں، تعلیم ہی میری زندگی کو سنوارنے کا واحد ذریعہ ہے
جس طرح کوئی کھانا پسند نہ آنے اور کپڑا فٹ نہ ہونے پر آپ اسے چھوڑ دیتے ہیں اسی طرح مجھے بھی چھوڑ دیا گیا۔
 میرے والدین نے مجھے بچپن میں ہی تنہا چھوڑ دیا۔
کیا ان کا انتقال ہو گیا ہے؟ نہیں، میں یتیم نہیں ہوں اور یہی بات میرے لیے شدید تکلیف کا باعث ہے۔
میرے والدین زندہ ہیں اور اسی گاؤں میں رہتے ہیں جہاں میں رہتی ہوں، لیکن وہ مجھ سے اجنبیوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔
 جب میں پنگوڑے میں ہی تھی اسی زمانے میں انھوں نے مجھے چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
اس عمر میں یا تو میں کھلکھلا کر ہنس سکتی تھی یا پھر بھوک لگنے پر کسی کے چپ کرانے کا انتظار کر سکتی تھی۔
اس وقت میں ایک ایسی بچی تھی جو نہ تو بول سکتی تھی اور نہ ہی کچھ کھو دینے کا مطلب ہی اس کی سمجھ میں آتا تھا۔
میرے والد نے میری پیدائش کے فورا بعد میری والدہ کو چھوڑ دیا اور کسی دوسری عورت سے شادی کر لی اور بعد میں ان کے اپنے بچے بھی ہوئے۔
اس کے بعد میری ماں نے بھی مجھے چھوڑ دیا۔ وہ بھی کسی دوسرے آدمی کی محبت میں چلی گئی۔
اور میں؟ میں یہ بھی نہیں جانتی کہ مجھے کیا یاد رکھنا چاہیے کیونکہ مجھے تو کسی کی محبت ملی ہی نہیں۔
میرے ماموں کو مجھ پر ترس آیا اور انھوں نے مجھے پالا۔ جب میں چیزوں کو سمجھنے کے ذرا لائق ہوئی تو انھوں نے ہی مجھے میرے والدین سے ملایا۔
میں نے انھیں اداس نظروں سے دیکھا۔ میں نے سوچا کہ وہ مجھے کھینچ کراپنے گلے سے لگا لیں گے لیکن انھوں نے مجھے کسی انجان کی طرح دیکھا۔
مجھ پر یہ واضح ہو گیا کہ میں ان میں سے کسی کی اولاد نہیں۔
پھر میرے ماموں نے مجھے ایک این جی او کی جانب سے چلنے والے ہاسٹل میں ڈال دیا۔ مجھے یہ احساس نہیں تھا کہ وہاں بھی ایک صدمہ میرا منتظر ہے۔ میرے والد نے میری سوتیلی بہن کو بھی اسی ہاسٹل میں بھی پہنچا دیا جسے دیکھ کر مجھے روز احساس ہوتا تھا کہ میں ان چاہی (ناپسندیدہ)  اولاد ہوں۔
میرے دل میں اس سے کوئی بیر نہیں ۔ ہم اکثر بات کرتے کیونکہ ہم دونوں ایک دوسرے کی سچائی سے واقف ہیں۔
تاہم میرے لئے یہ اندوہناک تھا۔ میرے والد اکثر اس سے ملنے آتے اور چھٹیوں میں اسے گھر لے جاتے۔میں خاموشی سے دیکھتی اور انتظار کرتی کہ کیا وہ کبھی مجھے بھی گھر آنے کے لئے کہیں گے لیکن میری امید ہر بار ٹوٹ جاتی۔ وہ میری طرف دیکھتے بھی نہیں۔
میں یہ نہیں جانتی کہ وہ مجھ سے پیار کرتے بھی ہیں یا نہیں، یا میری سوتیلی ماں انھیں مجھے اپنے گھر لانے کی اجازت دیں گی یا نہیں۔میں ان کی نظروں کے سامنے سے چلی جاتی اور تنہائی میں روتی۔ دوسرے بچوں کی طرح مجھے چھٹیوں کا انتظار نہیں ہوتا۔ میرے لئے چھٹیوں کا مطلب پیسوں کے عوض کھیتوں میں کام کرنا ہے۔ ورنہ مجھے کھانا نہیں مل سکے گا۔ کبھی کبھی میں مویشی بھی چراتی ہوں۔ میں اپنی اجرت ماموں کے گھر دیتی ہوں۔ اس کے بدلے وہ مجھے کھانے اور رہنے کی جگہ دیتے ہیں۔ ا سکول اور ضرورت کی ا سٹیشنری کیلئے اسی وقت پیسے ملتے ہیں۔ ان سب کے باوجود میں اب بھی اپنے والدین سے محبت کرتی ہوں۔ میں ان سے ناراض نہیں ہوں۔
  میں ان کی محبت کیلئے تڑپتی ہوں۔ میں ان کے ساتھ تہوار منانے کا خواب دیکھتی ہوں۔ لیکن دونوں کے اپنے ساتھی اور بچے ہیں۔ مجھے ان کی دہلیز پر قدم رکھنے کی اجازت نہیں۔ مجھے ایسی کوشش کرنے سے بھی خوف آتا ہے۔ تہوار آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ خاندان کے ساتھ تہوار منانا ایک ایسی خوشی ہے جو مجھے نہیں مل سکی۔ میں صرف اپنے دوستوں سے تہواروں کی کہانیاں سنتی ہوں۔ ان کی چھٹیاں بالکل میرے خوابوں جیسی ہوتی ہیں۔ میرے دوست ہی میرے حقیقی بھائی بہن ہیں جن کے ساتھ میں اپنی خوشی اور اداسی شیئر کرتی ہوں۔ میں ان سے اپنی باتیں کہتی ہوں اور جب میں اپنی تنہائی سے لڑتے ہوئے تھک جاتی ہوں تو وہ میرا خیال رکھتے ہیں۔ ہاسٹل کی وارڈن میری اصل ماں کی طرح ہیں۔ ان کے ساتھ ہی میں نے’’ماں کی محبت‘‘کو سمجھا ہے۔ میرے دوست بیمار ہوتے ہیں تو وارڈن ان کے اہل خانہ کو بلاتی ہیں لیکن میرے لیے تو وہی میرا خاندان ہیں۔ وہ میرے لئے جو کرسکتی ہیں کرتی ہیں۔مجھے سب سے اچھے کپڑے دیتی ہیں۔ مجھے اس وقت بہت اچھا لگتا ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے کوئی مجھ سے بھی محبت کرتا ہے۔ لیکن زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے بغیر میں نے جینا سیکھ لیا ہے۔ جیسے میں کسی سے یہ نہیں کہہ سکتی کہ میری پسند کا کھانا بنا دو۔
میں فی الحال نویں کلاس میں ہوں اور یہ ہاسٹل بچوں کو صرف دسویں کلاس تک رکھتا ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ اس کے بعد کہاں جانا ہے۔ میرے ماموں اب اور میرا ساتھ نہیں دے سکتے۔ شاید مجھے اپنے  اسکول کی فیس جمع کرنے کیلئے کام کرنا ہوگا کیونکہ یہ تو طے ہے کہ میں اپنی تعلیم نہیں چھوڑوں گی۔ میری تعلیم میری زندگی کو سنوارنے کا واحد ذریعہ ہے۔ میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں۔ اگر میں گاؤں واپس جاؤں تو شاید میری شادی کرا دی جائے۔ ایسا نہیں ہے کہ میں شادی یا خاندان سے نفرت کرتی ہوں لیکن پہلے میں خود کفیل بننا چاہتی ہوں۔ جب میں بڑی ہو جاؤں گی تو میں اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کروں گی اور ایک خوبصورت اور پیارا سا کنبہ بنانے کی کوشش کروں گی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: