Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ دونوں ایک دوسرے پر نچھاور ہو ئے جارہے تھے

عابدہ رحمانی۔امریکہ
دبئی ایئر پورٹ سے کراچی کیلئے روانگی تھی۔جانے سے دو روز پہلے خبر ملی کہ نسیمہ جو چند روز پہلے دبئی میں رکتے ہوئے کراچی گئی تھی، اپنے ساتھ والی سیٹ پر ایک خاتون اس سے پوچھتی رہی کہ دبئی میں کیا شاپنگ کی ہے اور نسیمہ نے خوب بڑھا چڑھا کر تفصیلات بتائیں۔ اسکی شیخی خوری اور خود نمائی کی عادت تو تھی ہی اور اس طرح کے قصے تو وہ خوب مزے لے لے کر بیان کرتی تھی۔اسے خوب یاد ہے کہ کراچی پہنچ کر خاتون نے کسی کو فون کیا اور کچھ تفصیلات بتاتی رہی۔ اسے اسکے بھائی لینے آئے تھے۔ گھر پہنچے تو اسلحے کے زور پر ایک اور گاڑی گیٹ میں داخل ہوئی۔انہوں نے نسیمہ سمیت تمام گھر والوں کا صفایا کر دیا۔ جانیں اور عزت بچ گئی ،یہی غنیمت تھا۔
نہ تو میں شیخی خور ہوں اور نہ ہی میں نے دبئی میں کوئی خاص خریداری کی تھی لیکن میں نے فیصلہ کیا تھا کہ لئے دیئے رہوںگی۔ گیٹ کے قریب نشست سنبھالی تو چاروں طرف نظر دوڑائی۔ کونے میں ایک پاکستانی جوڑا براجمان تھا۔وہ دونوں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ایک دوسرے پر نچھاور ہو ئے جارہے تھے۔ہمارے پاکستانی کلچر میں میاں بیوی تو ایسا ہرگز نہیں کرتے اور وہ بھی پبلک کے سامنے۔ لڑکی کا لباس بھی قدرے بے حجابانہ تھا، شاید شو بز سے تعلق ہوگا۔
میں نے دل میں سوچا کہ یہ دبئی ہے،یہاں تو کوئی اعتراض نہیں کرتا۔یہ ”دوستی “ کا چکر کھلم کھلا تو اب بھی پاکستان میں نہیں چلتا۔اتنے میں ایک لڑکا میرے پاس آیااور بولا” آنٹی آپ کراچی جارہی ہیں ،میں بھی کراچی جارہا ہوں۔میں یہاں اکیلا رہتا ہوں۔ جب بھی موقع ملتا ہے کراچی کا چکر لگا لیتا ہوں، باقی فیملی وہیں ہے۔ میں بادل ناخواستہ اسکی کہانی سنکر ہوں ہاں کرتی رہی۔ 
اتنے میں جہاز میں جانے کا اعلان ہوا۔ جہاز میں داخل ہوئی تو دیکھا وہی جوڑا میرے سامنے والی سیٹ پر براجمان ہے۔ ایک فلائٹ اٹینڈنٹ انکے پاس آیا اور انکو خوش آمدید کہااور کہنے لگا کہ ہمیں خوشی ہے آپ ہمارے ساتھ سفر کر رہے ہیں۔اس سے یہ بات تو طے ہوگئی کہ یہ شو بز کے لوگ ہیں،لیکن کون ہیں؟ اتنے میں ایک خاتون میری ساتھ والی سیٹ پر آئیں اور ان کو دیکھ کر چہک اٹھیں کہ ارے یہ تو فلاں اداکار ہے۔ اسکا فلاں فلاں شو کافی مشہور ہے۔ اس دن یہ اُس ٹی وی شو میں آئے تھے۔ کیا آپ نہیں جانتیں ؟یہ لڑکی کون ہے اور اسکی کیا ہے ؟ میری ساری توجہ لڑکی کی طرف تھی۔خاتون نے لاعلمی کا اظہار کیااور بتایا کہ اسکی تو ابھی تک شادی ہی نہیں ہوئی۔ میں ان پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی کہ میں امریکہ سے آئی ہوں اور میرے پاس پاکستانی چینل نہیں ، اس لئے میں انہیں قطعی نہیں جانتی۔
جہاز اڑاہی تھا کہ چائے کی سروس شروع ہوئی۔ خاتون کے ہاتھ پر مکھن لگ گیا تھا اور ان کا دودھ کا پیکٹ نہیں کھل رہاتھا۔ انہوں نے اس ”اداکار“سے کھلوایا اور اس نے اسے کسی نہ کسی طرح کھول ہی دیا۔ خاتون نے اسے ٹشو پیپر بڑھا کر ، اس پر آٹو گراف بھی لے لیا اور اسکے مختلف پروگراموں کی تعریف کرتی رہیں۔ میں قدرے جز بز ہوتی رہی کہ کس طرح گفتگو کا آغاز کروں۔ اسکے ساتھ والی لڑکی کو متلی شروع ہوئی ، اسنے قے کے لئے اپنے منہ سے بیگ لگا لیا۔بالآخر میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا ۔یہ آپکی بیوی ہے کیا ؟ میں نے پوچھ ہی ڈالا۔ جواب ملا،جی ہاں، جی ہاں بالکل ،یہ فلاں مشہور ماڈل ہیں ،ہماری 2 مہینے پہلے ہی شادی ہوئی ہے۔ کچھ طبیعت ٹھیک نہیں ہے انکی۔یہ سن کر میری تمام پریشانی دور ہوئی۔مجھے یک گونا اطمینان اور سکون ہوا۔ انکا جائز رشتہ ، آپس کی محبت اور الفت مجھے بے حد بھانے لگی اور پھر کراچی آمد تک ہر خطرے سے بے نیاز ہو کران سے میں نے خوب گپیں لگائیں اور سفر کو اچھی یادوں کے سپرد کر دیا۔اس لمحے مجھے خیال آیا کہ کسی کے بارے میں بلا سوچے سمجھے کوئی مفروضہ قائم نہیں کرنا چاہئے۔ بہتر ہے کہ کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے سے پہلے باقاعدہ تحقیق کر لی جائے۔
 

شیئر: