Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران کے حوالے سے مغرب کی خوش گمانی

عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
ولی عہد و وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ امریکہ سے پہلے بعض یورپی ممالک کی سفارتکاری انتہائی تیز ہوگئی ہے۔ اس کا مقصد ایران کےساتھ مغربی ممالک کا ہونے والا ایٹمی معاہدہ ہے۔ یورپی ممالک کی کوشش ہے کہ ایک طرف ایران کو کسی حد تک محدود کیا جائے تو دوسری طرف امریکی انتظامیہ کو معاہدہ منسوخ نہ کرنے پر قائل کیا جائے۔ ولی عہد جب واشنگٹن پہنچیں گے تو ان سے پہلے ٹرمپ انتظامیہ میں ٹلرسن نکل چکے ہیں او رانکی جگہ انتظامیہ کے ہم آہنگ وزیر خارجہ نے قلمدان سنبھال لیا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی ممالک خوفزدہ ہیں کہ نئی امریکی انتظامیہ ایران کے ساتھ پورے معاہدے کو منسوخ ہی نہ کردے۔ حقیقت یہ ہے کہ” فائیو پلس ون“ معاہدہ جو دراصل سیکیورٹی کونسل کے مستقل ارکان کے علاوہ جرمنی اور ایران کے درمیان ہوا تھا ، خطے میں ہونے والے انتشار کی بنیادی وجہ ہے۔ ایران یورینیئم کی افزودگی کو محدود کرنے کا معاہدہ کرکے اپنے اوپر پابندیاں ہٹانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ خطے میں اسکی عسکری سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ معاہدے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے بیلسٹک میزائل سسٹم کوبھی مضبوط کیا ہے جن میں ایٹمی وار ہیڈ لیجانے کی سہولت ہے۔ اُس وقت سے لیکر آج تک مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ معاہدے کی وجہ سے خطہ جنگ و جدل میں جھونک دیا گیا ہے۔ ایران بلا خوف و خطر خطے میں اچھل کود کررہا ہے۔ مغرب کی خوش گمانی دھری کی دھری رہ گئی کہ معاہدے کی وجہ سے ایران اپنی پالیسیوں میں اعتدال کی راہ اختیار کریگا۔
وائٹ ہاﺅس میں ٹرمپ کی آمد اور ولی عہد کے دورہ امریکہ سے ایران کیساتھ ہونے والا ایٹمی معاہدہ مشکوک ہوگیا ہے۔ خاص طور پر جب یہ معلوم ہوجائے کہ دونوں رہنما ایران کی خطے میں مداخلت اور بڑھتی ہوئی دہشتگردی کے سخت خلاف ہیں۔ مسئلہ معاہدے کا ہی نہیں بلکہ ایرانی انتظامیہ کا ہے۔ شام اور عراق میں امریکہ کو جن پریشانیوں کا سامنا ہے انکی بنیادی وجہ ایرانی مداخلت ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کو یمن میں جس صورتحال کا سامنا ہے اسکی بنیادی وجہ بھی وہ انقلابی گروہ ہے جس کی پشت پناہی ایران کررہا ہے۔ یورپ خطے میں کشیدگی کا خواہاں نہیں، نہ ہی وہ کسی بھی فریق سے مقابلہ کرنے کی سکت رکھتا ہے اس لئے انکی کوشش ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب سمیت ایران کو کسی متفقہ نکتے پر یکجا کرلے۔ وہ ایران کی ایٹمی ٹیکنالوجی کو محدود بھی کرنا چاہتا ہے اور خطے میں اسکی مداخلت کو بھی ختم کرنے کا خواہاں ہے۔ یورپ ایران کے خلاف کارروائی کے حق میں نہیں۔ نہ ہی حزب اللہ کے خلاف پابندی لگانا چاہتا ہے۔ اس روش کی وجہ سے یورپ کی طرف سے کی جانے والی تدابیر ایران کو لگام لگانے کیلئے کافی نہیں۔ ایران کو مذاکرات کی میز پر پابندیوںنے آنے پر مجبور کیا تھا۔ اب دوبارہ مذاکرات کی میز پر یہی پابندیاں اسے آنے پر مجبور کرینگی۔ افسوس کہ خطے کے متعلقہ ممالک سے مشورہ کئے بغیر ایک ایسے معاہدے پر دستخط کئے گئے جو سراسر ایران کے حق میں جاتا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان اور امریکی صدر ٹرمپ ایک ایسے نکتے پر پہنچ سکتے ہیں جس سے خطے کوگزشتہ 40سال سے درپیش خطرات ٹل سکتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی صورتحال ہوگی جس سے ایران کا جوہری منصوبہ محدود تر ہوگا اور دوسری جانب خطے میں اس کی تخریب کاری کا بھی انسداد ہوجائیگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: